مفتی عدنان خان ندوی ہمارے پہلے رفیق درس ہیں جو بارگاہ الہٰی میں پہنچ گئے اور اپنی زندگی کی صرف 23 بہاریں دیکھیں۔ ہم خواب غفلت میں سونے والوں کو اقبال کی زبانی سبق دے گئے:
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچایا ، اڑ گیا
آہ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم ، کیا گئے! زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں مزار
اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار یہ شرارے کا تبسم یہ خس آتش سوار
آج صبح اٹھتے ہی خبر موصول ہوئی کہ میرے عزیز دوست اور علمی رفیق مفتی عدنان ندوی ایک سڑک حادثے میں اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔ خبر سنتے ہی ماتھا ٹھنکا، دل دہل اٹھا، آنکھ بھر آئی، زبان میں شدت غم سے لرزش محسوس ہوئی، کچھ لمحوں کے لیے سکوت اور مبہوت کا منظر رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے لیے ایک صاف شفاف آئینہ تھے، جس میں میں اپنی خامیوں اور ابلہ فریبیوں کو واضح طور پر دیکھتا تھا۔ وہ قحط الرجال کے اس دور میں مغتنم اور محترم شخصیت تھے۔ اپنے درجے کے ساتھیوں میں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو محسوس ہوتا کہ اس نیک انسان میں اخذ و استفادہ کے لیے بہت کچھ سامان موجود ہے۔
بھائی عدنان صحت مند دماغ کے ساتھ ساتھ صحت مند جسم کے مالک تھے۔ وہ ورزش کے عادی تھے۔ کبھی کبھار اپنے مضبوط ہاتھوں سے ہلکا مکا رسید کرتے تو میں تلملا اٹھتا۔ ان کی صحت کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ مجلی ذہن اور مزکی قلب کے حامل تھے۔ حسد، کینہ توزی، مکر و فریب سے کوسوں دور اور ایسی گندگی پالنے والے سے سخت نفور تھے۔ اب یاد آتا ہے وہ منور و تاباں چہرہ، گول اور گوشت سے بھرا پرا، اگرچہ ابتدا میں گہری سیاہی تھی مگر عبادت اور معرفت کے نور سے وہ دھل گئی تھی۔ اب وہ خاصے دلکش معلوم ہوتے تھے۔ موٹی اور بڑی سرمگیں آنکھیں جو سنجیدگی سے ہمیشہ معمور ہوتی تھیں۔ سنجیدگی پر علی طنطاوی کا جملہ یاد آگیا جو انھوں نے اپنے دوست سید قطب شہید کے لیے استعمال کیا ہے: کان لا یعرف في حياته سوى الجد. میرے خیال میں طنطاوی صاحب نے اس مختصر جملے میں سید قطب کی زندگی کا خلاصہ پیش کردیا ہے۔ اپنے ساتھیوں میں بھائی عدنان کو اس وصف میں ممتاز پایا۔ وہ اگرچہ تفریح اور خوش گپیوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے مگر اپنے مقصد علمی سے واقف۔ ہر وقت اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے جوشاں و کوشاں۔
وہ اگرچہ بہت ذہین نہیں تھے مگر مسلسل محنت اور دماغ سوزی سے خاصے ہوشیار ہوگئے تھے۔ اسی طرح اپنے ساتھیوں کی علمی امداد نے ان کے جوہر علم کو خوب چمکایا تھا۔ ابھی میرے اور ان کے مشفق استاد مولانا مفتی ساجد صاحب سے گفتگو ہوئی تو وہ سسکیاں بھر رہے تھے اور ان کی اس صفت کا ذکر ہورہا تھا۔ مولانا ساجد صاحب ایک وکیل ہیں مگر اپنے شوق سے عالمیت اور افتاء کا مرحلہ بھی طے کیا۔ چنانچہ انھیں عبارات کو حل کرنے اور مسائل کو سلجھانے کے لیے عدنان بھائی بہترین مددگار تھے۔
عدنان بھائی ایک بے آزار انسان تھے اور دوسرے کے بہی خواہ۔ یہ دو صفت ایسی ہیں کہ انسان کو صحیح معنی میں انسان کا جامہ پہناتی ہیں۔ اگر سب صرف بے آزار ہوجائیں تو یہ دنیا گل و گلزار بن جائے۔ محبت کی مہکار اور خیر کا آبشار عام ہو۔ یہ صفت دوسری صفات کی نمو اور نمود کا سبب بنتی ہے۔
عدنان بھائی کے کئی بھائی اور بہنیں موجود ہیں۔ اور والد صاحب ایک مدرس۔ اس لیے انھیں زندگی میں زندگی کی مسرتوں کو لوٹنے اور دولت کی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع نہیں ملا۔ ہمارے لیے جو سامان ضروریات میں شامل تھا، ان میں کئی ساری چیزیں ان کے لیے میسر نہیں تھیں۔ وہ بڑے کفایت شعار اور قناعت گزار تھے۔ دوسروں کی اشیائے خورد و نوش پر للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ ہاں ان کے خاص ساتھی کچھ دے دیں تو خوشی سے تناول کرتے تھے۔ اگر اپنے پاس گنجائش ہو تو دوسروں کی ضیافت سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ ہمیشہ شاد و خرسند معلوم ہوتے تھے۔ وہ جو سکون قلب کی دولت حاصل تھی۔ انھیں کبھی حرفِ شکایت زبان پر لاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حافظ شیرازی کا یہ شعر ان کی زندگی پر چسپاں معلوم ہوتا ہے:
هنگام تنگدستی در عیش کوش و مستی کاین کیمیای هستی قارون کند گدا را
وہ ایک جفاکش اور خدمت خلق کے لیے وقف اور صالح انسان تھے۔ فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا جاتا۔ خدا سے دعا ہے کہ ان کی بخشش ہو اور ان پر نوازش ہو، رحم و کرم کا معاملہ ہو۔ آمین یارب العالمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں