" محمد یاسر بن محمد یحیی بن عبد القادر باشہ دامدا (بڈور) "
تحریر :۔ سید ہاشم نظام ندوی
آج سے ٹھیک دیڑھ ماہ پہلےمجھے اپنے ماموں زاد بھائی مرحوم محمد یاسر صاحب دامدا کا پیغام کچھ اس طرح موصول ہوتا ہے کہ " ہاشم بھاؤ ۔ میری بیٹی کا آپریشن ہونے والا ہے، آپریشن دل سے متعلق ہے، دو دن بعد ہسپتال ایڈمڈ ہونا ہے، ضروری کارروائیاں جاری ہیں، برائے مہربانی خود بھی دعا کریں اور اپنے حلقے میں اس کا اہتمام فرمائیں"۔ اس کے بعد سے آپریشن کے اختتام پھر اس کی کامیابی اور بعافیت گھر پہنچنے تک مستقل رابطے میں رہے۔ وہ دن بہ دن خیریت سے آگاہ کرتے، اس بیچ اپنی اہلیہ محترمہ کا کئی بار ذکرِ خیر کیا کہ ماشاء اللہ اس میں مجھ سے زیادہ ہمت ہے، اس کی وجہ سے مجھے بھی ہمت ملتی ہے ۔ اسی طرح جذبۂ شکر سے لبریز ہو کر یہ بھی کہتے کہ بظاہر اگر ہمارے پھوپھی زاد بھائی جناب جاوید اختر صاحب سلمہ اللہ تعالی (میرے خالہ زاد بھائی اور برادرِ نسبتی) کا اس وقت بینگلور آنا نہ ہوتا اور ہسپتال کی ترتیبات میں وہ پیش پیش نہیں رہتے تو شاید یہ آپریشن رمضان بعد ہی کرنا ہوتا۔
مگر آہ ، کسے پتہ تھا کہ جسے رمضان کے شروع ہونے سے پہلے اپنی بڑی بیٹی کا آپریشن کامیاب ہوتے دیکھنا تھا وہ خود ہی رمضان میں کسی اور بیماری میں مبتلا ہونے والے تھے، رمضان کے اختتام پر اپنے لمبے اور آخری سفر کے لیے روانہ ہونے والے تھے ۔بس ابھی وہ جوانی کے مراحل میں تھے، عمر عزیز کی انتالیس (۳۹) بہاریں دیکھ چکے تھے کہ وقت موعود آ گیا اور حیات وموت کی کشمکش میں زندگی کے آخری ایام گزار کر داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے اور اپنے اہلِ خانہ ومتعلقین کو داغ مفارقت دیتے ہوئے آخرت کے سفر پر راوانہ ہوئے ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون ۔ یعنی ہم اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
ان کے موت کی خبر سن کر ایسا لگتا ہے گویا ایک چراغ جلا، مگر اس کا اجالا پوری طرح پھیلنے سے پہلے بجھ گیا، ایک پھول کھلا مگر وہ اپنی خوشبو سے فضا کو مشکبار کرنے سے قبل ہی مرجھا گیا۔ بہر کیف موت کا کوئی بہانہ ہوتا ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بیماری کی وجہ سے موت آگئی، وبائی مرض نے حملہ کر لیا، ایسا ہوا اور ویسا ہوا۔ جو در حقیقت سوائے انسانی وسوسوں اور دنیا کی ظاہر بیں نگاہوں کے دھوکے کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر نفس کا دنیا سے چلے جانے کا ایک وقت متعین ہے، جس میں ایک لمحہ بھر آگے پیچھے کرنے کی گنجائش نہیں ہے،موت سب کے انتظار میں ہے، دنیا میں انسان کا آنا اس کے رخصت ہونے کی دلیل ہے، صبح آب وتاب سے طلوع ہونے والا سورج کا شام ڈھلتے ڈھلتے غروب ہونا یقینی ہے۔ یہی دنیا کا دستور ہے اور ایک ایسی اٹل حقیقت بھی ، جس کا انکار کوئی آج تک نہیں کرسکا ہے۔
البتہ جب کوئی قریبی رشتہ دار یا چاہنے والا رخصت ہوتا ہے تو اس کا غم ہونا ایک فطری تقاضا ہے،بالخصوص لختِ جگر کی رخصتی اپنے والدین کے لیے، لاڈلےاور بڑےبھائی کی موت بھائی بہنوں کے لیے، پیارے داماد کی وفات سسرال والوں کے لیے، ایک کرب وبلا کا منظر نامہ ہوتا ہےاور رنج وغم کا ایک طوفان ہوتا ہے۔ جس سے انھیں گزرنا پڑتا ہے، اس کیفیت کو وہی محسوس کرسکتا ہے جس پر یہ پہاڑ ٹوٹا ہو اور رنج والم کا تکلیف دہ مرحلہ گزرا ہو۔
ماموں زاد بھائی اپنے ماں باپ کے پیارے، گھر کے لاڈلے اور پورے خاندان کے دلارے تھے۔ ان کی معصوم اور حسین وجمیل صورت سنِ شعور سے میرے سامنے ہے۔ بچپن ہی سے ہم نےانھیں خوش مزاج ، ہنس مکھ اور ملنسار پایا،بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتے دیکھا۔ وہ اپنے بلند اخلاق، بلند کردار اور حسنِ سیرت میں ایک مثال تھے، ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے،ہنستے مسکراتے چہرےکے ساتھ پیار ومحبت بانٹتے، خوش رہنا ان کا مزاج تھا، خوشیاں بانٹنا ان کی عادت تھی اوروں کو خوشیوں میں دیکھنا ان کی فطرت تھی اور دوسروں کے کام آناتو انھیں وراثت میں ملے تھا۔
جناب محمد یحیی صاحب دامدا دام ظلہ ہمارے چھوٹے ماموں ہیں، انھوں نےانجمن حامی مسلمین سے تعلیم سے فراغت پائی،اس کے بعد اپنےمعاش کی خاطرکچھ عرصہ اپنے وطنِ عزیرز میں گزارا، پھر سعودی عربیہ کے شہر ِتبوک سے اپنی اگلی زندگی کا آغاز کیا، یہاں ملازمت بھی کی اور تجارت بھی،یہیں سے ان کا روشن مستقبل شروع ہوا، اس لیے یہیں وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ کچھ سال مقیم رہے، اپنے بچوں کی تربیتی اور تعلیمی زندگی کا آغاز اپنے سامنے کیا، ان کی تعلیم سےپہلے تربیت کی طرف توجہ دی، بچوں میں صالحیت اور حسنِ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی، انھیں دین اور علمائے دین سے وابستہ کیا۔ بالخصوص اپنے بڑے فرزند مرحوم محمد یاسر کی طرف تربیتی جھکاؤ اس لیے زياده رہا کہ اولاد میں بڑے بچے کی طرف زیادہ محنت کرنے سے آگے سب بھائی بہنوں پر ان کا اثر شعوری یا غیر شعوری ہو ہی جاتا ہے۔ ایک عرصہ یہاں گزارنے کے بعد جب فیملی بھٹکل مقیم ہوئی ، تو تعلیم کے اگلے مراحل بھٹکل میں پورے کیے، پھر کچھ عرصہ اکیلے تبوک ہی میں گزارا،اور ایک مختصر وقت کےبعددوبارہ اپنے وطن بھٹکل میں مقیم ہو گئے۔
مرحوم یاسر صاحب کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز شمس نرسری اسکول سے ہوا، مکتب اطفال یعنی "ایل کے جی" سے لے کر پانچویں جماعت تک یہاں تعلیم حاصل پائی، پھر چھٹی جماعت سےآٹھویں تک کی تعلیم اپنے والدین کے سامنے تبوک میں حاصل کی، اس کے بعد نویں جماعت سے لے کر انجینئرنگ کی تکمیل تک کی تعلیم انجمن حامی مسلمین سے ہوئی۔ جہاں سے کمپیوٹر سائنس میں سندِ تعلیم پائی۔تعلیم سے فراغت کے بعد تقریبا چھ سال تک بینگلور میں ملازمت کی، پھر اپنے تخیل کو بروئے کار لانے کے لیے کوششیں کی، کئی مراحل سے گزرے اور خود ہی آگے بڑھ کر کچھ کام کرنے کا میدان فراہم کیا، جس سے کئی ایک نے فائدہ اٹھایا اورکامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔
مرحوم یاسر صاحب ایک نیک اور صالح نوجوان تھے، انھوں نے ایک دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی ،وہ اپنے دادا مرحوم عبد القادر باشہ علیہ الرحمۃ کی شفقتوں اور دعاؤں کے زیرِ اثر رہے، ان کے صلاح وتقوی کی زندگی کے تابندہ نقوش اپنے ذہن وماغ میں منقش کر لیے،اپنے والدِ ماجد سے اخلاقیات کا درس لیا ، زندگی گزارنے کا سلیقہ اپنے گھر کے بڑوں سے سیکھا ۔ "دامدا ہاوس" خلیفہ محلے اور "کے ایم ہاوس" صدیقی اسٹریٹ میں زندگی کے خوش گوار ایام گزارے۔شہر کے ماحول کے مطابق شبینہ اور صباحی مکاتب میں قرآنی ودینی تعلیم کے لیے جامع مسجد اور صدیقی مسجد سے وابستہ رہے۔اس لیے دینی تعلیم وتربیت میں وہ محسن ِقومِ نوائط مولانا عبد الباری رحمۃ اللہ تعالی کے پروردہ تھے، جب کہ مولانا محمد افضل صاحب شہ بندری ندوی کے بھی زیرِ تربیت رہے۔ان دونوں مسجدوں سے گہرا تعلق رکھا، یہاں زیرِ تعلیم بچوں میں ان کا شمار ممتاز اور فائق طلبہ میں ہوتا تھا۔ وہ دعوتی مزاج بھی رکھتے تھے، دعوت وتبلیغ سےجڑے تھے، دینی مجلسوں میں بیٹھتےاوردروسِ قرآن سے اپنی روح کو بالیدگی بخشتے۔مولانا عبد الباری رحمۃ اللہ کاانجینئرنگ طلبہ کے لیےجامع مسجدمیں ہر جمعہ بعد نمازِ عصر درس کا خصوصی انتظام رہتاتھا، جس میں بھی پاپندی کرتے۔ اسی طرح ان کا بدن کثرتی تھا، وہ ورزش اور ریاضت بھی کیا کرتے تھےاورایک اچھے کھلاڑی بھی تھے۔ کرکٹ کے شوقین اور کبڈی کے شائق بھی تھے، بڑے بڑوں کو تنہا اپنی طاقت کے بل پر پچھاڑتے تھے ۔
صدیقی مسجد اور محلےکےنوجوانوں کا وفاق " لبیک نوائط ایسوسی ایشن "سے ان کے گہرے روابط تھے، جہاں ان کے بچپن کا ایک حصہ گزرا ، جہاں سے انھیں اپنائیت ملی ، جہاں ان کے دوست واحباب تھے، جہاں ان کی اپنی ایک شناخت اور پہچان تھی۔ اس لیے وہ جہاں بھی رہے اور ان دونوں کے لیے فکر مند اورشبینہ مکتب کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔
ان کے انتقال پر جب ان کے استاذ اور امام صدیقی مسجد مولانا محمد افضل صاحب ندوی سے میں نے رابطہ کیا اور ان سے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے اوصاف وخصوصیات جاننا چاہا، توآپ کلماتِ خیر کہتے ہوئے نمدیدہ ہو گئے، کافی دیرتک وہ اپنے کو قابو میں نہیں لا سکے، پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی تعزیت کرنے لگے، جس میں انھوں نے کہا کہ بے شک وہ ایک صالح اور دینی حمیت سے بھر پور نوجوان تھے، ایمانی غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اگر چہ انھوں نے قرآن کریم کی تعلیم یہاں سے زیادہ نہیں حاصل کی، لیکن وہ صدیقی مسجدسے اپنا گہرا تعلق رکھتے تھے، ان کا دل مسجد کے ماحول سے جڑا ہوا تھا، یہاں سالوں سے ان کے اعتکاف کا معمول رہا،بلکہ اس سلسلے میں وہ ایک اکیلے نہیں بلکہ ایک کاروان تھے، یعنی اعتکاف کے لیے اپنے ساتھ اپنے کالج کے دوستوں اور اپنے ہم درسوں کو ساتھ لاتے، اسی بہانے ان کو تصحیحِ قرآن کی طرف توجہ دلاتے، ان میں دینی شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے، انھیں علماء کی صحبت میں بٹھاتے، دین سے قریب کرتے، فقہی مسائل سکھاتے، بلوغت کے بعد کے احکام سے واقف کراتے۔گویا اس طرح وہ اپنے نامۂ اعمال میں ثوابِ جاریہ کا اضافہ کر گئے، ان شاء اللہ اس کا اجر وثواب انھیں قبر میں بھی ملتا رہے گا۔اسی طرح جب اعتکاف میں ہوتے تو مزید کام خوشی سے کرتے، ایک کھانے سے فارغ ہو کر برتن دھونا اور دوسرا سونے سے پہلے پوری جگہ پوچا لگا کر مسجد کی مکمل صفائی کا اہتمام کرنا۔ جن دونوں کاموں سے اس کا پتہ چلتا ہے کہ وہ جس طرح اپنی ظاہری صفائی اور اچھے لباس زیب تن کرنے کا خیال رکھتے ، اسی طرح جہاں رہتےوہاں بھی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے تھے۔
جی ہاں یہ ایک ایسا نوجوان تھا، جس کی طرف والدین کی نگاہیں تھیں، جس میں وہ اپنے مستقبل کے سہانے خواب دیکھ رہے تھے، قوم اس سے امیدیں لگائے بیٹھی تھی، وہ کسی کامیاب مستقبل سے آشنا ہونا چاہتا تھا، اس کا ذہن تعمیری تھا اور سائنسی بھی،اس لیے تعلیم سے فراغت کے بعد شہرِ بینگلور ہی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، وہ اپنے اسی انجینئرنگ کے فن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنسی ایجادات کرنا چاہتا تھا، کئی ایک نئے منصوبے اس کےذہن ودماغ میں گردش کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو حالات سے آنکھیں ملانا جانتا تھا، جو آگے بڑھنےکا حوصلہ رکھتا تھا، وہ مشکلات آنے پر ڈرتا نہیں تھا، وہ ٹیکنیکل یعنی عملی میدان میں اتر کر کچھ سائنسی تجربات کو عملی طور پر قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا، وہ کچھ تجربات سے گزر بھی چکا تھا، جس کے لیے اس کو اپنے دوستوں کا ساتھ اور ان کی ذہنی کاوشیں اور محنتیں بھی درکار تھیں، جس میں سے اکثر دوست اپنے روشن مادی مستقبل کے لیے خلیجی اور یورپی ممالک چلے گئے، مگر یہ اپنے ذہن وفکر کے خطوط اور فکر ونظر کے نہج کو خد وخال دینے کے لیے اپنے ہی وطن میں رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا، اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ
وطن کی خاک ، ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
شہرِ بینگلورریاستِ کرناٹک کاپایۂ تخت ہونے کی وجہ سے یہاں کا قیام کئی حیثیتوں سےمفید ثابت ہوا، پہلے اس لیے کہ ہماری قوم کے کافی طلبہ یہاں آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں، یہاں سے بھی وہ اعلی ڈگریوں کو حاصل کرناچاہتے ہیں، جس کے لیےانھیں مشوروں اور رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے،انھیں یہاں پر مقیم احباب کا اخلاقی تعاون درکار ہوتا ہے، اسکول اور کالجز کے انتخاب میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے، رہائشی نظم وضبط کے لیے ایک نئے آدمی کو صحیح جان کاری دینی ضروری ہوتاہے۔ اسی طرح کبھی یہاں علاج کے لیے آنے والوں کا ساتھ دینا ہوتا ہے اور کبھی ہمارے علماء اور قائدین کو الگ الگ موضوعات پر قومی وملی ضرورتوں کے پیشِ نظر یہاں کی حاضری ہوتی ہے، اس لیے یہاں پر موجود ہماری بھٹکل مسلم جماعت کے احباب وذمے داران حسبِ ضرورت امداد وتعاون کرتے ہیں۔ مرحوم یاسر صاحب بھی ان میں سے ایک تھے جن کو ان تمام امور میں مہارت تھی، وہ اپنے اہلِ تعلق یا ضرورت مند احباب کو اپنا پورا وقت اور تعاون پیش کرتے تھے، جو بے شک خدمتِ خلق کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اللہ تعالی ان سبھوں کو اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔
ہم گھر والوں کی نگاہ میں تو وہ ایک مثالی فرد اور قابلِ فخر سپوت تھے ہی، مگر پوری قوم میں ان کی حقیقی مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ اسی وقت سے شروع ہو چکا تھا، جب ان کی بیماری شروع ہوئی اور الگ الگ حلقوں اور اہلِ تعلق کی جانب سے دعائے صحت کے پیغامات موصول ہونے لگے۔ مگر اس وقت تعجب کااندازہ لگانا مشکل تھا، جب ان کی وفات کی خبر بجلی بن کر گری اور اس غم ناک خبر کے ساتھ ہی لوگوں کےنیک جذبات،تاثراتی کلمات اور تعزیتی پیغامات موصول ہونے شروع ہوئے۔ پھر اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کے دوستوں، ہم درسوں اور انجنیئرنگ کے ابنائے قدیم کی انجمن " بیم پرو ۔ BEAM Pro " کی جانب سےزوم " Zoom " پر آن لائن تعزیتی اجلاس رکھا گیا اور ہزاروں لوگوں نے شرکت کر کے مرحوم کے ساتھ اپنے گہرےتعلق کا اظہار کرتے ہوئے اظہارِ عقیدت پیش کیا اور سبھوں نے مرحوم کے اخلاقِ کریمانہ اور صفاتِ حسنہ کی گواہی دے کر اللہ تعالی کے حضور ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
" موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس"
محترم قارئین:۔ اس آن لائن تعزیتی اجلاس سے ہمیں اس کا بھی پتہ چلا کہ وہ ایک یاسر نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے ساتھ نیک دوستوں کی ایک جماعت رکھتا تھا، اس کے ساتھ ان جیسے صفات کے حامل کئی ایک صالح اور نیک نوجوان پائے جاتے ہیں، جو علمائے دین کی زیرِ تربیت رہ چکے ہیں، دینی حمیت اور اسلامی غیرت سے سرشار ہیں،جنہیں اہلِ علم سے تعلق ہے، ان کے دل اللہ کی یاد سے معمور ہیں، وہ قوم وملت کی فلاح وکامیابی کے خاطر کوششیں کرتے ہیں اور ان شاء اللہ حدیث کے الفاظ میں یہ وہ ہیں "جن کی نش ونما اللہ تعالی کی اطاعت وفرماں برداری میں ہوئی ہے" جس پر عرشِ الہی کے سایہ کی بشارت اس دن کے لیے سنائی گئی ہے، جس دن سورج ایک نیزے پر ہوگا، ہر ایک اپنے اپنے اعمال میں گھرا ہوگا اور اس دن سوائے عرش کے سایے کے اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ اللہ ہمیں بھی نیک کاموں کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا بھی شمار انہی میں فرمائے۔
ہم اس تحریر کے ذریعے اپنے مختصر تاثرات اور تعزیتی کلمات کے ساتھ ساتھ اپنے ماموں جان کی طرف سے ان تمام احباب کا شکر گزار ہیں، جنہوں نے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اظہارِ تعزیت کی ، ہمارے بھائی کے حق میں کسی طرح بھی اپنی محبت وعقیدت کا ثبوت فراہم کیا اورانھیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا ہو۔
بھائی محمد یاسر مورخہ ۹/ فروری ۱۹۸۲ عیسوی، مطابق ۱۵ / بیع الآخر ۱۴۰۲ ہجری پیدا ہوئے اور اپنی زندگی کے انتالیسویں سال میں قدم رکھ کر ۲۲/مئی ۲۰۲۱ عیسوی، مطابق /۱۰ شوال المکرم ۱۴۴۲ ہجری اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، وہ اپنے پیچھےبزرگ والدین، تین بھائیوں، دو بہنوں، تین بیٹیوں اور ایک بیوہ کو سوگوار چھوڑ گئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ، درجات بلند کرے اور ان کے والدین، اہلیہ، بچوں اور جمیع پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائےاور ان کے ساتھ عفو وکرم کا معاملہ فرمائے قبر کے تمام مراحل آسان فرمائے اورپسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔
جواب دیں