عربی زبان میں ”براء ت“ کے معنٰی”چھٹکاراپانے“کے ہیں،لیلۃ البراء ۃ کی تشریح درجنوں احادیث کریمہ کی روشنی میں جہنم سے نجات اورخلاصی پانے کی رات سے کی گئی ہے؛چوں کہ شعبان کی پندرھویں شب میں اللہ عز و جل اپنی تمام مخلوق کی طرف خصوصی تجلی فرماتا ہے،بندوں کے دامن مراد کو خوشیوں سے بھردیتاہے، بخشش ومغفرت کے ہرسمت دہانے کھول دیتاہے اور آسمان ِدنیا سے نام بہ نام ندا لگائی جاتی ہے:ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اس کی مغفرت کردوں؟ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کوعطا کردوں؟ہے کوئی فلاں؟ ہے کوئی فلاں؟۔(فضائل الاوقات للبیہقی)غرض:شب براء ت رحمتوں کی برسات، مغفرتوں کی سوغات ہے اور گنہ گاروں کے لئے الطاف الہی سے فائدہ اٹھانے کی مقدس رات ہے۔ زیر نظر تحریرکامقصدمعتبر روایات کی روشنی میں شب برات کی اہمیت کو اجاگر کرنا، اس کی فضیلت کو واضح کرنا اور اس تعلق سے ہونے والی بے اعتدالی کی نشان دہی کرنا ہے۔ذخیرہئ احادیث میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ شب برات کی اہمیت سے قطع نظر خود ماہ شعبان کی فضیلت سے متعلق متعدد روایات،صحیح اسانیدکے ساتھ کتب حدیث میں موجود ہیں: 1۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺشعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے۔آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے اور کہا کرتے تھے اتنا عمل کروجس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اُکتاتا یہاں تک کہ تم (عمل سے) اکتاجاؤ۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم،باب صوم شعبان) 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:اللہ کے رسول ﷺکو تمام مہینوں میں شعبان میں روزہ رکھنا زیادہ پسند تھا۔(سنن ابی داود،کتاب الصوم باب فی صوم شعبان)نوٹ: اس حدیث میں روزوں سے نفلی روزے مراد ہیں نہ کہ فرض روزے،ورنہ اس اعتبار سے تو اللہ کے رسول ﷺکو سب سے زیادہ رمضان کا مہینہ پسند تھا۔ 3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺشعبان کا سارا مہینہ روزہ رکھتے تھے،وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!آپ تما م مہینوں میں شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس مہینے میں اس سال مرنے والوں کے نام لکھ دیتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میری موت کے بارے جب فیصلہ کیا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ (صحیح الترغیب و الترھیب للالبانی،اسنادہ حسن) ان تینوں صحیح روایات سے ماہ شعبان کی فضیلت واشگاف ہوجاتی ہے،اب آئیے شب برات کی فضیلت سے متعلق احادیث ملاحظہ کریں۔ 1۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔ (صحیح الترغیب و الترھیب للالبانی،رجالہ ثقات) 2۔حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔یعنی جب تک وہ بغض اور کینہ ختم نہ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت بھی نہیں فرمائے گا۔(صحیح الجامع الصغیرللالبانی،اسنادہ حسن) 3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: میں نے اللہ کے رسول ﷺکو ایک رات گم پایا،میں (آپؐ کو تلاش کرنے کے لیے) نکلی تو آپ بقیع (مدینہ طیبہ کے قبرستان)میں موجود تھے۔پس آپ ﷺنے فرمایا: اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تجھ سے ناانصافی کریں گے؟تو حضرت عا ئشہ ؓنے کہا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ا!میرا گمان یہ تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔پس آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گناہوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (رواہ الترمذی) 4۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتو اس رات قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشادفرماتا ہے: کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کو بخش دوں، کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کورزق عطا کروں، کیا کوئی مصیبت کا ماراہوا ہے کہ میں اس کو عافیت دوں، کیا کوئی ایسا ہے، کیا کوئی ایسا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ و صححہ ابن حبان) شب براء ت کی فضیلت علماء امت کی نظر میں: علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: شعبان کی پندرھویں رات سے متعلق بہت سی احادیث اور آثار مروی ہیں اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس رات نماز پڑھا کرتے تھے۔ (فتاوی ابن تیمیہ، ج:۲۳،ص:۱۳۲) شارح ترمذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ شب برأت سے متعلق روایات کی تشریح کے بعد لکھتے ہیں: یہ احادیث مجموعی اعتبار سے ان کے خلاف دلیل ہے جن کا یہ خیال ہے کہ پندرہ شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ ثابت نہیں۔(تحفۃ الاحوذی،ج:۲،ص:۵۳) نیزماضی قریب کے معروف محدث علامہ البانی ؒ شب برأت کی فضیلت سے متعلق ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں: حاصل گفتگو یہ ہے کہ حدیث ان تمام طرق کی وجہ سے بلاشبہ صحیح ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ج:۳،ص:۱۳۸) اور علامہ عبید اللہ مبارک پوری ؒ نصف شعبان سے متعلق مختلف احادیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:وھذہ الاحادیث کلھا تدل علی عظیم خطر لیلۃ نصف شعبان وجلالۃشانھا،وقدرھا،وانھالیست کاللیالی الاخر،فلاینبغی ان یغفل عنھا،بل یستحب احیاء ھا بالعبادۃ والدعاء والذکر والفکر۔(مرعاۃ شرح مشکوۃ:۴/ ۲۴۳) شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمان صاحب مدظلہ اپنے ایک رسالے میں لکھتے ہیں کہ: جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات مروی ہوں، اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے، امت مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کا دور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث اجر وثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے۔(حقیقت شب برأت) شب برأت کی مخصوص عبادات: پندرھویں شب کی فضیلت توصحیح احادیث سے ثابت ہے اوراس رات کی فضیلت کا اعتبار کرتے ہوئے اس رات عمومی عبادات مثلا نوافل، تلاوت اور انفرادی ذکرو اذکار وغیرہ کااہتمام کیا جا سکتا ہے؛لیکن اس رات کی کوئی مخصوص عبادت مثلاً بارہ رکعتیں پڑھنا اور ہر رکعت میں تیس دفعہ سورہ اخلاص پڑھناکسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس رات کی مخصوص عبادات کے حوالے سے جتنی روایات مروی ہیں وہ موضوعات کے درجے کی ہیں؛ جن پر عمل کی کوئی گنجائش نہیں۔اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس رات گھر میں مرحوم اقارب کی روحیں آتی ہیں؛اس لیے مخصوص قسم کا کھانا پکایا جاتا ہے،گھروں کو رنگ و روغن کیاجاتا ہے اور غیر معمولی اہتمام ہوتا ہے؛مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب خرافات کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے؛بل کہ یہ بدعات و رسومات کی قبیل سے ہے۔ شب براء ت کے موقع پر ہر سال بہ پابندی و اہتمام اجتماعی شکل میں قبرستان جانا بھی بدعات کا دروازہ کھولنے کے مرادف ہے،اس سے بچنا چاہیے۔ پندرہ شعبان کا روزہ: عمومی اعتبار سے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے؛لیکن آپؐ نے اپنی اُمت کو پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے شفقتاً منع فرما دیا؛تاکہ رمضان کے روزوں میں سستی پیدا نہ ہو۔اس لیے شعبان کے مہینے کی عموعی فضیلت کے تحت یا ایامِ بیض میں روزہ رکھنے والی صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے ر سول ا ہمیں ایامِ بیض یعنی ہر مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔(مسنداحمد)اس کے علاوہ پندرہ شعبان کے روزے سے متعلق حضرت علیؓ کی مستقل روایت بھی ہے؛جس سے اس عمل کی تائید ہوجاتی ہے۔ خوش نصیب،سعادت منداور نیک بخت ہیں وہ خوش عقیدہ مسلمان جو رحمت و نو ر میں ڈوبی ہوئی،نور و نکہت سے معموراس شب کو اللہ عز و جل کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے ہیں اس شب کی قدر و منزلت کو ذہن و فکر میں رچا بسا کر اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں گریہ وازاری کرتے ہیں، اپنے خالق حقیقی سے لو لگاکر برکات و انوارات حاصل کرنی کی تگ و دو کرتے ہیں، اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر اس کی بارگاہ عالی میں سچی توبہ کا عزم کرتے ہیں، توبہ استغفار کرکے آئندہ دین پر استقامت کی دعائیں کرتے ہیں اور زبان حال و قال سے کہتے ہیں ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جواماں ملی توکہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کوترے عفوِبندہ نوازمیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں