مسجدوں میں آگ زنی ، میناروں پر بھگوا جھنڈے کیا یہی سی اے اے کی حمایت ہے؟*

 

 

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی 

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

 

       دہلی میں پچھلے دو مہینوں سے سی اے اے مخالف دھرنے چل رہے ہیں۔شاہین باغ سے خوریجی ، ترکمان گیٹ ، چاند باغ ، کھجوری اور جامع مسجد پر ہونے والے ان احتجاجات میں کبھی بھی کسی مذہب کو نشانہ بنایا گیا نہ ہی کسی مذہبی عبادت گاہ پر حملہ کیا گیا۔اس درمیان جامعہ ملیہ میں حملہ ہوا، شاہین باغ میں گولی چلائی گئی ، دلّی کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر مقدمات قائم کئے گئے لیکن مسلمانوں نے گولی چلانے والےلڑکوں اور پولیس کے ظلم و ستم کے لئے کسی برادران وطن کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا نہ ہی پولیسیا زیادتی کے بدلے کسی غیر مسلم پر غصہ اتارا. لیکن 23 فروری کو سی اے اے کے حامیوں نے جو احتجاج کیا تو اس کے نتیجہ میں پچھلے تین دن سے دلّی جل رہی ہے۔سڑکیں خون سے لت پت ہیں،گھروں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ 20 سال کے جوان سے ساٹھ سال کے ضعیف کی لاشیں گر رہی ہیں۔ ایسے میں سی اے اے حامیوں سے سوال بنتا ہے کہ یہ کیسی حمایت ہے جس کے لئے مسلمانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔

 

سی اے اے کی حمایت یا مسلمانوں سے نفرت؟

ہماری کالونی کھجوری میں تقریباً 85 فیصد مسلم آبادی ہے. درجنوں مساجد ومدارس کے درمیان چند مندر بھی ہیں لیکن کالونی کے آس پاس مسلمانوں پر ہو رہے تشدد دیکھنے کے بعد بھی کسی مسلمان نے کالونی کے کسی ہندو کے گھر یا عبادت گاہ کو رتّی بھر نقصان نہیں پہنچایا. لیکن ہندو اکثریتی علاقوں میں آباد مسلمانوں کا جان ومال سب لوٹ لیا گیا۔

ہماری کالونی سے ٹھیک متصل سونیا وِہار نامی کالونی ہے، اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل ہے۔کہیں کہیں آٹھ دس مسلم گھرانے بھی مقیم ہیں۔یہاں ہمارے ایک شناسا حافظ صاحب مکتب چلاتے ہیں۔ 25 فروری کی شب میں قریب 12 ؍بجے اچانک ہی پوری گلی جارحانہ نعروں سے گونج اٹھی ۔ابھی لوگ گھروں سے نکلے بھی نہ تھے کہ ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے لیے جنونی بھیڑ نے مدرسے پر حملہ بول دیا۔ڈیسک،الماری پنکھے سب توڑ دیے گیے،اس کے بعد پیٹرول ڈال کر ادارے میں آگ لگا دی گئی۔آس پاس مقیم کئی مسلمانوں کے گھروں میں بھی یہی توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی گئی۔مقامی لوگوں کوغصے کے ساتھ اس بات کا افسوس تھا کہ ان کے مدرسے اور گھروں میں آگ لگانے والے اجنبی نہیں اسی گلی کے لوگ تھے۔مسلمانوں کو یقین نہیں تھا کہ جولوگ صبح وشام ان سے ملتے تھے وہی لوگ ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔بھڑکتے ہوئے شعلے اور چیخ وپکار سن کر کھجوری کالونی سے کچھ ہمتی نوجوان وہاں پہنچے تو انہیں دیکھ کر سارے فسادی بھاگ گئے اس طرح حافظ صاحب ودیگر مقامی لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں۔اگر مسلم نوجوان نہ پہنچتے تو کئی جانیں جاسکتی تھیں۔

کھجوری لال بتی سے بھجن پورہ کو جاتے ہوئے لب سڑک ہی سید چاند بابا کا مزار ہے۔ مزار کی تعمیر وتزئین اور دیکھ بھال ایک ہندو گوجر خاندان کرتا ہے۔صبح سے شام تک یہاں تمام مذاہب کے لوگ گلہائے عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ اسی مزار سے کچھ آگے چاند باغ پڑتا ہے ۔جہاں سی اے اے کے خلاف مہینے بھر سے مظاہرہ چل رہا تھا۔. لیکن 24 فروری کی دوپہر میں جب سی اے اے حامیوں نے احتجاج کیا تو شرپسندوں کی ایک ٹولی نے مزار پر حملہ کردیا۔نفرت وتعصب اس قدر بھرا تھا کہ سید بابا کے مزار پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی اور اس آگ کو مزید بھڑکانے کے لیے ایک ٹایر بھی ڈال دیا گیا تاکہ آگ زیادہ دیرتک جل سکے۔ آگ لگاتے وقت ایک نو عمر لڑکا لگاتار گندی گالیاں بک رہا تھا اور نہایت بے خوفی کے ساتھ مزار میں آگ لگا کر ویڈیو بنایا اور فخریہ وائرل بھی کیا۔

کھجوری وزیر آباد روڈ کے بائیں جانب گامڑی نامی ہندو اکثریتی گاؤں آباد ہے۔ جہاں برائے نام کچھ مسلم خاندان رہتے ہیں. ایک کچی مسجد بھی بنی ہوئی ہے. لیکن جب جعفرآباد میں فساد پھیلا تو رات ہوتے ہی گامڑی گاؤں کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی. اچانک سے کچھ غنڈوں نے لاٹھی ڈنڈوں سے حملہ بول دیا۔ مارپیٹ کے بعد ان لوگوں نے پیٹرول بوتلوں سے آس پاس کے مسلم مکانوں اور مسجد کو آگ لگا دی۔ یہ سب تماشا ہوتا رہا لیکن اتنی بڑی آبادی میں کوئی انہیں بچانے والا نہیں تھا۔

کھجوری سے باغپت روڈ کی جانب جاتے ہوئے سبھاپور میں واقع ملن گارڈن نامی بستی میں کچھ مزدور پیشہ لوگ آباد ہیں۔ یہ علاقہ بھی ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔

 25؍فروری کی رات میں مذہبی جنونیوں کی ٹولی نے اس محلہ پر دھاوا بول دیا۔ راستے میں کھڑی گاڑیوں کو جلا دیا گیا۔ مسجد ومدرسہ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ توڑ پھوڑ سے دل نہیں بھرا تو مقدس قرآن کو جلایا گیا۔ آس پاس آباد مسلم گھروں میں گھس کر بہن بیٹیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور جو بھی ہاتھ لگا سب لوٹ کر لے گئے۔پوری بستی میں چیخ وپکار کا عالم تھا مگر ان مظلوموں کی چیخیں سننے والی پولیس بہری ہوچکی تھی۔

اشوک نگر گلی نمبر 5؍ میں ہندو آبادی کے ٹھیک بیچ میں آٹھ دس مسلم خاندان رہتے ہیں. ایک مسجد بھی قائم ہے. فساد بھڑکنے کے بعد اچانک ہی شرپسندوں کا ایک ٹولہ وہاں دھاوا بول دیتا ہے۔مخلوط آبادی میں چن چن کر مسلم گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔درمیان میں آنے والے ہندو گھروں کو چھوڑ دیا گیا۔ کیا کوئی باہری یہ جان سکتا ہے کہ کون سا گھر کس مذہب والے کا ہے؟ان فسادیوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دو دنگائیوں نے مسجد کے مینار پر چڑھ کر مائک اتار کر پھینک دیا اور مذہبی نعرے لگاتے ہوئے وہاں بھگوا جھنڈا لگا دیا۔ اس واقعہ کا ویڈیو لگاتار وائرل ہورہا ہے. بعد میں جب کالونی والوں سے پوچھا کہ ہندوؤں کے بیچو بیچ ایسے ظلم کیسے ہوا؟ تو کالونی والوں کا جواب تھا کہ وہ باہری لوگ تھے. آپ سوچیے کیا کسی باہری کو مذہبی بنیاد پر مکانوں کی شناخت ہوسکتی ہے ؟اگر ہو بھی گئی تھی تو کیا کوئی انصاف پسند انہیں روکنے کی کوشش نہیں کر سکتا تھا ؟اسی کالونی کے ای بلاک میں بھی ایک مسجد کو دن کے اجالے میں جلا دیا گیا لیکن کسی نے بھی دنگائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ہاں بعد میں ایک غیر مسلم پڑوسی نے مسجد کی آگ بجھائی اور اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری قرار دیا۔

 شِو وہار،دیال پور وغیرہ کے مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کی زیادتی ہوئی ۔جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے،ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔جہاں مسلمان نہ ملے تو مارکیٹ میں مسلم نام والی دکانوں کو لوٹ کر جلا دیا گیا۔

 

*پولیس کا جانب دارانہ رویہ*

دہلی فساد کا سب سے خراب پہلو بعض پولیس اہلکاروں کا کھلا ہوا تعصب تھا۔کئی علاقوں میں متاثرہ افراد نے پولیس پر یہ الزام لگایا ہے کہ جب ایک فریق کی جانب سے آگ زنی اور سنگ باری ہورہی تھی تو پولیس روکنے کی بجائے معاون بنی ہوئی تھی۔حالانکہ کچھ ایک مقام پر پولیس نے فسادیوں کو روکنے کی کوشش بھی کی لیکن زیادہ تر جگہ پولیس نے جانب داری سے کام لیا۔پولیس کے متعصبانہ رویے پر BBCلندن کے صحافیوں نے 26؍ فروری کو فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرکے جو رپورٹ نشر کی ہے اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کریں اور پولیسیا تعصب کا اندازہ لگائیں،ایک صحافی لکھتے ہیں:

"ہم لوگ رات میں قریب 12؍ بجے جعفرآباد پہنچے تھے۔پولیس کسی کو آگے جانے نہیں دے رہی تھی۔جب ہم ساڑھے بارہ بجے واپس بیری کیڈ پر پہنچے تو NSA اجیت ڈوبھال کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔سخت حفاظتی انتظام کے باوجود ایک بائک پر سوار تین لڑکے اجیت ڈوبھال کے قافلے کے بغل سے گزرے۔ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور راڈ تھے۔وہ جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔وہ لڑکے این ایس اے کے قافلے سے بھی تیز اسپیڈ میں تھے اور ان سے آگے نکل گئے لیکن کسی پولیس والے نے ان کو نہیں روکا"

 

 کیا آپ امید کر سکتے ہیں کہ اجیت ڈوبھال کے سامنے سے مسلم لڑکے ہاتھوں میں راڈ اور نعرہ تکبیر لگا کر نکل سکتے تھے؟اگر ایسا ہوا ہوتا تو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ہوتے لیکن آج کل جے شری رام کے نعرے لگانا سیفٹی اور سکیورٹی کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔

دوسرے صحافی لکھتے ہیں:

"اشوک نگر کی جس مسجد کا ویڈیو وائرل ہورہا تھا اس کے بارے میں پتا کرنے گئے تھے۔دہلی پولیس بار بار دعوی کر رہی تھی یہاں ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی۔

ہم نے جاکر دیکھا کہ مسجد میں بری طرح توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔گلی نمبر 5؍پر یہ مسجد ہے ۔مسجد میں جوتیاں اور ٹوپیاں بکھری ہوئی ہیں اور پاک کتاب(قرآن) کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔وہاں صبح کافی بھیڑ لگی تھی لیکن کوئی بھی عام آدمی وہاں بات کرنے تیار نہیں تھا۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا فسادی باہر سے آئے تھے انہوں نے یہ سب کیا ہے۔ابھی ہم وہاں ہی تھے کہ ہمیں خبر ملی کہ اشوک نگر کے ای بلاک میں ایک اسکول کے پاس دوسری مسجد کو جلا دیا گیا ہے۔ہم وہاں پہنچے تو واقعی دوسری مسجد بھی جلا دی گئی تھی۔ہاں یہاں ایک شرما جی اپنے گھر کے سمرسبل سے مسجد کی آگ بجھانے میں لگے ہوئے تھے۔"

 

تیسرے صحافی لکھتے ہیں:

"ہم چاند باغ جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن دنگائیوں کی بھیڑ سڑک پر تھی جو کسی کو بھی جانے نہیں دے رہی تھی۔میڈیا کے لوگوں سے آئی کارڈ دکھانے کے بعد بھی مارپیٹ کی گئی۔دنگائی بھیڑ میڈیا اہلکاروں سے ان کا مذہب پوچھ رہی تھی۔ایک میڈیا پرسن کا موبائل چھین کر ڈاٹا فارمیٹ کر دیا۔پولیس کہہ رہی تھی کہ اب شانتی ہے لیکن ان کی ہیلپ لائن پر لگاتار فون آرہے تھے کہ ماحول ٹھیک نہیں ہے الگ الگ علاقوں سے لوگ فون کرکے بتا رہے تھے کہ ان کے گھروں کے سامنے بھیڑ جمع اور نعرے بازی کر رہی ہے۔"

 

چوتھے صحافی لکھتے ہیں:

"میرے بائیں جانب کچی کھجوری (مسلم اکثریتی کالونی) تھی اور دائیں جانب کھجوری خاص(ہندو اکثریتی کالونی) ہم فلائی اوور کے اوپر بیچو بیچ کھڑے تھے۔نیچے بہت سارے لوگ کھڑے تھے اور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔کچی کھجوری میں نماز چل رہی تھی۔کھجوری خاص کی طرف سے ایک پتھر مسلمانوں کی طرف پھینکا گیا پھر دونوں طرف سے پتھر چلنے لگے۔کچی کھجوری کا ایک لڑکا ہندو آبادی کے بیچ پھنس گیا اور لوگوں نے اسے مار مار کر ادھ مرا کردیا۔تھوڑی دیر بعد کچھ مسلم لڑکے آئے اسے اٹھا کر لے گئے۔وہاں پولیس موجود تھی لیکن کچھ نہیں کر رہی تھی پولیس سے ناراض ہوکر مسلمانوں نے تھانہ کھجوری خاص پر پتھراؤ شروع کردیا۔اتنا ہونے پر پولیس ایکشن میں آئی اور اس نے مسلمانوں کی طرف آنسو گیس کے گولے چھوڑے۔"

 

بی بی سی نمائندوں کی اس رپورٹ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پولیس فورس کس قدر مسلم دشمنی اور نفرت سے کام کر رہی تھی۔کسی بھی علاقے کے نظم ونسق سنبھالنے کی ذمہ داری پولیس فورس کی ہوتی ہے لیکن جب پولیس ہی فسادیوں کا ساتھ دے رہی ہو تو امن وامان کہاں سے قائم ہوگا؟اگر دہلی پولیس اپنی ذمہ داری نبھانے میں مخلص ہوتی تو فساد ہو ہی نہیں سکتا تھا۔23؍ فروری کو جب کپل مشرا پولیس کو دھمکی دے رہا تھا،اگر اسی وقت اسے حراست میں لے لیا گیا ہوتا تو آج نہ 35؍ گھروں کے چراغ بجھتے نہ کروڑوں کا کاروبار راکھ بنتا اور نہ ہی عالمی سطح پر دلی کی بدنامی ہوتی۔

دہلی فساد کی خبر پر جب عالمی میڈیا نے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تب جاکر حکومت نے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کو متاثرہ علاقوں میں بھیجا جن کے جانے کے بعد پولیس تھوڑی حرکت میں آئی۔اس کے بعد وزیر اعلیٰ کیجری وال بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچے،کاش صوبائی اور مرکزی حکومتیں پہلے ہی یہ اقدامات کر لیتیں تو آج دہلی داغ داغ نہ ہوتی۔

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے