مدارس کی فنڈنگ سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلہ میں قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر) کی سفارشات پر پیر کو روک لگا دی۔ اس فیصلے کے بعد ملک بھر کے مدارس کو حکومت کی طرف سے ملنے والی فنڈنگ جاری رہے گی۔ ساتھ ہی عدالت نے غیر منظور شدہ مدارس کے طلبا کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے سے متعلق این سی پی سی آر کی سفارش بھی خارج کر دی۔

جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے داخل عرضی پر مرکزی حکومت، ملک کی سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔ جمعیۃ علما ہند کی طرف سے داخل عرضی پر سماعت کے دوران عرضی دہندہ کی طرف سے پیش وکیل نے کہا کہ اترپردیش حکومت نے اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔

جمعیۃ علما ہند نے اتر پردیش اور تریپورہ حکومتوں کی اس ہدایت کو چیلنج کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غیر منظور شدہ مدارس کے طلبا کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کر دیا جانا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ اس سال 7 جون اور 25 جون کو جاری این سی پی سی آر کی سفارش پر کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں ریاستوں کے ذریعہ جاری حکم بھی معطل رہیں گے۔ عدالت نے جمعیۃ علماء ہند کو اتر پردیش اور تریپورہ کے علاوہ دیگر ریاستوں کو بھی اپنی عرضی میں فریق بنانے کی اجازت دی ہے۔

واضح ہو کہ این سی پی سی آر نے سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریز کو خط لکھ کر مدرسہ بورڈ کو دیے جانے والے فنڈ کو روکنے کے لیے کہا تھا۔ این سی پی سی آر نے بتایا تھا کہ مدرسے میں نہ تو بچوں کو بنیادی تعلیم ملتی ہے اور نہ ہی ان کو مڈ ڈے میل کی سہولت کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی این سی پی سی آر نے کہا تھا کہ مدرسہ بورڈ آر ٹی آئی یعنی تعلیم کے حقوق کے قانون پر عمل تک نہیں کرتا۔

کمیشن نے الزام لگایا تھا کہ مدرسوں کا پورا فوکس صرف مذہبی تعلیم پر ہی ہوتا ہے جس سے بچوں کو ضروری تعلیم نہیں مل پاتی ہے۔ اس سے وہ باقی بچوں سے پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ این سی پی سی آر کی رپورٹ کے مطابق مدرسہ بورڈ بچوں کے حقوق کو لے کر بیدار نہیں ہے، نہ تو وہ معیاری تعلیم دے رہے ہیں اور نہ ہی انہیں مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔