از : توقیر احمد عبد الفتاح ندوی
مسقط،عمان٢٥ فروری ٢٠٢١ بروز جمعرات دوپہر کو احمد آباد شہر کی مشہور ندی سابرمتی میں عائشہ عارف خان نے کودکر خودکشی کرلی، اس خبر کی تفصیل ٹائمس آف انڈیا نے ٢٨/ فروری/٢٠٢١، کو اور انڈین ایکسپریس نے ٢/مارچ/٢٠٢١ کو اپنے ویب پیج پر نشر کیا۔
اس اقدام سے پہلے موصوفہ نے کچھ تأثرات محفوظ کئے، جو بہت عام ہوئے، اور انہی جذباتی جملوں نے قلم و زبان کو آزمائش کے کٹہرے میں کھڑا کردیا، کوئی معاشرے کو مجرم کہہ رہا ہے تو کوئی گھریلو تربیت کا قصور بتا رہا ہے،
اور کچھ خیالات سخت لہجے میں خودکشی پر بھی ظاہر کئے گئے،
ہم بھی پورے طور پر اس واقعے کو خودکشی کے پس منظر میں ہی پیش کررہے ہیں۔
معاشرے کی کچھ خرابیاں معاشرے کا حصہ ہیں، خواہ وہ جہیز ہو، ناخواندگی ہو، بدامنی ہو، ظلم و ناانصافی ہو یا ہمارے سماج کے سینکڑوں ناسور ہوں، ان کے سدھار اور بدلاؤ کی فکر اور ان کے نام پر قربانی ہی ہمارے کردار کا موضوع ہے، اور ان حالات کا سامنا اور ان سے مقابلہ ہی ہماری زندگی کا میدانِ کار ہے، نہ کہ خود کشی، خودکشی کسی غم کا علاج ہے اور نہ کسی درد کی دوا، بلکہ شریعت و سماج کی نظر میں خطرناک ترین جرم ہے، اس موقع پر سب سے بڑی دینی و اخلاقی ہی نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر بھی دانشوروں اور سماج کے مسیحاؤوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ خودکشی کے خلاف برملا مذمت اور ناپسندیدگی کا اظہار کریں، نہ یہ کہ اس کے اسباب و وجوہات کو اس طور پر موضوع بنائیں کہ یہ گھناؤنا جرم بے گناہی اور مجبوری کا قدم سمجھا جانے لگے، اس لئے کہ ہمارا یہ انداز خودکشی کے گناہ کو ہلکا بنادے گا، جو ہماری عاقبت کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
ذیل میں آپﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ میں آپ قصداً شریک نہیں ہوتے تھے:
عن جابر بن سمرة قال: أُتِي النبي صلى الله عليه وسلم برجل قتل نفسه بمشاقص فلم يصل عليه. [مسلم/الجنائز]
ایک ایسے شخص کا جنازہ آپ کی خدمت میں لایا گیا جس نے خود کو برچھا مار کر ہلاک کرلیا تھا، آپﷺ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا۔
اس موضوع پر متعدد احادیث و واقعات کتب سیرت میں موجود ہیں، مگر طوالت نہ ہو، اس لئے صرف اس ایک حدیث کی روشنی میں بات کو سمجھتے ہیں۔
آپﷺ کا امت سے تعلق اور ان کی نجات کی ہمہ وقت فکر و کوشش پر قرآن کی ہر سورت اور حدیث کا ہر باب شاہد ہے:
”لعلک باخع نفسک ألا یکونوا مؤمنین“ [الشعراء /٢]
ان کے ایمان نہ لانے کے غم میں کیا خود کو گھٹ گھٹ کر ہلاک کرلیں گے۔
” رسول من أنفسکم، عزیز عليه ماعنتم حريص عليكم بالمؤمنين رؤوف رحيم“
اس آیت میں بڑی وضاحت سے اعلان کیا جارہا ہے کہ آپﷺ امت کے سلسلے میں کس شدت کا فکر و تعلق رکھتے ہیں، جو نسبی رشتوں سے بھی متوقع نہیں:
٠٠ عزیز علیہ ماعنتم
تمہاری کسی بھی قسم کی پریشانیاں اسے برداشت نہیں۔
٠٠ حریص علیکم
ہمہ وقت تمہاری ہدایت ونجات کے لئے فکرمند۔
٠٠ بالمؤمنين رؤوف رحيم
اہل ایمان کے حق میں حدردجہ نرم دل اور رحم پسند۔
[الطبری/ابن کثیر/القرطبی]
نبی کی ان کیفیات کا اعلان قرآن خود کررہا ہے، بلکہ اس کی رحمدلی کا عالم تو یہ ہے کہ وہ رئيس المنافقين ابن ابي کے متعلق کہتا ہے :
”و سأزيده على السبعين“
[البخاری/تفسیر سورۃ البراءۃ]
اس کی مغفرت کے لئے میں اپنے رب کے حضور ستر سے زائد مرتبہ بھی گزارش کروں گا، یہی نبی جب خود کشی کرنے والے کا جنازہ آتا ہے تو جنازے سے معذرت کرلیتا ہے، نفاق کفر ہے، اس کا انجام معلوم ہے،
اس کے باوجود دربار رسالت میں جنازے کی پیشکش قبول ہورہی ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ اس گناہ پر نبی کے ذریعے کس سختی سے ناراضگی جتائی جارہی ہے، اور ہم خودکشی کرنے والے کے سلسلے میں الوداع کے الفاظ اور بہن بہن کہہ کر حوصلہ افزائی کا اسلوب پیش کررہے ہیں۔
————————–
خودکشی کیوں کی جاتی ہے؟
بعض ساتھیوں کے ذہن میں یہ خیال ابھرے گا کہ کوئی شوق سے تو خود کشی نہیں کرتا، کوئی خطرناک مجبوری ہی اس بھیانک کھائی میں دھکیلتی ہے؟
تو یاد رکھنے کی بات ہے کہ اللہ نے جہاں مسائل و مشاکل کی رہگزر پر ہمیں بٹھایا ہے، وہیں نشانِ منزل کے لئے نبی کی سیرت و تعلیمات بھی ہر موڑ پر نصب کردی ہیں۔
نبی نے جو غم دیکھے ہیں وہ غموں کی انتہا ہے، جن مشاکل و مسائل کے طوفانوں سے وہ دوچار ہوئے، وہ بڑے سے بڑے جانباز کو اڑا لے جائے۔
أم المؤمنين حضرت عائشہ پر جو صدمے کی بجلی گری وہ تصور سے باہر کی بات ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ کی آبرو تھیں۔
صحابہ پر ایسے مشکل ترین لمحات گذرے کہ قرآن خود اس کیفیت کو ذکر کرتا ہے، "زاغت الأبصار، وبلغت القلوب الحناجر، وزلزلوا زلزالا شدیدا" آنکھیں چندھیا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور بہت سخت جنجھوڑ دیئے گئے، بھوک کا معاملہ ہو، جان کی سلامتی ہو، نقل و حركت کے مسائل ہوں، خاندانی الجھنیں ہوں، قبائلی بندشیں ہوں، زندگی کے کسی گوشے کی بات ہو،
ہر موڑ پر اس کا مقابلہ کیا، اس کا حل ڈھونڈا، کامیاب نہ ہوئے تو صبر کیا۔
————————-
خودکشی کے تعلق سے ایک اہم نکتہ
یہ جرم مجرم کے خلاف خود ایک ثبوت ہے، موت وحیات کے فلسفے میں ہر جاندار مخلوق سب سے زیادہ اپنی جان کی حفاظت کے تعلق سے ہوشیار اور حساس رہتی ہے، اور ہر جاندار کے لئے سب سے مشکل کام ہوتا ہے اپنی جان کا گنوانا، یعنی ہر مخلوق اپنی جان کو بچانے کے لئے ہر جوکھم اٹھاتی ہے، جب کوئی بندہ خود کشی کرتا ہے تو اپنی اس حرکت سے وہ ثابت کر رہا ہے کہ جب وہ خودکشی کے جوکھم کو برداشت کرسکتا ہے، تو جس پریشانی سے بے قابو ہو کر اس بلا کو گلے لگا رہا ہے، اس پریشانی کا برداشت کرنا اس کے لئے کہیں زیادہ آسان ہے۔
—————————
خود کشی نہیں بلکہ:
اپنی کوشش کی حد تک ہر ایک مشکل اور مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے:
– سماجی تعاون، جو ہر ایک کا دوسرے پر حق ہے۔
– مشورہ، مشورے میں خیر ہے۔
– اپنی مشکلات کا ہمدردوں سے تذکرہ، کبھی اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
– اچھی صحبت، ہزار برکتوں کا خزانہ ہے۔
– صبر و دعائیں جو زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہیں، پریشانیوں کا تریاق ہیں، ہر مصیبت اور دکھ صبر و دعا کی دہلیز پر دم توڑ دیتے ہیں، مگر صورت حال برعکس ہے، انسان خودکشی کی ہمت کرتا ہے، مگر صبر کا مضبوط سہارا نہیں لیتا، اور دعاؤں کی طرف نہیں لپکتا۔
قابلِ توجہ:
عائشہ نے اپنی خودکشی کے جرم کو اور خطرناک بنادیا، اس لئے کہ اس نے ہنستے ہوئے اپنے ہوش و حواس اور بیان کے ساتھ اس جرم کی ہمت کی، معاف کرنا اللّٰہ کا کام ہے، وہ غفور رحيم ہے، مگر جیتے جی اس رہتی دنیا میں جرم کی شدت کے مطابق جرم کے تئیں ہمارا لہجہ بھی شدید ہونا چاہئے، تاکہ آئندہ کوئی اس جرم کے قریب بھی نہ پھٹکے، کیونکہ حالات تو سخت سے سخت تر آسکتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو ہر قسم کے مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھے، اور ہر خوشی و غم میں ہماری خاص رہنمائی فرمائے۔ آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں