ماہ رمضاں نیکیوں کا فصلِ بہار

لکچرر شعبہ اردو ، ایم ، ایس ، آئی گورکھپور

          حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہی وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں . جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں .اذا دخل رمضان فتحت ابواب الجنۃ و غلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین (بخاری) یقیناً اللہ کے وہ بندے بڑے خوش نصیب ہیں جو ایمانی کیفیت اور جذبۂ احتساب کے ساتھ صیام و قیام ، ذکر و تلاوت ، وظائف و تسبیحات اور توبہ و انابت کے ذریعہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل کرتے ہیں اور جنت میں اپنا ٹھکانا بنا لیتے ہیں . و ھو شھر الصبر و الصبر ثوابہ الجنۃ

          پس ہم پر لازم ہے کہ اس رحمت و برکت والے مہینہ میں خلوص و للہیت کے ساتھ اللہ کی جانب متوجہ ہوں . ہر وقت لاالہ الا اللہ کی گواہی دیتے رہیں . کثرت سے استغفر اللہ پڑھتے رہیں . صبح و شام دوزخ سے خلاصی اور جنت کے حصول کے لئے رب کے دربار میں حاضری اور دستک دیتے رہیں . بہت مبارک ہے وہ شخص جس سے رمضان کا مہینہ خوش ہوکر گزرا اور تباہی ہے اس کی جس سے یہ مہینہ ناراض گیا اور اس ماہ کی برکتیں نہ پا سکا اور اس کی نعمتوں سے محروم رہا. ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ۔

          یآیھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ( البقرہ )اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو .۔ روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں . صوم کے لفظی معنی رکنے کے ہیں اور صبر کرنے کے بھی ہیں . اصطلاح میں طلوع الفجر سے غروب آفتاب تک روزے کی نیت اور ثواب و رضائے الٰہی کے حصول کی امید میں کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ صحبت سے رکنے کو روزہ کہتے ہیں اور اسی صبر و تحمل کے بدلہ میں بطور انعام جنت کا وعدہ ہے . والصبر ثوابہ الجنۃ.

          روزہ کی فرضیت کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان متقی ، پرہیز گار اور راست باز بنے . اپنی نفسانی خواہشات ، بہیمی جذبات ، سفلی میلانات پر قابو پاکر اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنے اور ہمدردی و غمخواری کے جذبہ سے سرشار ہوکر اللہ کے کنبہ کا معین و مددگار بنے اور باب ریّان سے جنت میں داخل ہوجائے . اسی طرح تقویٰ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ روزہ دار کی روح میں بالیدگی ، نفس میں صبر و استقامت ، دل میں خوف خداوندی اور قلب و نظر میں پاکیزگی اور نورانیت پیدا ہو اور اس کے لئے وہ سئیآ ت و منکرات ، فواحش و لغویات سے اپنے کو بچائے اور تزکیہ نفس کے لئے روزہ کو ڈھال بنائے . الصیام جنۃ۔

          روزہ کی روح بھی یہی ہے کہ روزہ دار اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے ، شور وہنگامہ نہ کرے اور کسی سے گالم گلوج نہ کرے . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے ( روزہ رکھنے کے باوجود ) جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ بھوکا اور پیسہ رہتا ہے . (بخاری)

اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظمأ و الجوع کتنے ایسے روزہ دار ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک و پیاس کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا ۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ من صام رمضان ایماناً و احتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ( بخاری )جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کا یقین رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے ، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے . ایک جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ سفارش کرے گا کہ اے رب میں نے اس بندہ کو دن میں کھانے پینے اور دوسری خواہشوں سے روک دیا تھا. لھذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرمالیجئے . یقول الصیام: ای رب انی منعتہ الطعام والشھوات بالنھار فشفعنی فیہ ( مشکوۃ )

          پس لوگو! سعادت ابدی اور حیات سرمدی کے گوہر مقصود کے حصول کے لئے روزے رکھا کرو . یاد رکھو! رمضان میں سب سے زیادہ اجر روزہ رکھنے میں ہے اور روزہ کا کوئی بدل نہیں ہے . من فطر یوماً من رمضان من غیر رخصۃ و لا مرض لم یقض عنہ صوم الدھر کلہ و ان صامہ ( ترمذی ) جس نے بلاعذر یا بلا مرض رمضان کا روزہ چھوڑ دیا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتے ہیں .لوگو! ماہ صیام نیکیوں کا فصل بہار ہے اور دینے والے کی داد و دہش کا زمانہ ہے الصوم لی و انا اجزی بہ بندہ روزہ میرے لئے رکھتا ہے بدلہ بھی میں دوں گا . پس روزہ دارو ! نیکیوں میں آگے بڑھو ، فاستبقوا الخیرات۔

          اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے . اعتکاف کے لغوی معنی ٹھرنا ہے . رکنا ہے . شرعی اصطلاح میں اعتکاف ، رمضان میں عبادت و ریاضت کی غرض سے پانچ وقتہ باجماعت نماز والی مسجد میں گوشہ نشینی اختیار کر لینے کو کہتے ہیں ۔صحیحین سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے . کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعتکف العشر الاواخر من رمضان( بخاری و مسلم )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں راتوں کو زیادہ سے زیادہ عبادت کرتے اور ( نفل و تہجد کے لئے ) اپنی بیویوں کو جگاتے تھے . عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا دخل العشر الاواخر احیا اللیل و ایقظ اھلہ۔بندہ معتکف اپنے رب کی رضا و خوشنودی اور شوق طلب میں دنیا سے کنارہ کشی کر کے گوشہ نشینی اختیار کرتا ہے اور پھر گوشہ تنہائی میں ٹوٹے ہوئے دل سے اپنے اللہ سے معاملہ کرتا ہے بڑی عجز و انکساری کے ساتھ اپنے پالنہار سے سرگوشیاں کرتا ہے اور اپنی اداؤں اور تمناؤں سے اس رب رحیم کو مجبور کرکے اس کا قرب چاہتا ہے کہ:

          ؎                جس گل کو دل دیا ہے جس پھول پر فدا ہوں

                             یا وہ بغل میں آئے یا جاں قفس سے  چھوٹے

          یقین جانئیے وہ اپنے ذکر و فکر سے ، تسبیح و مناجات سے ، توبہ و استغفار سے ، تحمید و تقدیس سے اپنے دھرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے . اپنے رب کو راضی کرلیتا ہے اور سرمستی و رعنائی میں گنگناتا پھرتا ہے .:

          ؎                تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں

                             ہونے لگیں اب  ان سے خلوت میں  ملاقاتیں

          بندۂ مومن خوب جانتا ہے اللہ کے لئے کیا گیا ہر عمل عبادت ہے اور باعث اجر و ثواب ہے لیکن اس ماہ رمضاں کو خصوصی درجہ اور اہمیت و فضیلت حاصل ہے یہ ماہ نیکیوں کا فصل بہار ہے ایک ایک خیر پر کئی کئی گنا اضافہ کے ساتھ اجر و صلہ دینے کا وعدہ ہے . اس ماہ مبارک میں انعام و نوازشات اور کرم و عنایات کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ دل کی کھیتی لہلہا اٹھتی ہے جسم و جاں میں فرحت و شادابی نظر آنے لگتی ہے اور پورا سال خوشگوار تبدیلی و ترقیات میں گزرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ایک بڑی تعداد میں اہل دل شوق فروزاں کے ساتھ اعتکاف کرتے ہیں . ایام معدودات کے بچے ہوئے دس شب و روز اللہ کے چوکھٹ سے وابستہ ہوجانے میں کامیابی سمجھتے ہیں . بے شک اعتکاف دنیاوی سرخروئی کا سبب اور اخروی نجات کا کارآمد ذریعہ ہے .۔

          ؎                پھر جی میں ہے کہ در پہ اسی کے پڑا رہوں

                             سر   زیر   بار   منت   درماں   کئے    ہوئے

«
»

وزیر اعلیٰ سدارامیا کی حمایت میں بی زیڈ ضمیر احمد کا بیان کیوں اہمیت کا حامل؟؟

ندوی روایت، اعتدال پسندی، وسعت نظری اور علمی گہرائی کی حامل شخصیت مولانا سید مصطفیٰ رفاعی کا سانحہ ارتحال