عبداللہ غازیؔ ندوی
(ایڈیٹر ماہ نامہ ”پھول“ بھٹکل)
ادارہ ادب اطفال بھٹکل کا اہم ترین شعبہ”کہکشاں“ اپنے عظیم مقاصد کو پیش نظر رکھ کر اور لایخافون فی اللہ لومة لائم کے ایمانی اصول کو مدنظر رکھ کر اپنی منزل کی طرف گامزن ہے اور باد مخالف کے تھپیڑوں سے نبرد آزما بھی۔
ان دنوں پڑوسی ملک سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی منقبت میں ایک نظم گھر گھر عام ہوئی، آواز اور انداز کی سحرانگیزی تھی کہ بچے بچے کی زبان ”یا علی“ کی دہائی دینے لگی اور نبی پر سلام و درود کے بجائے حضرت علیؓ کے ورد سے تر ہوئی۔ حضرت علی کا ذکر تو بہت مبارک ہے مگر ان کی شان میں اتنا غلو کہ خدائی صفات کا حامل انھیں سمجھا جانے لگے، یہ ایک نامسعود عمل ہے۔ مگر کیا کیا جائے! نغمات میں جادو ہوتا ہے، جب نغمات کے سہارے شرک اور بدعت رواج پانے لگے، نبی اور صحابی بلکہ عبد اور معبود کا فرق مٹایا جائے اور ہائے افسوس یہ نغمے در در اور گھر گھر پہنچنے لگیں۔
بچے تو بچے اچھے اچھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے جادو سے مدہوش ہونے لگیں اور زبان سے شرکیہ کلمات دہرائے جانے لگیں۔ چناں چہ جانم فدائے حیدری کی اس منقبت کو آپ سنیے تو یہی بات آپ کو نظر آئے گی۔
جب “کہکشاں” کے غیور نوجوانوں نے شرک اور بدعقیدگی سے پُر اس منقبت کو سنا تو تڑپ اٹھے، اپنی حمیت ایمانی کی چنگاریوں کو بھڑکایا اور پھر ملت کے لیے ایسی سوغات پیش کی جس میں معنی خیزی اور جاذبیت کے ساتھ نبی سے عقیدت اور وارفتگی کے جذبات حرف حرف میں پوشیدہ ہیں۔
آئیے! دونوں نظموں کے اہم ترین پہلوٶں کا جائزہ لیں، دونوں کے محاسن اور مفاہیم پر مختصر سی روشنی ڈالیں اور مولانا سمعان خلیفہ ندوی کے قلم گوہر رقم سے نکلے لفظوں کی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کریں۔
منقبت کے شروع میں شاعر نے چار مصرعے لکھے ہیں، جن کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ نظم میں کس قدر غلو سے کام لیا گیا ہے۔
دہائی دے گا کوئی چیخ چیخ کر اک دن
خلاف دین نہیں ہے علی علی کہنا
وہ اپنی ماں کی شکایت کرے گا محشر میں
کہ اس نے کیوں نہ سکھایا علی علی کہنا
دوسرے اور چوتھے مصرعے پر غور کیجیے اور مولانا سمعان صاحب کے اشہب قلم کی روانی پر سر دُھنیے:
لگائے جائیں گے اُس دن صدائے نفسی سب
میرے نبی ہی کی ہے شان امتی کہنا
بروز حشر کہ جب جان پر بنی ہوگی
محبتوں کا ہے اعلان امتی کہنا
آگے بڑھیے اور حضرت علیؓ کی مداحی میں غلو ملاحظہ کیجیے:
دشت میں ابر کا پہلا قطرہ علی
میرا مرشد بھی آقا بھی مولیٰ علی
ہر سو صدائے حیدری یا علی علی علی
جانم فدائے حیدری علی علی علی علی
یہ ہمارے ایمان کا جز ہے کہ ہمارے مرشد، ہمارے آقا، ہمارے اسوہ، ہمارے قائد اور ہمارے رہبر نبی آخرالزماں اور محبوب کبریا ہیں۔
اب گلستانِ سمعان کی گل افشانی دیکھتے ہیں اور دامن کو عقیدت کے گلوں سے بھرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اس کو کس ناز و انداز سے کہا ہے:
حکم ربی سے ہے میرا ملجا نبی
میرا مرشد بھی آقا بھی میرا نبی،نبی میرا نبی
جانم تو چیزے دیگری،اے نبی، جانم فدائے دلبری،اے نبی مرے نبی
پہلے مصرعے پر غور کیجیے، شاعرِ خوش نوا نے صحیح عقیدے کی مختصر سے الفاظ میں بنیادی بات بتائی ہے کہ
خاتم الانبیا اور امام الاتقیا بھی اسی وقت ہمارا ملجا اور حشر میں عاصیوں کا سہارا ہیں جب کہ مالک الملک کا حکم ہو۔
یہ بات بھی اہل سنت والجماعت کے یہاں مسلّم ہے کہ ہر صحابی کا مقام و مرتبہ اسلام اور رسول اسلام کی نسبت کے ساتھ ہی وابستہ ہے، اور اسی پر صحابہ کو بھی ناز تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہ اگر صحبت نبوی کے پروردہ نہ ہوتے اور پیغمبر اسلام سے آپ کی نسبت با برکت نہ ہوتی تو آپ اس رتبۂ عالی کے مستحق نہ ہوتے جو آپ کو نصیب ہوا تھا۔دیکھیے اعتدال کی اس اعلی مثال کو، کس طرح ہمارے شاعر نے برتا ہے، نیز اہل بیت سے محبت کی ترغیب دی اور اس میں بھی اہل بیت یعنی آل رسول کے ساتھ دیگر اصحاب رسول کو شامل کیا، اور ان سب کی سیرت کو مینارۂ نور بتایا، نیز ان کی محبت کو صرف زبانی جمع خرچی کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے ان کے نقش قدم کی پیروی کی دعوت دی کہ یہی ان کی خدمت میں سچا خراج عقیدت و محبت ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں کے جو کچھ مختلف رنگ تھے ان سب کو کس طرح امت مرحومہ کے زخموں کا مرہم بتایا ہے، ان سب باتوں کو نعت کے اس بند میں ملاحظہ کریں :
اہلِ بیتِ نبی، آل واصحاب بھی، شمعِ بزمِ ہدیٰ، معرفت کے سراج
کرکے ان کی ثنا، چوم کر نقشِ پا، دوں عقیدت کا اُن کو میں سچا خراج
حق کی تلوار ہیں، غار کے یار ہیں، یارِ دل دار ہیں، میرے غم کا علاج، اے نبی، مرے نبی
تم سے ہے شانِ حیدری
جانم فدائے دلبری، اے نبی، مرے نبی
منقبت کے نادان مداح کی نادانی کا آخری بند میں پھر سے حال دیکھیے اور ایسی عقیدت سے سو بار پناہ مانگیے جس میں توحید کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور شرک کی بو آئے، کہیں حشر میں رب کریم کی ناراضی نہ مول لینی پڑے۔:
صبح سے شام تک ہر پہر ہر گھڑی
لب پہ اپنے رہے نعرۂ حیدری
یعنی خیبر شکن یعنی مشکل کشا
بعدیزداں کے ہیں دوسرا آسرا
العیاذ باللہ! ہمارے لب ذکر خدا اور ذکر محبوب خدا سے تر نہ ہوں تو پھر خاک ہی مقدر رہے۔ بہت سے لوگوں نے بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر سے بھی احتراز کیا ہے۔ یہاں تو حضرت علیؓ کو بعدیزداں کے ہیں دوسرا آسرا کہا گیا ہے۔ پھر آگے دیکھیے
غم کے ماروں کا ہے تو سہارا علی
مدح علیؓ میں نادان شاعر نے شعری محاسن اور قافیوں کی بھی دھجیاں اڑائی ہیں۔
جس کو اہل کمال اور شعراء بخوبی جان سکتے ہیں، مگر ہمارے شاعر نے کس طرح ان اشعار کا قبلہ درست کیا کہ غم کے مارے ہوؤں کو تو پہلے اپنے سمت سفر کو درست کرکے دنیا کی گم راہیوں سے دامن بچانے اور نبی کی ذات اور ان کی تعلیمات پر مر مٹنے کی ضرورت ہے کہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور تمام جاں نثاروں کی زندگی کا ماحصل بھی یہی، اور خود نبی کا اسوہ ہے ہی ایسا حسین کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر حسن کی تمام دنیائیں ماند اور رعنائی ودل کشی کے تمام رنگ پھیکے۔
ملت اسلامیہ کے ہرفرد سے ہماری استدعا ہے کہ کہکشاں کی اس پیش کش کو اس طرح عام کریں کہ زبانوں پر ”علی علی“ کے بجائے توحید کے زمزمے جاری ہوں، دل میں محبت نبوی کی وہ آگ فروزاں ہو جو نبی پاک کی سچی محبت اور ان کے نام و پیام پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا کرے۔
Jaanam Fida-e- Dil Bari | | Zufaif Shingeri & Abdullah Itban | | KEHKASHAAN
جواب دیں