جب سیاست میں اخلاق کا عمل دخل نہیں ہوتا تو سیاست ایک بھیانک چیز بن جاتی ہے۔ ہٹلر، مسولینی اور چنگیزی نظام کا تماشہ دکھاتی ہے اور عوام پر ظلم و ستم ڈھاتی ہے خواہ طرزِ سیاست کا نام کچھ بھی ہو۔ بی جے پی پہلی پارٹی نہیں ہے جس کی سیاست اخلاق سے خالی ہے۔ دیگر پارٹیاں بھی غیر اخلاقی سیاست کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن بی جے پی غیر جمہوری اور مجرمانہ سیاست کا مظاہرہ کرنے میں سب سے آگے ہوگئی ہے۔ اب اس پارٹی کا ایک ہی ہدف اور مقصد ہے کہ کسی طرح بھی جیت کر یا قبضہ کرکے کرسی پر براجمان ہونا خواہ عوام نے اسے ووٹ دیا ہو یا نہیں۔ جیسے کہ 2017ء میں ریاست گوا میں ہوا تھا۔ کانگریس گوا اسمبلی الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی لیکن بی جے پی نے دوسری پارٹیوں سے جوڑ توڑ کرکے مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ منی پور اور میگھالیہ میں بی جے پی سب سے پیچھے تھی لیکن جوڑ توڑ کر کے یہاں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ کچھ دنوں پہلے کرناٹک میں کس طرح مخلوط حکومت کو بی جے پی گرانے میں کامیاب ہوئی اور لیڈروں کی خرید و فروخت کے ذریعے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ہریانہ میں بی جے پی 40سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی اور حکومت بنانے کیلئے 46 ممبروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی کی پہلی کوشش تھی کہ آزاد ممبروں کے ذریعے مخلوط حکومت بنائے۔ آزاد ممبروں میں گوپال کانڈا جو پیشہ ورانہ مجرم ہیں اور اس کے خلاف کئی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، بی جے پی نے اس کی بھی حمایت لینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن جب بی جے پی کو دُشیَنت چوٹالہ کی پارٹی 'جن نائک جنتا پارٹی' جو گوپال کانڈا سے بی جے پی کو بہتر نظر آئی تو اس سے سمجھوتہ کرلیا۔ دشینت چوٹالہ کے باپ اور دادا دونوں جیل میں تھے، بی جے پی سے تعلق ہوتے ہی ان میں سے ایک مجرم کی تطہیر ہوگئی اور اسے عارضی رہائی بھی مل گئی۔ یہ ہے آج کی سیاست جو مجرموں کو بھی بہت آسانی سے صاف بنا دیتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام کی رائے اور ووٹ حکومت سازی کے موقع پر یا سمجھوتہ کرتے وقت کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مہاراشٹر میں اس وقت مہابھارت چھڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی اور شیو سینا دونوں نے مل کر انتخابی جنگ لڑی تھی۔ 24اکتوبر کو نتائج کا اعلان ہوا۔ ابھی تک حکومت مہاراشٹر میں نہیں بن سکی۔ شیو سینا اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ وزیر اعلیٰ اس کی پارٹی کا ہونا چاہئے جبکہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ کسی قیمت پر شیو سینا کا آدمی وزیر اعلیٰ نہیں ہوسکتا۔ بی جے پی لیڈر فڈنویس ہی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ شیو سینا کا کہنا ہے کہ الیکشن سے پہلے دونوں پارٹیوں میں ففٹی- ففٹی (50-50) کا فارمولا طے ہوا تھا۔ بی جے پی کے لیڈران بتا رہے ہیں کہ اس طرح کا کوئی فارمولا الیکشن سے پہلے طے نہیں ہوا تھا۔ اب دونوں پارٹیوں میں سیاسی نوک جھونک حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ایک دوسرے پر دونوں پارٹیاں حملہ آور ہیں۔ سنجے راوت نے اپنے ٹیوٹر پر کہا ہے کہ "صاحب! بہت اہنکار (انانیت) اچھا نہیں ہے۔ بہت سے سکندر آئے اور وقت کے سمندر میں ڈوب گئے"۔ سنجے راوت نے صاحب کس کو کہا ہے تین میں سے تینوں ہوسکتے ہیں یا کوئی ایک ہوسکتا ہے نریندر مودی، امیت شاہ اور فڈنویس۔ اس کے جواب میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے دھمکی دی ہے کہ 7 نومبر تک اگر شیو سینا کے ساتھ بی جے پی کی حکومت نہیں بنتی ہے تو ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا جائے گا۔ سنجے راوت نے بی جے پی کی اس دھمکی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کے بغیر بھی شیو سینا حکومت بناسکتی ہے۔ اودھو ٹھاکرے سے اور این سی پی کے لیڈر شردپوار سے فون پر بات چیت کی خبر اخباروں میں آئی ہے۔ مہاراشٹر کے کانگریسی لیڈروں نے سونیا گاندھی سے دہلی جاکر ملاقات کی ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ شرد پوار سونیا گاندھی سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ ان خبروں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تینوں پارٹیوں میں کوئی بات ضرور حکومت سازی کیلئے ہورہی ہے۔ جہاں تک شرد پوار اور ان کی پارٹی کا تعلق ہے تو شیو سینا کا سمجھوتہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، کیونکہ شرد پوار شیو سینا یا بی جے پی کو کئی بار باہر سے سپورٹ دے چکے ہیں۔ مسئلہ کانگریس کا ہے کہ کانگریس بی جے پی اور شیوسینا کے ہندوتو اور فرقہ پرستانہ سیاست کے خلاف ہے۔ اخباروں میں آج جو خبر چھپی ہے وہ خبر یہ ہے کہ کانگریس ابھی تک Watch and See یعنی حالات پر نظر رکھے ہوئی ہے۔ اور حالات کے مطابق فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانگریس بھی بی جے پی کو حکومت سازی سے دور کرنے کیلئے باہر سے حمایت کرسکتی ہے۔ مہاراشٹر کا گورنر بی جے پی کا آدمی ہے اس لئے شیو سینا کے منصوبے پر پانی پھیر سکتا ہے اور 7 نومبر سے پہلے بی جے پی کو بڑی پارٹی کی حیثیت سے حکومت بنانے کی دعوت دے سکتا ہے اور پندرہ بیس دنوں کے اندر اسمبلی فلور پر اکثریت ثابت کرنے کا وقت بھی دے سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممبران کو خرید و فروخت کے ذریعے بی جے پی کو موقع مل جائے اور وہ اپنی اکثریت ثابت کرلے۔ جہاں تک شیو سینا کے ممبران کا تعلق ہے وہ تو شاید ہی بی جے پی کے جھانسے میں آئیں لیکن این سی پی اور کانگریس کے ممبران کا معاملہ شیو سینا کے ممبران کی طرح نہیں ہے۔ یہ لوگ بک بھی سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں پارٹیوں کیلئے آزمائش شروع ہوجائے گی اور اپنے ممبروں کی گھیرا بندی ان کیلئے ضروری ہوگی۔ اگر دونوں پارٹیاں اپنے ممبروں کو بی جے پی میں جانے سے روک سکیں تو بی جے پی اسمبلی فلور پر اپنی اکثریت ثابت کرنے سے قاصر رہے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کو حکومت سازی میں شیو سینا دھول چٹا سکتی ہے کہ نہیں، کیونکہ شیو سینا کے تیور اچھے نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بدلہ لینے کیلئے بے چین ہے۔ 2014ء سے آج تک دونوں کے تعلقات بنتے اور بگڑتے رہے ہیں۔ شیو سینا مہاراشٹر میں بی جے پی سے بڑی پارٹی تھی اور بڑے بھائی کا رول ادا کرتی تھی لیکن 2014ء میں جب سے بی جے پی کی مہاراشٹر میں تعداد بڑھی بی جے پی کے نزدیک شیو سینا کی قدر کم ہوگئی۔ مرکز میں بھی اور ریاست میں بھی۔ اس کو معمولی درجے کی وزارت پر اکتفا کرنا پڑا۔ اب شیو سینا کو موقع ملا ہے بی جے پی سے دو دو ہاتھ کرے اور بدلہ لینے چکالے۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں