بریلی کی عدالت کے جج روی کمار دیواکر نے ایک ۲۵؍ سالہ نوجوان اور اس کے والد کو ۲۰؍ سالہ لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کروانے اور ہندو شناخت اختیار کرتے ہوئے اس سے شادی کرنے کا مجرم قرار دیا اور انہیں بالترتیب عمر قید اور ۲؍ سال قید کی سزا سنائی۔ اس کیس میں لڑکی کے اپنی گواہی سے دستبردار ہونے کے باوجود عدالت نے یہ سخت فیصلہ سنایا ہے۔ اپنے فیصلے میں جج نے لو جہاد کی فرضی تھیوری کو بھی قبول کیا اور کہا کہ لو جہاد کی مدد سے ملک کو کمزور کرنے اور اسے اسلامی ملک بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ واضح رہے کہ جج روی کمار دیواکر وہی جج ہیں جنہوں نے بنارس کی گیان واپی مسجد کا سروے کروانے کی اجازت دے دی تھی اور اس کے فوراً انہیں ترقی دے دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اس معاملے میںگزشتہ سماعت کے دوران لڑکی نے بتایا تھا کہ اس کی پچھلی گواہی جھوٹی تھی اور دائیں بازو کی جماعتیں اس کے والدین پر دباؤ ڈال رہی تھی لیکن عدالت نے لڑکی کے بیان میں تبدیلی کو ملزم کے اثر ورسوخ سے منسوب کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔
فاسٹ ٹریک عدالت کے جج روی کمار دیواکر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ نوجوان ’لو جہاد‘ کا مجرم ہے۔ لو جہاد بنگلہ دیش اور پاکستان کی ایماء پر کیا جارہا ہے تاکہ ملک کو کمزور کیا جاسکے اور یہاں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لائی جاسکے۔ واضح رہے کہ لو جہاد ایک غیر مصدقہ اورسازشی نظریہ ہے جسے ہندوستان میں ہندوتوا گروپس نے فروغ دیاہے۔ ان کا الزام ہے کہ مسلمان مردوں کی طرف سے منظم سازش کرکے ہندو خواتین کو ان سے محبت کرنے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے حالانکہ کئی معاملات میں قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے لو جہاد کے الزامات کی تحقیقات کی ہے اور ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے ۔اس کے باوجود ایک عدالت کا جج اس طرح کا فیصلہ سنارہا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ لو جہاد کے عمل میں خطیر مالی وسائل درکار ہوتے ہیں لہٰذا اس معاملے میں غیر ملکی فنڈنگ کا بھی امکان ہے۔ جسٹس دیواکر نے سماعت کے دوران کہا کہ لوجہاد کا بنیادی مقصد آبادی کو تبدیل کرنا اور بین الاقوامی کشیدگی کو ہوا دینا ہے۔
خیال رہے کہ۲۰۲۴ء میں اتر پردیش حکومت کے ریاست میں غیر قانونی تبدیلی مذہب (ترمیمی) ایکٹ میں نئی سخت دفعات متعارف کرانے کے بعد یہ پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔ اس معاملہ میں ایف آئی آر بریلی کے دیورنیا پولیس اسٹیشن میں مئی ۲۰۲۳ء میں درج کی گئی تھی۔ مذکورہ معاملہ میں مقدمہ ایک خاتون کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت پر چلایا گیا تھا جس میں محمد عالم احمد، اس کے والد صابر عالم اور خاندان کے چھ دیگر افراد پر مذہب تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے اور شادی کے بعد اسقاط حمل کرنے پر مجبور کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔