ڈاکٹر سیّد احمد قادری
بھارت صدیوں سے سیکولر ملک رہا ہے۔اس ملک میں جب بادشاہت کا دور تھا ، یعنی مسلمانوں کی اولین حکومت محمد بن قاسم سے لے کر مغلوں کی آٹھ سو سال کی حکومت تک اور پھر کمپنی بہادر اور برٹش کی دو سؤ برس کی حکومت کے درمیان کبھی بھی ان حکمرانوں نے
ا پنے مذہب کو اپنی حکومت کا بنیاد نہیں بنایا ۔ اس لئے کہ صدیوں سے یہ تصور رہا ہے کہ جن ممالک میں بھی مخلوط آبادی ہو، مختلف مذاہب کے ماننے والے ہوں ،وہاں اگر کامیاب حکومت کرنی ہے تو حکومت کو مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہئے ۔بھارت کے مسلم حکمرانوں کا تعلق اسلام مذہب سے ضرور رہا ، لیکن ان مسلم حکمرانوں کی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سیکولر رہی اور صدیوں تک برسر اقتدار رہنے والے مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے مذہب اسلام کی تبلیغ کے لئے حکومت کے اثرات اور وسائل کا سہارا نہیں لیا ۔ مسلمانوں سے حکومت چھیننے اور قبضہ جمانے والے انگریزوں نے بھی اپنے عیسائی مذہب کو اس ملک پر مسلط کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی۔ ہاں چند ر گپت موریہ نے ضرور اپنے دور حکومت میں اپنے جین مذہب کو حکومت کا مذہب قرار دیا تھا اور دوسرے راجہ اشوک کا نام آتا ہے کہ اس نے بودھ مذہب کو حکومت کا مذہب نہ صرف تسلیم کیا تھا، بلکہ اپنے بھائی مہندر کو پورے ملک میں حکومت کے خرچ پربودھ مذہب کی تبلیغ کے لئے مامور کیا تھا ۔ان دو مثالوں کے علاوہ تیسری کوئی مثال اس ملک میں ایسی نہیں ملتی ہے ۔یہی وجہ رہی ہے کہ ہمارے ملک بھارت کا صدیوں سے سیکولر مزاج رہا ہے ۔ ہمارے ملک کو جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی ، تب بھی آئین سازوں نے اس ملک کو کسی بھی حکومت کا مذہب نہیں بنایا ، بلکہ آئین میں لفظ سیکولر یا سیکولرزم کی شمولیت کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور آئین کے شق 15.1 میں بہت ہی واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ The state shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion
جواب دیں