کیا ہم نے سفرِ حقیقی کو بھلا تو نہیں دیا ہے؟

 

(عبدالماجد دریابادیؒ کی فکر انگیز تحریر)

 

مرتب: محمد ندیم الدین قاسمی

 

آپ کو جب کبھی کہیں دور، اور اجنبی مقام کے سفر کا اتفاق ہو،تو آپ اس کے لئے کتنی تیاریاں اور اہتمام کرتے ہیں، ریل کے کیا کیا اوقات ہیں،کتنا کرایہ ہے،دورانِ سفر کتنی چیزوں کی ضرورت پڑے گی،راستہ میں خورد ونوش کی کیا صورتیں ہوں گی،منزلِ مقصود پر پہنچ کر ٹہرنے کا کیا بند وبست رہےگا، وہاں پہنچ کر کن چیزوں کی ضرورت پیش آئے گی،عدمِ موجودگی میں گھر کی دیکھ ریکھ کون کرے گا؟یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات آپ کے قلب ودماغ میں ضرور گردش کرتے ہوں گے؛ لیکن جو سفر آپ کے لئے سب سے زیادہ قطعی ویقینی ہے،جس سفر سے بچنا ممکن ہی نہیں ، جس سفر کا اختیار کرنا آپ کے اختیار وارادہ کے ماتحت نہیں،جو سفر آپ کو ایک بارگی اور بغیر سابق اطلاع کے کرنا ہوگا،جس سفر میں آپ کے لئے اپنے عزیز و اقارب کو بطورِ ملازم رکھنا ممکن ہی نہ ہوگا،جو سفر آپ کو ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک نہیں ؛ بلکہ ایک عالَم سے نکال کر چشم زدن میں دوسرے عالم میں پہنچا دے گا،آپ نے کبھی اس سفر کی اہمیت پر غور کیا ہے؟ آپ نے کبھی اس سفر کی تیاریاں کی ہیں؟کبھی اس سفر کی دشواریاں آپ کے دل میں خو ف پیدا کرتی ہیں؟ کبھی اس سفر کی سہولتیں آپ کے دل میں شوق بڑھاتی ہیں؟ آپ نے کبھی سب سے اچھے اور سب سے سچے مسافر کا قول سنا ہے کہ جو کوئی اس سفر کے خاتمہ ،یعنی اللہ کے دربار میں حاضری کو دوست رکھے گا،اور دنیا میں اس سفر کی تیاریاں کی ہوگی،تو اللہ خود اپنے دربار میں اس کی حاضری کا مشتاق ہوگا،اور جو اس سفر کے خاتمہ کو ناگوار سمجھے گا، اور  دنیا ئے فانی میں "ومن اعرض عن ذکری" کی عملی تصویر ہوگا،اللہ خود اس کی حاضری کو ناپسند فرمانے لگے گا۔اس ارشاد کو سن کر آپ کے دل نے کیا اثر لیا؟آپ کی عقل نے آپ کو کیا مشورہ دیا؟آیا اس سفر کو بھلائے رکھنا دانش مندی ہے، یا اسے یاد رکھ کر ہر وقت اس کی تیاریوں میں لگے رہنا؟آیا اس منزل کو اپنے لئے مانوس ومالوف بنالینا، یا اس راہ کی دشواریوں کو اپنے حق میں بڑھاتے رہنا؟ آیا اس سفر کے سب سے بڑے رہنما کی ہدایتوں پر اپنے امکان بھر عمل کرکے، آگ کے شعلوں اور انگاروں کو اپنے حق میں گل و گلزار بنالینا،  یا غفلت،  ضد اور سرکشی سے کام لے کر منزل کی آسائشوں سے لطف اٹھانے کی قابلیت ہی اپنے میں باقی نہ رکھنا؟ آیا موجودہ زندگی کو اس برتر زندگی کا محض پیش خیمہ ومقدمہ سمجھنا "آج" کی لذتوں میں مشغول و منہمک ہو کر " کل" کے خیالات کو وہم وخرافات کے درجے پر رکھنا؟  آج ذرا ہم ان سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ سوچیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ہم نے اس یقینی سفر کی تیاریاں کی ہیں؟ کیا ہم خدا کے دربار میں حاضری کے لئے مکمل تیار ہیں؟ کیا ہم نے ہمارے بہترین رہبر( حضرت محمدﷺ) کی ہدایتوں پر عمل کیا ہے؟ کیا ہمارے "لیل ونہار" خدا کی ناراضگی میں سر ہوتے ہیں یا خدا کی خوشنودی کی حصول میں؟ اگر ہم نے اب تک اس سفر کی تیاری نہیں کی ہے، تو ہمیں فکر مند ہونا چاہئے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

بہ یاد یار مہرباں

میڈیا۔کووڈ کے بعد………..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے