حفیظ نعمانی
مس مایاوتی ایک پارٹی نہیں ایک مسئلہ ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہندوستان کے جس صوبہ میں جتنے دلت ہیں ان سب کی لیڈر مایاوتی ہیں۔ اور جہاں بھی الیکشن ہوں وہاں مایاوتی کے اُمیدوار ضرور الیکشن لڑیں گے۔ اور اس کے نتیجہ میں اگر ایک یا دو سیٹیں مل جاتی ہیں تو وہاں مایاوتی کا حصہ ہوجاتا ہے۔ کرناٹک میں بھی ایک ممبر ان کے ٹکٹ پر جیت گیا تو وہ بنگلور پہونچ گئیں اور سابق اسمبلی میں اتراکھنڈ میں ان کے دو ممبر تھے تو اتراکھنڈ ان کا تھا اس بار سب ہار گئے تو وہ ذکر نہیں کرتیں۔
خیال ہے کہ چند روز میں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوجائے گا۔ ان تینوں ریاستوں میں کانگریس نے بہت محنت کی ہے اور ہوسکتا ہے مایاوتی بھی کہیں گئی ہوں جو ہمیں یاد نہیں لیکن ان تینوں صوبوں میں جتنے دلت ہیں ان کی مالک مایاوتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کا مطالبہ ہے کہ کانگریس ان کے لئے خاطر خواہ سیٹیں چھوڑے یعنی وہاں مایاوتی کے اُمیدوار لڑیں اور کانگریس ان کو کامیاب کرائے۔
مدھیہ پردیش میں دگ وجے سنگھ پہلے پارٹی کے ذمہ دار ہوتے تھے اس کے بعد درمیان میں جو بھی رہا ہو لیکن اس بار کمل ناتھ الیکشن انچارج ہیں اور دگ وجے سنگھ کا ہماری اطلاع کے مطابق کوئی دخل نہیں ہے۔ وہ کانگریس کے جنرل سکریٹری ضرور ہیں۔ اب اگر انہوں نے کچھ کہا تو اس کی حیثیت پارٹی کے فیصلہ کی نہیں ہے۔ مایاوتی، راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کی تعریف کریں اور کانگریس کے بارے میں کہیں کہ کسی بھی قیمت پر گٹھ بندھن نہیں ہوگا۔ یہ ایسی بات ہے جس پر غور کرنا چاہئے۔
وہ میڈیا جو یا تو مودی جی سے اتنا ڈرتا ہے کہ جو جے مودی اور جے امت کے علاوہ کچھ بول ہی نہیں سکتا وہ ہر اس بیان کو زلزلہ ثابت کرتا ہے جو گٹھ بندھن میں لائن ہی کھینچ سکے۔ اس گودی میڈیا نے مایاوتی کو ڈاکٹر امبیڈکر کے بعد دلتوں کی حقیقی بہن جی بنا رکھا ہے۔ مایاوتی اسی غرور میں گجرات کے الیکشن میں کود پڑیں اور دل کھول کر ٹکٹ دیئے۔ گجرات میں دلت ہیں اور وہاں ان کے لیڈر بھی ہیں جو ایم ایل اے بنے اور مایاوتی کا کیا حشر ہوا کوئی جانتا بھی نہیں۔
اب ان تینوں ریاستوں میں ان کی ضد ہے کہ 25 فیصدی سیٹیں کانگریس چھوڑے یعنی یاتو بی جے پی حکومت بنائے یا کانگریس بنائے تو مایاوتی کی اس میں شرکت ہو۔ 2007 ء میں اترپردیش میں دلتوں اور مسلمانوں نے اتنے ووٹ دیئے تھے کہ انہوں نے اپنے بل پر حکومت بنائی تھی۔ پھر انہوں نے پانچ برس میں جو کیا اسے دیکھ دیکھ کر سب حیران تھے کہ بہن جی کو کیا ہوگیا ہے؟ ان پر بھوت سوار ہوا تو سیکڑوں پتھر کے ہاتھی بنواکر کھڑے کردیئے جن پر سیکڑوں کروڑ روپئے خرچ ہوگئے اور حاصل کچھ نہیں۔ گریٹر نوئیڈا کے سیکڑوں پیڑ کٹوا دیئے اور کھجور کے درخت لگوادیئے جن میں سے ایک بھی ہرا نہیں بچا اور تمام اپنے بزرگوں کی مورتیاں بنوادیں اور اپنی بھی مورتی بنوادی۔ اور ان کے علاوہ اترپردیش کے وہ شوگرمل جو کسی وجہ سے بند تھے انہیں نیلام کردیا اور سب اپنے بھائی کے نام چھڑوا دیئے۔ اور بچکانہ ذہنیت کا آخری درجہ کا جو مظاہرہ کیا وہ یہ کہ ہزار ہزار کے نوٹوں کا ہاتھی کے پائوں کے برابر موٹا اور چار میٹر کے قریب لمبا ہار گلے میں ڈال کر ان دلتوں کو دکھایا جن کو ٹھیک سے دو وقت روٹی بھی مشکل سے ملتی ہوگی۔ وہ ہار نسیم الدین صدیقی نے بنوایا تھا وہی بتاسکتے ہیں کہ کتنے ہزار کروڑ روپئے تھے؟
ان باتوں کا اثر یہ ہوا کہ جب پانچ سال کے بعد الیکشن ہوئے تو کوئی نام لیوا بھی نہیں تھا۔ اور ان سے کم عمر کے اکھلیش یادو نے جو پانچ سال حکومت کی اس نے اپنی ذات کیلئے ایک جھونپڑی بھی نہیں بنائی اور اترپردیش کو گومتی ندی لکھنؤ کے گھنٹہ گھر لکھنؤ آگرہ کے درمیان ایسی سڑک جس پر جنگی جہاز بھی دوڑائے تو بال کا نشان نہیں پڑا۔ اور اگر ان کے باپ ملائم سنگھ دشمنوں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنے ہوتے تو وزیراعلیٰ آج بھی اکھلیش ہی ہوتے۔ اور وہ مایاوتی جن کے لئے کرایہ کے مولویوں، اماموں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبروں نے ذاتی طور پر ان کی حمایت میں بیان دیئے اس کے بعد بھی ان کے صرف 19 ممبر کامیاب ہوئے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مایاوتی سیاست میں ہیں مگر سیاسی نہیں ہیں کانشی رام نے یہ تو سکھا دیا کہ دلتوں کو اپنے ساتھ ملالو مگر یہ نہیں سکھایا کہ ان کو اپنے ساتھ کیسے رکھو؟ برہمن ہوں ٹھاکر ہوں مسلمان ہوں یا ہندو ہوں یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ لیڈر ان کے بل پر صرف روپیہ کمائے۔ ملک کے سیاسی لیڈروں میں ہوسکتا ہے کہ کوئی اور لیڈر بھی دولت مند ہو لیکن وہ مایاوتی جن کو سائیکل کے کیریئر پر بیٹھ کر کالج جاتا ہوا دیکھنے والے ابھی زندہ ہیں۔ وہ اب یہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں شاید ان سے زیادہ دولت کسی لیڈر کے پاس نہیں ہوگی۔ اور یہ ساری دولت دلتوں کے ووٹ بیچ کر کمائی ہے۔
اب مایاوتی دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ سب دلت ان کے پاس ہیں ان کی پارٹی کے لیڈر موریہ اور نسیم الدین صدیقی نے بھی جب انہیں چھوڑ دیا اور موریہ کے علاوہ نہ جانے کتنے بی جے پی میں چلے گئے تو ان کے پاس گیدڑ بھپکی کے علاوہ کیا رہ گیا؟ اس لئے کانگریس نے منطقائی سطح پر جگہ جگہ دلتوں کو جوڑنے کے لئے اجلاس کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ مایاوتی نے اپنے بیان میں چالاکی سے کام لیا ہے کہ دگ وجے سنگھ پر الزام رکھ دیا اور سونیا اور راہل کی تعریف کردی کہ وہ کچھ سیٹیں بڑھاکر سودا کرلیں مایاوتی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے آدمی کامیاب ہوں تو پانچ سال تک ان سے انڈے وصول کریں گی اور ہار گئے تو بلا سے کیونکہ وہ ٹکٹ دیتے وقت بھرپور پیسے لے لیتی ہیں اور زیادہ سیٹیں مانگنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ زیادہ ٹکٹ فروخت ہوجائیں۔ ان کی اسی روش نے انہیں پی پی موریہ یا چھیدی لال ساتھی بنا دیا ہے اور اگر انہوں نے دولت کی پوجا نہیں چھوڑی تو نام کی بہن جی رہ جائیں گی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
07؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں