یہ تو حقیقت ہے کہ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہے اور ڈاکٹر، اسپتال، ادویات اور چیکپ کی تمام مشینری یہ ذرائع ہیں ، اسباب ہیں ، سہولیات ہیں اور یہ ساری ٹکنالوجی و مشینری کے ایجاد کرنے والوں کو دماغ اللہ نے عطا فرمایا ہے تاکہ قوم کی خدمت کرسکے مریض بھی اللہ کا بندہ ہے اور ڈاکٹر بھی اللہ کا بندہ ہے ایک وہ زمانہ تھا کہ جنگ لڑتے ہوئے بدن کے کسی حصے میں تیر پیوست ہوجاتا تھا تو آگ میں چاقو گرم کرکے اسی سے تیر باہر نکال دیا جاتا تھا مریض کو راحت و آرام مل جاتا تھا، ایک وہ زمانہ تھا کہ حکما میں ماہر نباض ہوا کرتے تھے اور نبض پکڑ کر سارا مرض بتلایا کرتے تھے اور جڑی بوٹی کی شکل میں دوائیں دیا کرتے تھے جس سے بیماری جڑ سے ختم ہو جایا کرتی تھی نباض آج بھی ہیں لیکن کل کے نباضی سے مرض معلوم کیا جاتا تھا اور آج کی نباضی سی مالی حالت معلوم کی جاتی ہے کل تک بڑے بڑے اسپتال نہیں تھے، کیپسول ، انجکشن، ایکسرے مشین نہیں تھی، سونو گرافی، الٹراساؤنڈ، ایم آر آئی وغیرہ کا سسٹم نہیں تھا لیکن قوم کی خدمت کا جذبہ تھا ،، کامیاب علاج ہوتا تھا اور آج جدید سے جدید تر آلات و دیگر ذرائع ہونے کے باوجود بھی کسی انسان کی بیماری ختم نہیں ہوتی آخر اس کی وجہ کیا ہے وجہ یہ ہے کہ نیت بدل گئی آج ایک انسان اپنے بیٹے کو تعلیم دلاتا ہے اور ڈاکٹری پڑھاتا ہے تو خود اپنے بیٹے کی موجودگی میں فخر کے ساتھ لوگوں سے کہتا ہے کہ میرا بیٹا بہت بڑا ڈاکٹر بنے گا خوب دولت کمائے گا ایک بار بھی باپ کی زبان سے یہ کلمات نہیں نکلتے کہ میرا بیٹا بہت بڑا ڈاکٹر بنے گا اور قوم کی خدمت کرے گا ابتدائی مراحل میں بیٹے کو باپ کے ذریعے حصول تعلیم کا مقصد دولت کمانا معلوم ہوا تو ظاہر بات ہے کہ اس نظرئیے و خیالات کا اثر بیٹے پر پڑے گا اور آج اسی بدنیتی کی دین ہے کہ معاملہ بد اخلاقی تک پہنچ گیا مریضوں کو آئی سی یو میں مرنے کے بعد بھی کئی کئی دنوں تک رکھ کر مریض کے گھروالوں سے خون پسینے کی کمائی لوٹی جاتی ہے گنے چنے ایسے ڈاکٹر ملیں گے جن کے سینوں میں مریضوں کا درد ہوتا ہے ہمدردی ہوتی ہے ورنہ اکثریت میں ڈاکٹر ڈاکو کا کردار ادا کرتے ہیں راقم الحروف نے ایک ویڈیو دیکھی ایک بہت بڑے نامی گرامی ڈاکٹر جن کی فیس بہت زیادہ ہے آپریشن میں بڑے ماہر ہیں ضعیف ہوچکے ہیں تقریباً 70 سال عمر ہوچکی ہے اپنے اسپتال میں جونئیر ڈاکٹر بھی رکھے ہوئے ہیں نرس بھی ہیں اور اتفاق ایسا کہ اسپتال کے عملہ میں کچھ افراد غریب پرور بھی ہیں اور بڑے ڈاکٹر بار بار کہتے ہیں کہ یہ اسپتال ہے کمائی کی جگہ ہے کوئی فلاحی ادارہ نہیں ہے ڈاکٹری پڑھنے میں بڑی دولت لگتی ہے اور اب ہم ڈاکٹر ہوگئے تو اب پیسہ کمانا ہمارا مقصد ہے کسی چہار دیواری کے اندر کوئی بیمار ہو گیا تو اس چہار دیواری کے دیگر افراد کی ذمہ داری ہے کہ علاج کے لئے اسے اسپتال لے جائیں اب اتفاقاً ہمارے اسپتال میں آگیا تو علاج کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس سے کہیں زیادہ علاج کا پیسہ لینے کی ذمہ داری ہے مریض اچھا ہو کہ نہ ہو ہم اس کے ذمہ دار نہیں آج کے بعد جو کوئی بھی بھی علاج کے لئے آئے تو پہلے پیسہ جمع کراؤ مریض چل پھر نہیں سکتا حالت نازک ہے تو جو ساتھ میں آیا ہے اس سے پہلے پیسہ جمع کراؤ اس کے بعد مریض کو اسپتال میں داخل ہونے دو ایک دن صبح سویرے ڈاکٹر اپنے اسپتال پہنچتے ہیں اپنے اسپیشل روم میں بیٹھے ہوئے ہیں باہر سے چند لوگ ایک چارپائی پر مریض لے کر آتے ہیں ڈاکٹر کی نظر پڑتے ہی اسے محسوس ہوا کہ کوئی سڑک حادثہ ہوا ہے اور ساتھ میں آنے والے اس کے گھر کے نہیں ہیں بس راہ چلنے والے اٹھا لائے ہیں اب ڈاکٹر نظر ملانے کے لئے تیار نہیں، بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں جبکہ ڈاکٹر کا معاون عملہ سفارش کررہاہے کہ سر اس کے جسم سے خون بہت نکل چکا ہے اس کی جان بچانا ضروری ہے اتنا سننا تھا کہ ڈاکٹر بول پڑا جب تک اس کے ذمہ داران آئیں گے نہیں، پیسہ جمع کریں گے نہیں تب تک علاج نہیں ہوسکتا سینئر ڈاکٹر کا عملہ سفارش کرتا رہا لیکن اس سنگ دل ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے اپنے دوست سے ملنے جانا ہے اور میں جارہا ہوں اسے کسی لوکل اسپتال میں بھیج دو یاکہ اس کے گھر والے دو لاکھ روپے لے کر آجائیں تو فوراً مجھے فون کرنا میں آجاؤں گا معاون عملہ نے دیکھا کہ اسے لوگ سڑک پر سے اٹھا کر لائے ہیں اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو آپس میں رائے مشورہ کرکے علاج اور خرچ کا ذمہ خود ہی اٹھا لیا پھر ڈاکٹر کے پاس فون کیا ڈاکٹر نے کہاکہ میں ابھی آرہا ہوں پورا عملہ اس مریض کے آپریشن کی تیاری میں لگ گیا اسے تھیٹر روم میں لے جایا گیا ابھی ڈاکٹر کا انتظار ہو ہی رہا تھا کہ باہر سے کسی نے کہا کہ ڈاکٹر آگئے ڈاکٹر آگئے ،، آپریشن روم سے عملہ نکل کر آتا ہے اور کہتاہے کہ چلئے ڈاکٹر صاحب
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں