از: محمد غفران اکرمی ندوی
ابھی چند دنوں قبل جامعہ اسلامیہ کے اسٹاف روم میں ہمارے ہر دل عزیز، محبوب، ہنس مکھ، اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک انگریزی، کنڑا، جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات اور تاریخ و ریاضی کے استاد ماسٹر سیف اللہ صاحب سے تفصیل سے ملاقات ہوئی تھی اور اکثر اساتذہ کرام نے آپ سے مذاق و دل لگی سے گفتگو فرمائی ابھی اطلاع آئی کہ اب آپ ہمارے درمیان نہیں رہے انا للہ وانا الیہ راجعون آپ ایک حادثے کا شکار ہوئے مختصر علالت کے بعد مینگلور کے ہای لینڈ ہاسپٹل میں زیر علاج رہے پھر تمام ظاہری علاج معالجے کے اسباب نے ہتھیار ڈال دیے اور آپ نے داعی اجل کی پکار پر لبیک کہہ دیا۔ ماسٹر سیف اللہ صاحب کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ ہر ایک استاد جو کہ ان کے شاگرد رہ چکے ہیں الگ الگ القاب سے پکارتے ۔ کسی کو فلسفی کہتے ۔کسی کو شاعر۔ کسی کو مصنف کہتے۔ تو کسی کو ادیب۔ کسی کو مجاہد کہتے۔ تو کسی کو مجذوب۔ کسی کو عاشق، کسی کو بوڑھا، کسی کو بچہ، کسی کو چمپین، کسی کو جنگلی، کسی کو جڑ، کسی کو آثار قدیمہ کے ماہر، اور کبھی طلبہ کو صحابہ کرام اور مجاہدین اسلام کے کارنامے یاد دلاتے ہوئے کہتے کہ تمہیں خالد بن ولید بننا ہے حیدر کرار بننا ہے محمد بن قاسم بننا ہے وغیرہ وغیرہ آپ سے ہم طلباء نے بہت سے ایسی باتیں سیکھی جن پر عام طور سے کسی کا ذہن نہیں جاتا آپ ایسے مصلے پر جس پر کعبۃ اللہ یا روضہ رسول یا کسی مسجد کی تصویر ہو کبھی نہیں بیٹھتے تھے یہ غیرت اور حمیت دینی کی اعلی مثال تھی آپ اس کو یہودی سازش مانتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مسلمان نسلوں کے دلوں سے کعبۃ اللہ اور روضہ رسول اور شعایر اسلام کی عظمت کو پامال کرنے کی ایک خطرناک تدبیر ہے۔ آپ کی دینی حمیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے دنیاوی بڑی بڑی ڈگریوں کے باوجود بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے آفر کو ٹھکرا کر معمولی تنخواہ پر ایک دینی درسگاہ میں اپنی زندگی کی چار دہائیاں قربان کی اللہ تعالی اپنے شایان شان آپ کو بھرپور جزا عطا فرمائے۔ آمین۔ اللهم اغفر له وارحمه




