سنجولی مسجد کیس میں بدھ کو اس وقت ایک نیاموڑ آگیا جب مسلمانوں کی ایک تنظیم نے مسجد کے ۳؍ ’’غیر قانونی منزلوں‘‘ کو منہدم کرنے کے ۵؍ اکتوبر کے میونسپل کمشنر کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ یاد رہے کہ مسجد کے ٹرسٹی لطیف محمد نے تنازع اور میونسپل کمشنرکورٹ کے فیصلے کے بعد پیشکش کی تھی کہ مسجد انتظامیہ خود اُن ۳؍ منزلوں کو منہدم کردیگی جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ا س کیلئے انہوں نے میونسپل کمشنرسے اجازت بھی مانگی تھی ۔ ۵؍ اکتوبر کو کمشنر نے اس کی اجازت دیدی تھی اور انہدام کیلئے ۲؍ ماہ کا وقت دیاتھا۔ اس کے فوراً بعد کارروائی شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے مسجد کی چھت کو شہید کرنے کا کام ہوا۔
اس بیچ آل ہماچل مسلم آرگنائزیشن جس نے ۱۱؍ اکتوبر کو میونسپل کمشنر کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیاتھا، نے بدھ کو اس فیصلے کو شملہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں چیلنج کردیا ۔ تنظیم کے وکیل نزاکت علی ہاشمی نے دلیل دی ہے کہ مسجد کمیٹی اور وقف بورڈ کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ میونسپل کمشنر کو حلف نامہ دیں نیز یہ کہ میونسپل کمشنر کورٹ نے جو حکم جاری کیا وہ حقائق کے برخلاف ہے۔ ایڈوکیٹ نزاکت علی کے مطابق جس نے مسجد کیلئے زمین دی ہے وہ اصل متاثرہ فریق ہے اوراس کا موقف سنا جانا چاہئے۔ انہوں نےمیونسپل کمشنر کورٹ میں محمد لطیف کی پیروی پر بھی سوال اٹھایا۔