کیا دہشت گردی کے خلاف مسلمانوں کا مؤقف واضح نہیں ہے ؟

مسئلہ یہ ہے کہ جس پیمانے پر یہ نام نہاد مسلم تنظیمیں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں کیا اس پیمانے پر انکی مخالفت اور بیخ کنی بھی کی جارہی ہے ؟شاید ایسا نہیں ہے ۔جس وقت دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی تھی اس وقت مسلمانوں کی طرف سے انکی مخالفت میں کوئی واضح آوا ز نہیں اٹھی ۔بعض مفتیان دین اور سیاسی رہنما جو ان تنظیموں سے کسی نا کسی طور پر وابستہ تھے یا ان تنظیموں کے زیر اثر کام کررہے تھے وہ انکی حمایت و تائید میں بیانات دیتے رہے اس طرح شدت پسندی کو فروغ دیا جاتا رہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف خود مسلمانوں میں دو گروہ سامنے آئے ۔وہ گروہ جو ان تنظیموں کے زیر اثر تھا یا انکے نظریات کی تائید میں بڑ چڑھ کر بول رہا تھا اس گروہ کو عالمی میڈیا نے دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اس طرح مسلمانوں کے خلاف دنیا کے ہر خطے میں نفرت کی زمین تیار کی گئی اور آگے چل کر اسی زمین میں دوسری مسلم مخالف تنظیموں نے اپنی فیکٹری میں تیار کردہ بیج بونے شروع کئے اور نفرت کی پوری فصل کھڑی کردی گئی ۔دوسرا گرو ہ جو ان تنظیموں کے نظریات اور عقائد کے خلاف کھڑا تھا عالمی میڈیا اس گروہ کو نظر انداز کرتا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے سامنے دہشت گردی کے مخالف چہرے نہیں آسکے ۔عالمی میڈیا کے اس تغافل او ربے توجہی کا خمیازہ آج تک انسانیت کو بھگتنا پڑ رہاہے کیونکہ آج بھی عالمی میڈیا اس گروہ سے چشم پوشی کرتاہے اور شاید آئندہ بھی کرتا رہے ۔مسلمانوں کی ہر بڑی یونیورسٹی اور ہر مسلمان عالم دین نے دہشت گردی کی کھل کر مخالفت کی ہے بلکہ قرآن واضح طورپر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی ذہنیتوں کے خلاف عالم انسانیت کو متوجہ کرتا رہا ہے ۔ظاہر ہے جو مسلمان قرآنی تعلیمات کو اچھی طرح سمجھتا ہے وہ دہشت گردی اور شدت پسند ذہنیتوں کا مخالف ہوگا ۔مسلمانوں کا ایک طبقہ جو شدت پسندی کا حامی ہے اسکا بہ ظاہر اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے انکی ڈیڑھ اینٹ کی اپنی الگ مسجد ہے اور دنیا میں دہشت گردی کو یہی نام نہاد مسلک فروغ دے رہا ہے جسکی بنیاد سامراج نے رکھی تھی اور آج بھی اسکی جڑوں کوو ہی پانی دے رہے ہیں ۔
آج تک جہاں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ان واقعات کے بعد میڈیا شور مچانا شروع کردیتاہے کہ مسلمان متحد ہوکر انکی مخالفت میں بیان بازی کیوں نہیں کرتے ،ایسی تنظیموں کے بائیکاٹ کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا ،انکے خلاف فتوے کیوں نہیں دیے جاتے اور مسلم قیادت ایسی تنظیموں کے خلاف اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیوں نہیں کرتی ؟در حقیقت یہ تمام الزامات عالمی میڈیا کے ایجاد کردہ ہیں اور ہمارا قومی میڈیا بھی ان الزامات کو فروغ دینے میں مصروف ہوچکاہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آیا اس وقت مسلمانوں کے مخالفانہ رویے ،احتجاجات اور مظاہرے ان تنظیموں کے اثرو رسوخ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ؟کیونکہ جس وقت میڈیا کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی مخالفت اور دہشت گردی کے خلاف انکے مؤقف کو دنیا کے سامنے پیش کرے اس وقت میڈیا کا مؤقف ہی مشکوک رہا اور وہ اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتا رہا ۔دوسرے یہ کہ میڈیا کا شور و غوغا آج مسلمانوں کے واضح مؤقف کو بھی مشتبہ بنا دیتاہے ۔ہندوستان میں ہمیشہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں نے دہشت گردوں اور دہشت پسندانہ واقعات کے خلاف آواز اٹھائی ہے مگر ہمارا قومی میڈیا ان احتجاجی جلوسوں سے بے توجہی برتتا رہا ہے ۔جن نیو ز چینلوں پر آج یہ بحث ہورہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مسلم رہنما اپنے مؤقف کا اظہار کیوں نہیں کرتے یہی نیوز چینل مسلمانوں کے دہشت گردی کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں ،جلوسوں اور کینڈل مارچ جیسے پروگرامز سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔ظاہر ہے قومی میڈیا اگر ایسے مظاہروں سے چشم پوشی کرتا ہے تو دوسرے مذہبوں کی عوام کے سامنے مسلمانوں کا مؤقف کیسے واضح ہوسکتاہے ۔میڈیا ان مظاہروں ،احتجاجی جلوسوں کو کوئی توجہ نہیں دیتا کیونکہ انکی ٹی آر پی کا مسئلہ ہوتاہے ۔نیوز چینل ٹی آر پی کی بنیاد پر ٹکے ہوتے ہیں ۔احتجاجوں اور مظاہروں کی تعمیری فکر کو پیش کرنے کے بجائے وہ ایسی چیزوں کو پیش کرتے ہیں جسکی بنیاد پر انکی ٹی آر پی تیزی کے ساتھ دوسرے چینلوں سے بازی لے جائے ۔پر امن جلوسوں اور مظاہروں کو چینل پر دکھانا گویا اپنی ٹی آر پی کو ختم کرنے کے مترادف سمجھا جاتاہے یا جو نیوز چینل ان پروگراموں کو دکھاتے بھی ہیں تو اتنا کم اسپیس دیا جاتاہے کہ ناظرین سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان پروگراموں اور احتجاجوں کا مقصد کیا تھا ۔
دہشت گردی کے خلاف مسلمانوں کے مؤقف کو نیوز چینلوں نے اتنا بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا کہ مسلمان مذہبی قیادتیں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں اور عالمی دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر اتر آئیں ۔ظاہر ہے پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف اس سے وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوچکے تھے مگر ان مظاہروں کا واضح مقصد میڈیا کے ذریعہ پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دورکرنا تھا ۔افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ ہندوستان میں شدت پسند ذہنیت کے حامل ہیں اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت میں مسلسل لکھتے رہتے ہیں ان کے خلاف نا حکومتیں کمر بستہ ہیں او ر نہ میڈیا سنجیدگی کے ساتھ انکے تخریبی نظریات کو عوام کے سامنے پیش کرتاہے ۔یہی مخرب ذہنیتیں نوجوان ذہنوں کو گمراہ کرتی ہیں اور جب نوجوان گمراہی کے راستے پر چلنا شروع کرتے ہیں تو پھر میڈیا شور مچانے لگتاہے مگر اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں پر توجہ نہیں کرتا۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جومسلم دھرم گرو یا سیاسی رہنما ان نیوز چینلوں پر ڈیبٹ میں شامل ہوتے ہیں وہ بھی میڈیا کی اس بے توجہی اور منصوبہ بند سازشوں پر نا تو انہیں ٹوکتے ہیں اور نا انکی مذمت کرتے ہیں بلکہ وہ جس راستے پر ہمیں ڈال دیتے ہیں ہم خاموشی کے ساتھ اسی راستے پر چلنا شروع کردیتے ہیں ۔جب گلی محلوں میں دھرم گرو پیدا ہونگے اور میڈیا دھرم گرو کے لفظ کی اہمیت کو سمجھے بغیر انہیں پروجیکٹ کرتا رہیگا مسلمانوں کے یہ مسائل برقرار رہیں گے ۔رہی مسلم سیاسی رہنماؤں کی بات تو انہیں مسلمانوں کے مسائل سے کوئی قلبی لگاؤ نہیں ہے وہ تو صرف پارٹی کے ترجمان کی حیثیت سے بیان دیتے ہیں اور ہر جگہ مسلمانوں کے مؤقف کی وضاحت کے بجائے پارٹی کے مؤقف کی وضاحت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آتے ہیں ۔
جب تک ہمارا قومی میڈیا عالمی میڈیا کے سیاسی نظریات کا پابند رہیگا اور انکے منصوبوں کے زیر اثریا عالمی میڈیا سے مرعوب ہوکر کام کریگا ہمارے قومی مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ مسلمانوں کے مؤقف کو سمجھنے کے لئے خود ساختہ مسلم دھر گروؤ ں اور سیاسی رہنماؤں کی بیان بازیوں سے ہٹ کر مسلمانوں کے بیچ جاکر انکی فکروں اور نظریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ان مذہبی رہنماؤں کے نظریات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جو دھرم گرو کا چولہ پہن کر میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے رہے ہیں 

«
»

اس گھر کو آگ لگ گئی……………….

ٹیپوسلطان بمقابلہ سنگھ پریوار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے