لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے سنگھ پریوار والے فساد برپا کر سکتے ہیں!
عبدالعزیز
ہندستان کی موجودہ سیاسی صورت حال تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ لوک سبھا اور کئی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج اورتین بڑی ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی ہار سے ایک نئے قسم کا سیاسی منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔ سروے سے موجودہ صورت حال کا بہت کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ سروے اور بی جے پی کی تین بڑی ریاستوں میں شکست سے نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو رام مندر کے سوا کوئی اور سہارا نظر نہیں آرہاہے۔ پانچ ریاستوں کے حالیہ الیکشن سے پہلے مندر کی تعمیر کیلئے زور شور شروع ہوا تھا اور اجودھیا اور بابری مسجد کی زمین کے قریب پہلے شیو سینا کا اجتماع منعقد ہوا اور ا س کے فوراً بعد ہی وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کے ممبران اور ہمدردوں کا جمگھٹا ہوا۔ اگر چہ آخرالذکر اجتماع پہلے جیسا اجتماع نہیں تھا۔ نہ پہلے جیسا ہجوم تھا اور نہ عام لوگوں میں وہ جوش و جذبہ تھا۔ شیو سینا کا اجتماع پورے طور پر سیاسی تھا جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا مہاراشٹر میں بی جے پی شیو سینا کو بڑا بھائی ماننے پر مجبور ہو اور سنگھ پریوار کا ’دھرم سنسد‘ (مذہبی اجتماع) کا ایک ہی مقصد تھا کہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہو۔ شیو سینا نے یقیناًکچھ مقصد ضرور حاصل کیا لیکن سنگھ پریوار کا مقصد کامیاب نہیں ہوا۔ مندر کی سیاست ناکام ثابت ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک مندر کا ایشو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جب سروے رپورٹ سامنے آئی تو سنگھ پریوار کو بچنے کیلئے مندر ہی کا سہارا نظر آیا۔
پہلے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کی طرف سے مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا۔ امیت شاہ اور نریندر مودی نے اپنے انٹرویو میں قانون سازی کے بارے میں کہاکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ، پہلے فیصلہ آجائے جب کسی اور بات پر غور کیا جاسکتا ہے۔ پہلے تو سپریم کورٹ کے ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہ متاثر ہوکر جلد سے جلد مندر کے حق میں فیصلہ کردے لیکن موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کسی دباؤ میں نہیں آئے۔ بعض وجوہ سے مقدمے کی تاریخ بڑھتی رہی۔چند دنوں پہلے وزیر قانون روی شنکر پرساد نے سپریم کورٹ سے بجائے گزارش کرنے کے تحکمانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں اجودھیا سے متعلق زیر سماعت مقدمہ کا جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہ ایسی بات تھی کہ کم سے کم ایک قانون داں کے شایان شان نہیں تھی لیکن سنگھ پریوار کیلئے چاہے وہ قانون داں ہو یا نہ ہو سب کچھ روا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے قانون داں عدالتوں میں کنہیا کمار جیسے طالب علم پر حملہ کرنے سے باز نہیں آئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار والے آئین اور دستور سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں۔
2019ء کے جنرل الیکشن میں سنگھ پریوار کی اب ساری کوشش یہ ہے کہ کسی طرح رام مندر کا مسئلہ اٹھایا جائے اور اس کے سہارے الیکشن جیتنے کی کوشش کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی غیر متنازع زمین کیلئے درخواست دی ہے کہ اسے نرموہی اکھاڑہ کے مالکان کو زمین سپرد کردی جائے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے آچکے ہیں جس میں غیر متنازع زمین جو حکومت کی تحویل میں ہے اسی کسی کے سپرد کرنے پر روک لگا دی گئی ہے۔ حکومت کو معلوم بھی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے جیسا ہی ہوسکتا ہے لیکن مسئلے کو سلگتے رہنے کیلئے اس طرح کی حرکتیں سنگھ پریوار کوپرانی عادت ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ان کو اپنا ماضی بھی یاد آرہا ہے کہ مندر کے راستے ہی سے آج یہاں تک پہنچے ہیں۔ 1977ء میں جنتا پارٹی کے ذریعے کانگریس کی شکست فاش کی وجہ سے بی جے پی کا عروج ہوا۔ بی جے پی پہلے جن سنگھ کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ جنتا پارٹی میں شامل ہوکر چودھری چرن سنگھ کا بھارتیہ لوک دل اور اندرا گاندھی کانگریس کے مخالف گروہ کے ساتھ آگے بڑھی۔ جنتا پارٹی کے 295ممبران پارلیمنٹ میں سے جن سنگھ کو 90 سیٹیں حاصل ہوئیں اور چودھری چرن سنگھ کی ’بی ایل ڈی‘ کو 68 سیٹیں اور کانگریس ’او‘ کو 55، سوشلسٹ کو 51اور جگجیون رام کی پارٹی کو 25سیٹوں پر کامیابی ہوئی۔ 1980ء میں اندرا گاندھی کی طوفانی واپسی ہوئی۔ جنتا پارٹی کو سب ملاکر 31 سیٹیں ملیں جن میں 16جن سنگھ کی تھیں۔ 4اپریل 1980ء کو اٹل بہاری واجپئی اور جن سنگھ کے دیگر ممبران کو دوہری رکنیت یعنی آر ایس ایس اور جنتا پارٹی کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ 6 اپریل 1980ء کو جن سنگھ گروپ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی تشکیل کی۔ 1984ء میں جب الیکشن ہوا تو جن سنگھ یعنی بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ملیں۔ واجپئی بھی ہار گئے۔
ایل کے ایڈوانی نے نئے حالات کا جائزہ لیا اور کانگریس پر تواتر کے ساتھ حملے شروع کر دیئے۔ پہلے توبتایا کہ کانگریس جعلی سیکولرزم کی علمبردار ہے۔ 1950ء میں شاہ بانو کے معاملے میں راجیو گاندھی نے جو رویہ اپنایا وہ سپریم کورٹ کے برخلاف تحفظ مسلم خواتین کا قانون بنایا، اس پر بھی اوچھے قسم کے حملے کرنے لگے۔ 1984ء میں وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس نے مل کر رام جنم بھومی کو آزاد کرنے کا مطالبہ شروع کیا۔ 1986ء میں بابری مسجد کا تالا کھولنے کی بھرپور حمایت کی ۔ 1989ء میں رام مندر کے حق میں قرار داد پاس کی، جس میں کہا گیا کہ بابری مسجد کے قریب وشو ہندو پریشد کو شیلا نیاس کرنے کی اجازت دی جائے۔ راجیو گاندھی نے 1989ء میں لوک سبھا کے الیکشن سے کچھ پہلے شیلانیاس کرنے کی اجازت دے دی۔ وی پی سنگھ نے کانگریس پر ’بوفورس ڈیل‘کے سلسلے میں جو الزام عائد کیا تھا اس سے بھی بی جے پی کو فائدہ ہوا۔لوک سبھا کی 80سیٹیں جیتنے میں کامیابی ہوئی۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش کے اسمبلی الیکشن میں کامیاب ہوئی اور حکومت سنگھ پریوار کی ہوگئی۔ اس طرح رام مندر کا مدعا بی جے پی کیلئے ناگزیر (Indispensible) ہوگیا۔ وی پی سنگھ کی حکومت کو بی جے پی کو باہر سے حمایت کی تھی ۔
ایڈوانی نے 1990ء میں سومناتھ سے اجودھیا تک ’رام رتھ یاترا‘ نکالی۔ اس طرح جنتا دل کے اندر سے ہندوتو سیاست کا دباؤ پڑنے لگا۔ وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی رپورٹ کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کردیا۔ اسی وقت 23اکتوبر 1990ء کو بہار میں لالو پرساد نے ایڈوانی کو گرفتار کیا۔ اور ملائم سنگھ نے اجودھیا میں کارسیوکوں پر پولس فائرنگ کی۔ 1991ء میں وی پی سنگھ کی حمایت بی جے پی نے واپس لے لی۔ اترپردیش میں جب اسمبلی الیکشن ہوا تو بی جے پی کو فائدہ پہنچا اور 485میں سے 221 میں کامیابی ملی۔ اور لوک سبھا کی 120سیٹوں پر بی جے پی کامیاب ہوئی۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی حکومت کی جگہ کلیان سنگھ کی حکومت ہوگئی۔6دسمبر 1992ء میں کلیان سنگھ کی اترپردیش میں حکومت تھی اور نرسمہا راؤ کی حکومت مرکز میں تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ہندستان میں تین بڑے واقعات ہوئے۔ تقسیم ہند، گاندھی جی کا قتل اور بابری مسجد کی شہادت۔ بابری مسجد کے انہدام کا سہرا بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے سر باندھا ۔ اس پر ان کے لیڈروں نے فخر کیا کہ وہ پانچ سو سالہ عمارت گراکر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ جو لوگ مسجد کو گرانے میں پیش پیش تھے یا ان مجرمانہ حرکتوں میں شامل تھے انھیں آج تک سزا نہیں ملی۔ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی، ونئے کٹیار جیسی مجرمانہ شخصیتیں اب سیاست میں مرکزی شخصیتوں میں شامل نہیں رہیں۔ اشوک سنگھل، مہنت اوید ناتھ (یوگی ادتیہ ناتھ کا گرو)، اچاریہ گری راج کشور جیسے لوگ بھی اب نہیں رہے۔ لیکن بی جے پی کا ہندوتو اور رام مندر کا ایجنڈا ابھی تک مرا نہیں ہے۔ اور اب جبکہ سنگھ پریوار کا سیاست میں ساڑھے چار سال پہلے عروج ہوا ہے اور اس وقت روبہ زوال ہے تو رام مندر کا مدعا وہ کیسے بھول سکتے ہیں؟
اب 2019ء کے الیکشن کیلئے بی جے پی کو ایک ہی سہارا ہے وہ ہے رام مندر اور دوسرا سہارا فرقہ وارانہ فسادات۔ امریکی انٹلیجنس کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے ہندستان میں بڑے پیمانے پر ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوسکتے ہیں۔ سنگھ پریوار کی فرقہ پرستانہ سیاست سے نپٹنے کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن کی پارٹیاں مضبوطی کے ساتھ اتحاد کریں اور بی جے پی کو شکست دینے کیلئے ہر جگہ اس کے خلاف سب مل کر ایک ہی امیدوار کھڑا کریں تاکہ ملک بھرمیں بی جے پی کا صفایا ہوسکے۔ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ اپنی تقریروں، بیانات میں انتہائی درجے کا احتیاط ملحوظِ خاطر رکھیں اور ٹی وی نیوز کے پینل ڈسکشن میں جو مولانا مولوی شریک ہوتے ہیں وہ شریک ہونے سے پرہیز کریں ۔ اگر ایسے لوگ نہیں مانتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کریں، کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کے ذریعے فرقہ پرستوں کو حوصلہ ملتا ہے اور فرقہ پرست ماحول کو گرم کرتے رہتے ہیں۔ اتر پردیش میں اعظم خان کی خاموشی اچھی بات ہے لیکن اسدالدین اویسی صاحب کی مسلمانوں میں مقبولیت اور شہرت کوئی خراب چیز نہیں ہے لیکن ان کے بیانات اور تقریروں سے بعض دفعہ فرقہ پرستوں کو مدد ملتی ہے۔ اگر وہ بھی قوم پرستانہ انداز چھوڑ کر داعیانہ انداز اپنائیں تو مسلمانوں کیلئے بہتر ہوگا اور سنگھ پریوار کو ہندوؤں کو بھڑکانے میں مدد نہیں ملے گی۔ مسلمانوں پر زبردست ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرامن ماحول قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کریں اور جہاں بھی نفرت پھیلانے کی کوشش ہورہی ہو اسے حکمت و تدبر کے ساتھ ملک کے دیگر شہریوں اور سرکاری مشنری کی مدد سے روکنے کی بھرپور کوشش کریں۔ فسادات سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو پرامن اور سازگار ماحول بنانے میں دوسروں کے مقابلے میں انھیں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔
جواب دیں