ماں پر ظلم ، باپ کی بے رخی اور ہیومن گور گیم کا جنون : بچہ قاتل ہونے کے قریب تھا؟؟

بانی و ڈائریکٹر فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر (جامع مسجد بمبئی)

فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر میں مختلف شعبے ہیں-

1۔ایک شعبہ Marital Counselling ہے، یعنی خانگی یا ازدواجی مشاورت، جس میں شادی سے پہلے تربیت، شادی کے بعد پیدا ہونے والے اختلافات اور ان کے حل کی صورتیں شامل ہیں۔٢.دوسرا شعبہ Financial Counselling ہے، جس میں شخصیات یا فردِ واحد کے انفرادی مالی مسائل—چاہے وہ میراث، وصیت یا ہبہ سے متعلق ہوں— نيز جماعتوں، تنظیموں، انجمنوں یا اداروں کے اکاؤنٹس سے متعلق مسائل، نیز شراکت داروں یا کمپنیوں کے آپسی اختلافات پر رہنمائی دی جاتی ہے۔٣.تیسرا شعبہ Mental Health کا ہے، جس میں ڈپریشن، افسردگی، بے چینی، گھبراہٹ، اور ADHD (یعنی عدمِ ارتکاز اور بے قابو حرکت کی بیماری) جیسے مسائل پر کام ہوتا ہے۔ ان مسائل میں بچوں اور بڑوں کے لیے الگ الگ رہنمائی کا نظم ہے۔٤.چوتھا شعبہ Documentation کا ہے، جس میں تین طرح کے دستاویزات پر رہنمائی دی جاتی ہے:۱) ذاتی جیسے آدھار کارڈ، پین کارڈ، ووٹر آئی ڈی وغیرہ ۔۲) بزنس اور کمپنی کے رجسٹریشن اور اس سے متعلق ایم او اے وغیرہ۔ ٣) ٹرسٹ یا اداروں سے متعلق دستاویزات. اسی کے ساتھ ساتھ اسکالرشپ سے متعلق امور کے لیے بھی ایک ذیلی شعبہ بنام جنہتھ کیندر قائم کیا گیا ہے۔پانچواں شعبہ طب نبوی کا ہے، جس میں نبوی طریقۂ علاج کی روشنی میں صحت کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہاں پیش کردہ واقعات ان ہی شعبوں میں کاؤنسلنگ کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں جنہیں فرضی ناموں سے پیش کیاجاتا ہے۔

ان ہی حل کئے مسئلوں میں سے ایک یہ بھی پیش خدمت ہے کہ فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر میں ۱۲ جنوری ۲۰۲۳ کو ایک والد نے اپنے نافرمان، مشتعل اور غیر متوازن ذہن رکھنے والے بیٹے کے لیے درخواست پیش کی، بیٹے کی عمر صرف انیس برس تھی۔ فرضی نام اصغر انصاری دادر کے رہائشی نے اپنے بیٹے شاداب انصاری کے لئیے اپوانٹمنٹ بک کروایا جو کہ انتہائی غصے والا، مارپیٹ اور توڑ پھوڑ جیسی عادتوں میں مبتلا تھا، مشاورت کے لیے ماں اور بیٹا دونوں حاضر ہوئے۔۔۔۔جب کاؤنسلر نے شاداب سے بات چیت شروع کی، تو اس نے بتایا کہ وہ بارہویں کامرس میں زیرِ تعلیم ہے اور آگے بھی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہے، ساتھ ہی ساتھ شاداب نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک انرجی ڈرنک کا بزنس بھی شروع کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ نہ تعلیم میں دلچسپی تھی نہ بزنس میں سنجیدگی۔ ذہن انتشار کا شکار تھا۔۔۔۔گفتگو کے دوران ایک چونکا دینے والی بات سامنے آئی۔ شاداب اسکول کے بچوں سے نفرت کرتا تھا، اتنی شدید کہ ان سب کو شوٹ کرنا چاہتا تھا۔ وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ بچپن میں وہ اسکول میں مسلسل ہراسانی کا شکار رہا، مار کھاتا رہا، تذلیل برداشت کرتا رہا۔ اس غصے نے اس کی شخصیت میں ایک خوفناک رخ پیدا کر دیا تھا۔ وہ اینگر ایشوز (شدید غصے کے مسائل) کا شکار تھا۔ اسکول میں کاؤنسلنگ کرائی گئی، مگر جب نویں جماعت میں بھی اس کے رویے میں بہتری نہ آئی، تو اسے اسکول سے نکال دیا گیا۔۔۔۔کیمسٹری اور بایولوجی اس کے پسندیدہ مضامین تھے، شاداب نے کھلے الفاظ میں کہا کہ اسے بچوں کو مارنے میں مزہ آتا ہے، کیونکہ وہ بچوں کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اور صرف بچے ہی نہیں ۔۔۔ تین چار افراد پر حملے کی کوشش بھی کر چکا تھا، جن میں اس کا اپنا باپ بھی شامل تھا۔۔۔۔جب پوچھا گیا کہ کیا ماں کو بھی مارنا چاہتے ہو تو اس نے نفی میں سرہلادیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے امریکن اور کینیڈین لوگ بھی پسند نہیں، شاید ان کے طرزِ زندگی سے نفرت یا خود کے کچلے جانے کا غصہ اس میں منتقل ہو چکا تھا۔۔۔۱۹ سالہ اس بچے کی دلچسپی نہ تعلیم میں تھی، نہ کاروبار میں، ذہن منتشر اور زندگی بے رخ تھی۔ کاؤنسلر نے جب اس کی گھریلو زندگی کی تہہ میں جھانکا، تو ایک دردناک پس منظر ابھر کر سامنے آیا۔ شاداب نے ایک جوائنٹ فیملی میں اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔ دادا، دادی، پھوپھی، چچا، ان کے بچے اور پھر شاداب کے والدین اور ایک بہن۔ ایک ایسا ماحول جہاں شاداب کی ماں ہمیشہ ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔ صرف شوہر ہی نہیں، بلکہ بڑے چچا، پھوپھی اور حتیٰ کہ دادا بھی اس کی ماں کو مشق ستم بناتے اور تشدد کرتے۔ شاداب نے بچپن سے اپنی ماں کو روتے، سسکتے، مار کھاتے دیکھا۔ یہ مناظر اس کے نازک ذہن میں چھپتے چلے گئے۔۔۔۔اور رفتہ رفتہ وہ خود بھی ظالم بننے لگا۔۔۔۔جب اس سے پوچھا گیا کہ آگے کیا سوچا ہے، تو اس نے کہا میں اپنی ماں کے ساتھ الگ گھرلیکر رہنا چاہتا ہوں۔۔۔ اس گھر میں باپ نہیں ہوگا۔ جب اس سے ہابیز (پسندیدہ مشغلے ) کے بارے میں سوال کیا گیا، تو اس کی زبان سے نکلا کہ مجھے سگریٹ نوشی کرنا۔۔۔۔ دوسروں کو ٹارچر کرنا، چیخنا، خون دیکھنا۔۔۔۔یہ سب پسند ہے۔اور پھر۔۔۔۔اس نے ایک ایسی بات کہی جس نےہم سبھی کو جھنجھوڑ دیا ۔۔۔۔اس نے کہا مجھے Human Gore گیمز بہت پسند ہیں‘‘۔۔۔۔بتادیں کہ یہ انتہائی خطرناک گیم ہے جس میں انسانوں کو شوٹ کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں، خون بہتا ہے، چیخیں آتی ہیں، تلوار سے مارا کاٹا جاتا ہے، مختلف قسم کی بندوقوں اور رائفلز کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ وہ مقام تھا جہاں بات نفسیات سے جُڑ گئی تھی۔ کاؤنسلر نے اندازہ لگایا کہ یہ گیم، اور اس سے جڑی خون ریزی، اس بچے کے ذہن میں ایک جنون بن چکی ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تو جواب آیا کہ میں سب کو مارنا چاہتا ہوں اور خود بھی شہادت کی چاہت رکھتا ہوں۔۔۔۔پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں۔۔۔۔مگر اندر خون اور غصے کا طوفان ہے۔۔۔۔۔کاؤنسلنگ کا پہلا مرحلہ ماں اور بیٹے کے ساتھ ہوا، ماں ان سب باتوں کو سن کر ہکا بکا ہوگئی، یہ سیشن والد نے بک کیا تھا، اس لیے کاؤنسلر نے کہا کہ اب باپ کو بھی شامل کیا جائے۔ ماں خوفزدہ تھی کہ شوہر کو کوئی بات نہ بتائی جائے، ورنہ گھر والے اور بھی ظلم و تشدد نہ کریں اور پھر یہ بیٹا مزید مشتعل نہ ہوجائے لیکن جب کاؤنسلر نے اعتماد دلایا، تو ماں راضی ہوئی۔جب باپ آیا، اور بات چیت آگے بڑھی، تو اچانک خاموشی ٹوٹ گئی۔۔۔۔ اور ایک لمحہ آیا جب باپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آنسو کے ساتھ رندھی ہوئی آواز میں وہ ہم کلام تھے کہ ’’میری ہی غلطی تھی۔۔۔۔ میں نے بیوی کے ساتھ زیادتی کی۔۔۔۔بچے کی طرف توجہ نہ دے سکا۔۔۔۔اور آج میرا بچہ اس حال کو پہنچ گیا ہے، خون خرابہ، مارپیٹ اس کا محبوب مشغلہ بن گیا۔ ‘‘۔۔۔یہ وہ لمحہ تھا جہاں والد کو اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوا۔باپ نے اسے سائیکیٹرسٹ سے مشاورت کے لئے بھیجا تھا، مگر مسئلہ دوا سے نہیں، توجہ، تربیت اور مشاورت سے حل ہونا تھا۔جب فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر میں ماہرِ نفسیات نے گہرائی میں جاکر معاملہ سمجھا تو سارا راز فاش ہوا ۔۔۔۔یہ بچہ اپنی ماں پر ظلم، گیمز کی وحشت اور نظر انداز کیے جانے کی سزائیں ذہن میں جمع کرتا گیا، اور پھر وہی سب کرنے کا متمنی بن گیا۔الحمدللہ! وقت پر مشاورت ممکن ہوئی۔۔۔۔ابھی عمر ۱۹ ہے۔۔۔۔دعا ہے کہ یہ بچہ سنور جائے۔ ورنہ یہی بچے، اگر نظر انداز ہوتے رہیں، تو کل کسی اور کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔۔۔خود کے لیے مصیبت اہل و عیال کے لئے وبال جان اور قوم و ملت کے لیے ندامت و شرمندگی اور پریشانی کا باعث ہو جاتے ہیں‘‘۔

یہ کہانی نہیں، ایک آئینہ ہے۔۔۔۔جس میں ماں باپ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں بچے صرف نصیحت سے نہیں سنبھلتے، انہیں محبت، وقت اور سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔انہیں جانچیں، پرکھیں، مگر ان کی دل کی آواز کو اور دماغ میں چلنے والے خیالات پر بھی توجہ رکھیں، ان کی چیخوں کو بھی سنیں۔ بچوں کی سرگرمیوں، ان کے کھیل، ان کی آن لائن دنیا۔۔۔۔سب پر نظر رکھیں، مگر زبردستی نہیں، اعتماد سے، افہام و تفہیم اور درد دل سے ۔ ہم اگر وقت پر ان کے دل میں جھانکنا سیکھ جائیں۔۔۔۔تو شاید ہم شاداب جیسے بچوں کو ’’ہیومن گور‘‘کے گہرے زخموں سے بچا سکیں۔ورنہ وہ خاموش چیخیں وہ تاریک مستقبل اور وہ کف افسوس ۔۔۔۔کل ایک اور کہانی بن جائیں گی۔اور شاید اس بار کسی اور کی نہیں ۔۔۔

کہانی کے آخر میں ’’دعا کریں‘‘ کہ باری تعالٰی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین ۔’’اگر آپ کے اردگرد بھی خاندانوں، بھائیوں، اداروں یا جوڑوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔۔۔اگر طلاق، خلع، وراثت، مالی تنازعات یا ذہنی دباؤ آپ کی زندگی کو الجھا رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کا سوچ رہے ہیں، جہاں صرف روپیوں کا ضیاع نہیں، رشتے بھی ٹوٹتے ہیں — تو ذرا ایک لمحے کو ٹھہرئیے۔۔۔۔نفرت کی دیوار کھڑی کرنے سے پہلے، محبت کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کیجئے۔۔۔۔فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر نے بے شمار ٹوٹتے رشتوں کو جوڑا ہے۔۔۔بھائیوں کے درمیان صلح کروائی ہے۔۔۔اداروں کے درمیان مفاہمت کی راہیں نکالی ہیں۔۔۔ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد کو نئی زندگی دی ہے۔۔۔اور یہ سب کچھ قرآن و سنت کی روشنی، صبر و حکمت، ہمدردانہ مشورے ،مکمل رازداری اور وقار کے ساتھ حل کئے گئے ہیں ۔تو اگر آپ بھی کسی آزمائش میں ہیں، یا جانتے ہیں کوئی ایسا خاندان یا ادارہ جو الجھنوں میں گھرا ہے — رابطہ کیجئے۔شاید۔۔۔اگلی کہانی آپ کی ہو جو ٹوٹنے سے بچ جائے‘‘۔۔!

مضمون نگار معروف عالم دین صدر مفتی جامع مسجد بمبئی اور بانی فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر ہیں۔
رابطہ:7837833888

بھٹکل : نوجوان عالمِ دین مولانا ہدایت اللہ ندوی اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے

مہاراشٹر: ویرار میں عمارت گرنے سے 17 افراد کی موت