اگر سول سوسائٹی کے افراد اپنے حصے کا کام کریں تو سماجی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے
عبدالغفار صدیقی
ہم انسان ہیں۔ایک انسانی سماج میں رہتے ہیں۔ہمیں شعور و فکر اور عقل و فہم کی دولت عطا کی گئی ہے۔اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت بخشی گئی ہے۔اس کے علاوہ ہم میں سے بعض لوگوں کو مزید نعمتوں سے نوازا گیا ہے۔کسی کو مال و زر کے انبار دیے گئے ہیں،کسی پر علم کے موتی لنڈھائے گئے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ان نعمتوں کے حصول میں فرد کی ذاتی محنت کو بھی دخل ہے۔لیکن کیا ہم میں سے کوئی یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ آج جو کچھ وہ ہے اس کے بنانے اور یہاں پہنچانے میں کسی اور کاکوئی دخل نہیں ہے؟کیا ہم نے ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہی لکھنا پڑھنا شروع کردیا تھا۔بچپن کا وہ زمانہ جو ہماری پیدائش سے لے کر اسکول جانے کی عمر تک تھا،ہم کتنے مجبور تھے،کوئی کام بھی خود نہیں کرسکتے تھے،کھانے پینے سے لے کر پاکی وصفائی حاصل کرنے تک کے لیے ہم دوسروں کے محتاج تھے۔ماں،باپ،بھائی،بہنیں،اور گھر کے دیگر افراد نے اگر اس وقت ہماری مدد نہ کی ہوتی تو کیا ہم آج وہاں ہوتے جہاں ہونے پر ہم اِترارہے ہیں۔اس کے بعد اسکول جانے سے لے کر اپنے پیروں پر کھڑاہونے تک کا سفر ہم نے کتنی بیساکھیوں پر پورا کیا ہے،کیا اس کا ہمیں احساس ہے؟باپ کی گاڑھی کمائی کے علاوہ کتنے لوگ ہیں جو ہماری زندگی کی بقا اور اس کو آسان بنانے میں لگے رہے ہیں۔ہمارے ٹیچر جنھوں نے ہمیں پڑھایا،ہمارے اسکول کا چپراسی اور صفائی کرنے والا جس نے ہماری خدمت کی،وہ سواریاں اور ان کے چلانے والے جو ہمیں بحفاظت اسکول پہنچاتے اور واپس لاتے رہے۔اس کے علاوہ بھی درجنوں افراد ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔کیا ہم ان سب کو بھول گئے۔؟کیا ہم صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ جائیں کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔اگر یہی بات ہے تو ہم پر اس فرض کے عوض جو حق عائد ہوتا ہے کیا اس کا ہمیں کوئی علم اور احساس ہے؟کیا ہم یہ کہہ کر دل کو مطمئن کرلیں کہ ماں باپ کے علاوہ باقی خدمت گاروں نے پیسے کے عوض یہ خدمت کی ہے؟ذرا ان لوگوں کی ایک فہرست بنائیے جن لوگوں نے آپ کی خدمت کی ہے،پھر اس میں سے پیسہ لینے والوں کو الگ کیجیے تو صرف دوچار ہی نام مل پائیں گے،ایک طویل فہرست ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہم سے بے لوث محبت کی۔جنھوں نے ہماری کامیابی پر ہماری حوصلہ افزائی کی۔اگر وہ حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید ہماری کامیابی ٹھہر گئی ہوتی۔درجنوں نہیں سینکڑوں افراد ہیں جو ہماری جیت پر خوش ہوتے تھے، پہلی بار جب ہم نے چلنا شروع کیا تھا،ہم لڑکھڑائے تھے تو کئی ہاتھ ہمیں تھامنے کو بڑھے تھے،کتنی ہی آنکھوں میں ہمارے پاؤں چلنے کی خوشی تھی۔ایک بڑی تعداد ہے ان انسانوں کی جو ہمارے غم زدہ ہونے پر دکھی ہوتے تھے۔کچھ تو وہ تھے جو ہمارے پاؤں میں کانٹا چبھتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔جب ہم کبھی بیمار ہوئے تو کتنے ایسے تھے جو رات بھر سوئے نہیں،جب تک ہمیں ہوش نہ آگیا وہ خود اپنے آپ سے بے خبر رہے۔اس میں ہمارے خونی رشتہ دار بھی تھے اور ہمارے احباب بھی۔ آپ کو کچھ ایسے لوگوں سے شکایت ہوسکتی ہے جنھوں نے آپ کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے جتن کیے ہوں گے۔لیکن ایسے لوگ آپ کی زندگی میں دو چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ورنہ آپ سچے من سے جائزہ لے کر دیکھ لیجیے۔کیا ہم ان دوچار حاسدوں یا بدخواہوں کی وجہ سے اپنے ہزاروں مخلصین اور سینکڑوں مہربانوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلو تہی کرسکتے ہیں؟ہم میں سے ہر شخص کو یہ جائزہ لینا ہے کہ سماج کا جو قرض ہم پر ہے،وہ ہم نے کتنا ادا کیا۔ بقول حفیظ میرٹھی ؒ: یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا دنیا سے ہم نے کیا لیا؟دنیا کو کیا دیا؟ میں دیکھتا ہوں کہ ہر کوئی اپنی محرومیوں کی فہرست پر شکوہ بلب ہے۔کسی کو اولاد کے نہ ہونے،اور کسی کو ہونے کے باوجودناکارہ و نافرمان ہونے کا غم ہے۔کسی کے پاس مال و زر اس قدر کہ ہردم ای ڈی کا خطرہ اور کوئی دوسرے کے مال کو دیکھ کر غم زدہ ہے۔ایک وزیر اپنے قلمدان سے،ایک ٹیچر خود کو ملنے والی سہولیات سے،ایک ڈاکٹر اپنے کمیشن سے،ایک انجینئر اپنے موجود وسائل سے مطمئن نہیں،اور تو اور مسجد کے امام و مولوی مقتدیوں سے،مندروں اور آشرموں کے پنڈت وپجاری اپنے بھکتوں سے خوش نہیں ہیں۔ایسا اس لیے ہے کہ ہم سب اپنے لیے جی رہے ہیں۔ہر وقت اپنی مصیبتوں کا رونا روتے ہیں۔اپنے آرام کی فکر کرتے ہیں۔آسائش دنیا میں اپنے سے اوپر کی طرف دیکھتے ہیں تو رنج و غم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ھل من مزید کی کیفیت ہمارے اضطراب کو بڑھادیتی ہے۔اسی لیے معلم انسانیت ؐ نے فرمایا تھا کہ:”اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے،اس شخص کی طرف مت دیکھو جو تم سے اوپر ہے،یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہ جانو جو تم پرہے“(متفق علیہ)۔ ملت کی پسماندگی پر ہر کوئی ماتم کناں ہے۔ہر شخص اپنے سوا دوسرے کی طرف انگلی اٹھا رہا ہے۔مسجد کے ائمہ ہر جمعہ کو کھری کھوٹی سناتے ہیں،ملی،مذہبی و سماجی تنظیمیں سمپوزیم و سمینار کرتی ہیں،قلم کار و صحافی احوال واقعی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے آئینہ دکھاتے ہیں،حکومت کے ادارے ہر سال اعداد و شمار پیش کرکے ذلیل کرتے ہیں،آخر ان سب کا حاصل کیا ہے؟ہم ہر دن پسماندگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔جب کہ چندہ پر منحصر اداروں کے چندے میں اضافہ ہورہا ہے۔سرکاری ملازمین کے مشاہرے بڑھ رہے ہیں۔گلی گلی میں لیڈر پیدا ہورہے ہیں،جس کا اندازہ قارئین کو ہر انتخاب کے وقت ہوتا ہے،جب ایک عہدے کے لیے پانچ چھ لوگ نامزدگی کراتے ہیں۔اس کے باوجود بھارت میں سرورکائناتؐ کی امت کی حالت افسوسناک ہے۔اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم درد پر تبصرے کرتے ہیں،مرہم نہیں لگاتے۔بلکہ کسی مسیح موعود کا انتظار کررہے ہیں۔حالانکہ جب تک وہ آئے گا ہم جاچکے ہوں گے۔ ہم میں سے جو لوگ سول سوسائٹی کے زمرے میں آتے ہیں،ان پر سماجی ذمہ داریاں زیادہ عائد ہوتی ہیں۔اس فہرست میں اساتذہ، معلمین،ڈاکٹر س،وکلاء،انجینئرس،علماء،قلم کار، صحافی،تاجر،ججز حضرات،وغیرہ شامل ہیں۔آخر الذکر یعنی ججز کو چھوڑ دیجیے کہ ہمارے معاشرے میں ان کی تعداد نہیں ہونے کے برابر ہے۔لیکن باقی لوگوں کی تعداد تو خاطر خواہ ہے۔ ہمارے درمیان سب سے زیادہ تعداد اساتذہ کی ہے۔ناخواندگی کی ضرر رسانی ان پر اظہر من الشمس ہے۔ان کے پاس وقت کی بھی کوئی کمی نہیں،اس لیے کہ تقریباً سو سے زائد چھٹیاں ہیں،پھر کام کے اوقات بھی پانچ یا چھ گھنٹہ ہیں۔پرائیوٹ اساتذہ کے مقابلے،سرکاری اساتذہ کو معقول مشاہرہ ملتا ہے۔اگریہ لوگ اپنے محلہ و بستی سے ناخواندگی دور کرنا چاہیں تو کون روک سکتا ہے،کمزور بچوں کی رہنمائی میں کیا چیز مانع ہے؟ڈراپ آؤٹس کو اسکول میں داخلہ کرانے،ان کو سرکاری مراعات دلوانے میں کیا چیز رکاوٹ بن سکتی ہے۔لیکن افسوس ان کی جانب سے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جاتا جو ملت یا قوم کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں معاون ہو۔اسی پر آپ ائمہ مساجد اور مدارس کے معلمین کو محمول کرسکتے ہیں۔ایک امام اپنے مقتدیوں کی جہالت دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا،مدارس کے پاس اپنے گردو پیش کی ناخواندگی کو خواندگی میں اور لاشعوری کو شعور میں بدلنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ڈاکٹرس کوسماج عزت کی نظر سے دیکھتا ہے۔غم کے ماروں سے ان کا واسطہ ہے۔ان کے پاس وقت و وسائل کی کوئی کمی نہیں۔یہ لوگوں کو صحت اور تعلیم کے لیے بیدار کرسکتے ہیں۔اگر یہ چاہیں تو دس سے بیس لوگوں کی مالی مدد یا ٹیکنکل رہنمائی کرکے مسائل حل کرسکتے ہیں۔آج کل میڈیکل کے شعبہ میں زبردست کرپشن ہے،غیر ضروری جانچ کے نام پر پیسہ کمایا جارہا ہے۔نقلی دوائیں دے کر مریضوں کی زندگی سے کھلواڑ کیا جارہا ہے،اگر ہم ملت کی پسماندگی پر تبصرہ کرنے کے بجائے کرپشن سے خود بھی بچیں اور عوام کو بھی بچالیں تو سماجی قرض ادا کیا جاسکتا ہے۔مریض سے ہمدردی و خیر خواہی،کم سے کم خرچ میں علاج،میٹھے دو بول مریض اور تیمار داروں کو حوصلہ دے سکتے ہیں۔ یہ عمل بلا تفریق ہو تو اہل وطن پر اخلاقی برتری بھی ثابت کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سول سوسائٹی کے دیگر ذمہ داران ہیں،وکلاء دس فیصد مقدمات مالی حالت سے کمزور بے گناہوں کے لڑ سکتے ہیں،آرٹی آئی کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری مشینری کو متحرک و فعال کرسکتے ہیں۔سرکاری اسکیموں سے واقفیت حاصل کرکے مستحقین کو مستفید کرسکتے ہیں۔صحافی اگر قلم کا سودا نہ کرے تو حکومت او ر عوام کے درمیان مسائل حل کرنے میں کلیدی رول ادا کرسکتا ہے۔تاجر ذخیرہ اندوزی،منافع خوری،اشیاء کی مصنوعی قلت،کم تولنے اور کم ناپنے سے خود کو باز رکھیں تو سماج پر بڑا احسان کرسکتے ہیں۔اپنی تجارت میں غریبوں کا شیئر ڈال کر مفلسی کے ازالہ میں معاون و مدد گار ہوسکتے ہیں، سماج کے باقی لوگ جو کچھ جانتے ہیں اگر دس بیس لوگوں تک وہ معلومات پہنچا دیں تو نمایا ں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔لیکن افسوس ہمارے تو ریٹائرڈ اور پینشن یافتہ افراد کے پاس بھی سماج کے لیے وقت نہیں ہے وہ بھی مرتے دم تک دو پیسے مزید کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔کاش ہم اپنے وجود کے بقا میں سماج کی خدمات کا ادارک کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرجاتے!
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں