مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم کا مشہور شعر ہے۔
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا
یہ شعر ڈاکٹر صاحب نے جس پس منظرمیں کہا ہو. آج کے پس منظر میں یہ خالص نفسیاتی شعر ہے. کیوں کہ
کوڈ۔١٩ کی دہشت اور وحشت میں بیماری کی یہ قسم انتہائی عروج پر ہے،آدمی بیمار نہ ہو ؛ لیکن جب بار بار کوئی آپ سے کہتا ہے کہ آپ کی طبیعت خراب لگتی ہے، آپ کا چہرا اترا سا لگتا ہے، آپ کے چہرے پر پہلے والی شادمانی نہیں ہے تو آدمی ذہنی اور نفسیاتی طور پر مریض ہوجاتاہے، بچپن میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ طلبہ نے ایک دن طے کیا کہ آج سبق نہیں ہونا ہے اور ترکیب یہ نکالی کہ سب باری باری سے استاذ پر یہ انکشاف کریں گے کہ وہ بیمار سے لگ رہے ہیں، استاذ جیسے ہی کلاس میں آۓ یکے بعد دیگرے طلبہ نے اس فارمولے کو کام میں لانا شروع کیا، جب یہ تعداد پانچ تک پہونچ گئی تو استاذ نے اپنے کو بیمار سمجھ لیا اور گھر کی راہ لی، بیوی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ آج بہت جلد واپسی ہوگئی، بس پھر کیا تھا نفسیاتی مرض کے شکار اس استاذ نے بیوی کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ طلبہ کو میں بیمار دکھتا ہوں اور تم کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں بیمار ہوں۔
یہ ایک لطیفہ بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس لطیفہ میں جو واقعیت ہے، اس کا انکار کرنے کی پوزیشن میں ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہے، ہندوستان میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد پہلے ہی بہت تھی، گلوبل برڈ بن آف ڈیزیز اسٹڈی کے مطابق ہندوستان میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد انٹھاون ملین سے زیادہ یعنی ٥ء٤ فی صد ہے، یہ مرض مردوں میں ٦ء٣فی صد اور عورتوں میں ١ء٥فی صد ہے، عمر کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ مرض پندرہ سے انیس برس کی عمر کے افراد میں زیادہ ہے، ٢٠٠٥ء میں ڈپریشن کی وجہ سے مرنے والے مجموعی اسباب کے مقابلے بارہویں نمبر پر تھے؛ لیکن ٢٠١٥ء میں مرنے والوں میں یہ دسواں سب سے بڑا سبب تھا۔
آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس)دہلی اور آرمڈر فورسز میڈیکل کالج پونے کے سروے رپورٹ کے مطابق نفسیاتی مریضوں کا علاج ہندوستان میں صرف پانچ فی صدی ہوپاتا ہے، بھارت کے نیشنل مینٹل ہیلتھ سروے کے مطابق ہر چار میں سے تین افراد ذہنی بیماری کےشکار ہیں ؛لیکن اسی(٨٠) فی صد مریض کا ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود علاج نہیں کیا جاسکا ہے، سرکارنے اس سلسلے میں نفسیاتی مریضوں کے لیے ایک قلیل مدتی تربیتی کورس شروع کیا ہے، جس کے ذریعہ عوامی بیداری لانے کا پروگرام ہے؛ لیکن اب تک یہ پروگرام ملک کے دوسو اضلاع تک ہی پہونچایا جاسکا ہے، سرکارنے جو پیمانے بناۓ ہیں اس کے مطابق ہر ایک لاکھ کی آبادی پر ایک ماہر نفسیات اور ٥ء١ سائکلوجسٹ ہونے چاہیے؛ لیکن اب تک یہ تعداد ٣ء٠ اور ٧ء ٠ فی صد تک ہی پہونچ پایئ ہے، دسمبر ٢٠١٥ء میں ایک سوال کے جواب میں وزیر صحت نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ پورے ملک میں صرف اڑتیس سو (٣٨٠٠) ماہرین نفسیات اور ٨٩٨ نفسیاتی طبی مراکز ہیں، جہاں تک اس کام پر سرکاری رقومات کے خرچ کی بات ہے، یہ وزارت صحت کی بجٹ کا صرف ٠٦ء٠ فی صد ہے؛ جبکہ ٢٠١١ء کی ڈبلو ایچ اورپورٹ کے مطابق بیش تر ترقی یافتہ ملک اپنے بجٹ کا چار فی صد اس کام پر خرچ کررہے ہیں، ہمارے یہاں ذہنی مریضوں پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے وہ بنگلہ دیش جیسے چھوٹے ملک میں خرچ کی جانے والی رقم سے بھی کم ہے، بنگلہ دیش کا بجٹ اس مد میں ٤٤ء٠ فی صد ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں نفسیاتی مریض بہت ہیں اور ان کے علاج پر توجہ انتہائی کم ہے، کوڈ۔١٩ کی اس دوسری لہر نے اس میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے، نفسیاتی مریضوں کی جو علامات بتائی گئی ہیں، ان میں سردرد، اداسی، نیند کی کمی، بھوک کی کمی، یادداشت کی کمی، کمزوری، بدن کا درد، بدہضمی کی عمومی شکایت، توجہ کا کم ہونا، دلچسپی کا کم ہوجانا، اعصابی تناؤ، دل کی دھڑکن کا کم یا زیادہ ہوجانا، سینے کا درد، سانس میں گھٹن کی شکایت وغیرہ شامل ہیں، ان علامتوں میں سے بیش تر وہ ہیں جنہیں کورونا کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے لوگ وہم اور غیرضروری ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر موت کے منھ میں جارہے ہیں،
میں نے اوپر بتایا کہ پہلے ہی ذہنی دباؤ سے مرنے والوں کی تعداد ہندوستان میں بہت ہے، کوڈ کے پرچار پرسار اور بار بار کورونا سے مرنے والوں کی تعداد نشر کرنے کی وجہ سے اس میں اضافہ ہورہاہے اور بہت سارے لوگ اسباب کے درجےمیں دہشت کی وجہ سے موت کی نیند سوجارہے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ ایسے تمام مریضوں کا جن میں واضح طور پر کورونا کی علامتیں نہیں پائی جارہی ہیں ان کا نفسیاتی اور ذہنی علاج کیا جائے، اس علاج کا پہلا مرحلہ تو یہی ہے کہ گفت و شنید کے ذریعہ اس مرض کا ڈر اور خوف مریض کے ذہن و دماغ سے نکالا جائے، ایسے مریضوں کو مشغول رکھا جائے، یہ مشغولیت تلاوت قرآن اور اوراد و اذکار کے ذریعہ ہوتو زیادہ مناسب ہے؛ کیوں کہ اللہ ربّ العزت نے ذکر اللہ کو اطمینان قلب کا سبب بتایا ہے، اس کے علاوہ ورزش، پسندیدہ کھیل اور دیگرمشغولیات بھی اس ادا سی اور ڈپریشن کو دور کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ نفسیاتی مریض اپنی باتیں دوسروں کو بتانے سے گھبراتے ہیں؛ حالانکہ جب آپ اپنی دلی کیفیت سے دوسروں کو آگاہ کرتے ہیں تو دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے؛ لیکن اس میں ایک خطرہ یہ بھی رہتا ہے کہ آپ کی راز کی باتیں دوسروں تک پہونچ جائیں جو آئندہ آپ کے لیے مضر ثابت ہو اور ایسا اکثر و بیش تر ہوجاتا ہے۔نواز دیوبندی کا مشہور شعر ہے۔
راز پہونچے، ہمارے غیروں تک
مشورہ کرلیا تھا اپنوں سے
یہی وہ موقع ہوتا ہے جب نفسیاتی معالج (سائکلوجسٹ)کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، سائکلوجسٹ کرید کرید کر اندر کی بات، ڈر وہم، خوف اور پریشانی کو نکالتا ہے اور مریض بے فکر ہوکر اپنی بات کہتا ہے ؛ کیوں کہ اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اس کے راز غیروں تک نہیں پہونچیں گے۔
ایسے موقع سے خیر و عافیت پوچھنے کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے؛ جس سےکوئی اپنے کو مریض نہ محسوس کرنے لگے۔پوچھنے کےاندازاور لب و لہجے کا بھی انسانی ذہن و فکر پر مثبت یا منفی اثرات پڑتے ہیں۔کورونا کے اس دور میں اس کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
تجربہ بتاتاہے کہ اکثر و بیشتر اوہام وہ ہوتے ہیں؛ جو وقوع پذیر نہیں ہوتے؛ لیکن انسان اس کو سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے، اس لیے وہم کو دور کرنا چاہیے اور اس سے دور رہنا چاہیے ، اسی لیے بعض معالجین ہمیں اس طرف متوجہ کررہے ہیں کہ کورونا سے متعلق خبریں سننے سے گریز کریں، یہ خبریں ہمیں ذہنی اور نفسیاتی مریض بنا رہی ہیں۔
اسباب کے درجہ میں سرکاری گائیڈ لائن کی پابندی اور معالجین کی ہدایت پر عمل ضرور کیا جائے؛ لیکن کورونا کے سلسلے میں نفسیاتی مریض بننے سے ہر حال میں بچئے، خوش رہئیے، گھروں میں رہیے، عبادات اور اورادو اذکار میں وقت گذارئیے، اور وہم کو دل سے نکال پھینکئے، آپ اپنے کو صحت مند محسوس کریں گے اور امراض سے لڑنے کی دفاعی قوت میں اضافہ ہوگا، یاد رکھئے دفاعی قوت صرف دوا سے ہی نہیں پیدا ہوتی،آپ کی سوچ اور فکر بھی اس قوت میں غیر معمولی اضافہ کا سبب بنتی ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں