خانہئ کعبہ کی عظمت اور جلالت شان تورب کائنات کی تجلیات کا کرشمہ ہے اور اس کی طرف دلوں کا کھنچاؤ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ و علی نبینا الصلاۃ و السلام کی اس دعا کی برکت ہے ”واجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم“ نکتہ دانوں نے یہ نکتہ آفرینی بھی کی ہے کہ اگر خلیل اللہ علیہ السلام نے ”من الناس“ کے بجائے فقط ”افئدۃ الناس“ کہا ہوتا تو مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کے دل بھی اس بیت عتیق کی طرف جھکاؤ اور کھنچاؤ کو محسوس کرتے اور شاید وہاں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر اور ناقابل تحمل ازدحام کی وجہ سے لوگوں کے لیے وہاں قدم رکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ۲۲/ فروری ۳۲۰۲ء اور شعبان المعظم کی پہلی تاریخ میں بین الاقوامی فقہ اکیڈمی کے علمی جلسوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک یہ مژدہئ جانفزا کانوں میں گونجا کہ بابِ کعبہ کے کھولنے اور فقہی کانفرنس میں شریک مہمانوں کی کعبہ کی روشنی سے فیض یاب ہونے یعنی خانہئ کعبہ کے اندر جا کر سنت سرور کونین کی بجا آوری کا موقع فراہم ہو گیا ہے، اور کعبہ کھولنے اور فقہائے امت کی تکریم کرنے کا شاہی فرمان جاری ہو چکا ہے، اس خوش خبری کے سنتے ہی ہر کوئی سرخوشی میں مست ہو گیا اور اپنی خوش بختی پر ناز کرنے لگا اور امام و خطیب حرم شیخ صالح بن عبد اللہ بن حمید کی جو بین الاقوامی فقہ اکیڈمی کے صدر بھی ہیں کی ترجمانی اور حکیمانہ نمائندگی پر تحسین و آفرین کے کلمات ادا کرنے لگا۔ چنانچہ وہ ساعت سعید دو گھنٹوں میں آگئی اور ہم سب شرکائے کانفرنس سات بڑی خصوصی بسوں میں سوار ہو کر خانہئ کعبہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ شاہی محل ”قصر صفا“ کے شاہی مہمان خانے میں بسیں رکیں، ہم نے پھر وضو کی وہیں تجدید کی اور حرم میں خصوصی فوجی دستہ کی قطاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے خانہئ کعبہ کی سیڑھیوں تک پہنچ گئے۔ خانہئ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت کا تصور جان افزا وہی اللہ کا پاک کا اور پہلا گھر جس کی طرف رخ کرکے بچپن سے نماز پڑھتے آئے ہیں، اس کے دروازہ سے گزر کر اندرونی حصہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز پر دو گانہ ادا کرنے اور کعبہ کے اندرونی فرش پر سر بسجود ہونے کا خیال ایمان افروز و روح افزا، رب کریم کی عنایتوں کی بھی کیا کیا کرشمہ سازیاں ہیں کہ ایک ذرہئ بے مقدار کو آفتاب کی بلندی اور تابناکی عطا کی جا رہی ہے، قافلہ بھی علماء اور فقہاء کا ہے، ہمارے مشفق و مربی اور عصر حاضر کے عظیم فقیہ و عالم حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب بھی اس قافلے میں شریک اور تواضع و انکساری کی مثال ہیں۔ سعودی عرب، کویت، امارات، اردن، مراکش، مصر، تیونس، الجزائر، اور لیبیا ہی نہیں افریقی ممالک: سوڈان، نائیجریا، بنین، چاڈ تک کے علماء اور برونائی، ملیشیا، انڈونیشیا تک کے نمائندے ہمارے قافلے کی رونق ہیں۔ کئی دن سے صبح و شام تک ایک سے ایک نئے اور پیچیدہ مسائل زیر بحث تھے، سعودی عرب سے بھی میرے کرم فرما اصولی عالم ڈاکٹر عیاض بن نامی السلمی، ڈاکٹر احمد الصالح، ڈاکٹر فہد الجہنی، حمزہ حسین الفعر، ڈاکٹر نذر قحف اور ڈاکٹر عجیل جاسم النشمی، ان کے صاحب زادے ڈاکٹر یاسر النشمی، اردن کے نامور فقیہ و مؤلف ڈاکٹر عثمان شبیر اور مغرب کے معمر عالم ڈاکٹر حمداتی شبیہنا ماء العینین، ڈاکٹر جبر الالفی، ڈاکٹر النجیمی جن سے ہر کانفرنس میں برسوں سے آمنا سامنا رہا ہے، ڈاکٹر عیاض بن نامی السلمی وہ اصولی بزرگ ہیں جن کے ساتھ مجھے چار سال تک جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے ”مرکز التمیز البحثی فی فقہ القضایا المعاصرۃ“ کی مجلس استشاری کے رکن کی حیثیت سے کام کرنے اور پروگراموں، سیمیناروں میں شرکت کرنے کا موقع رہا، انہوں نے اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے تعاون سے دہلی میں دو سیمینار بھی کیے جو میری تجویز اور نقشہ کے مطابق بے حد مفید رہا اور قضاء و افتاء اور تخصص کے طلبہ نے بڑی دلچسپی سے ان پروگراموں میں حصہ لیا۔ ہاں ذکر تو خانہئ کعبہ کی اندرونی رونق اور بہار کا تھا، خوشی بھی بہت، سرخوشی کی کیفیت اور اس نوید جاں فزا سے سر و بال دوش ہے اس کا منظر۔ لیکن فیض تو ہمیشہ بقدر فطری استعداد ہی حاصل ہوتا ہے، کسی پر خاص نظر عنایت ہو جائے تو اس کا معاملہ الگ ہے، ہم جیسے لوگ تو خضر کی رہبری سے بھی صحیح فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ تہی دستانِ قسمت را چہ سود از رہبر کامل کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را اس کے باوجود ہمارے رہبر کامل نے تلقین یہی کی ہے کہ راہِ طلب میں قدم رکھنے کے بعد منزل کی طلب کیسی، اس راہ کا کمال تھک کر چور ہو جانے میں ہے وہ اصغر گونڈوی کے بقول: سارا حصول عشق کی ناکامیوں میں ہے جو عمر رائیگاں ہے وہی رائیگاں نہیں جی ہاں خانہ کعبہ میں قدم ہی نہیں سارا وجود داخل ہوا؟ آپ پوچھیں گے کیا دیکھا؟ کیا پایا تو جواب یہی ہو گا کہ جلوہ بقدر تابِ نظر دیکھتے رہے کیا دیکھتے ہم ان کو مگر دیکھتے رہے خانہئ کعبہ میں حاضری اور قدم ہی نہیں سر کے بل حاضری کے بعد کیا کیا جائے؟ کیا کہا جائے؟داخلہ سے پہلے اور داخلہ کے شوق کے زمانے میں بہت سی تمنائیں، دعائیں اور امنگیں ہوتی ہیں؛ لیکن وہاں پہنچ جانے کے بعد نظر اس طرح خیرہ ہو جاتی اور ذہن اس طرح مدہوش ہو جاتا ہے کہ وہی منظر ہوتا ہے جو کسی عشق ظاہری میں مبتلا نے اپنے بارے میں کہا ہے: کہتے ہیں کہ یوں کہتے جو وہ آتا کہنے کی یہ باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا دو رکعتیں پڑھیں، ہر طرف قبلہ ہی ہے، پھر دو رکعتیں پڑھیں، دعائیں بھی زبان پر آئیں، سجدے بھی ہوئے لیکن پھر وہی چشم زدن میں صحبت یار آخر شد۔ زمزم کی ایک بوتل حفاظتی دستوں کی طرف سے ملی، باہر نکل کر کئی سالوں کے بعد پہلی بار حجر اسود کو تنہا بغیر کسی مزاحمت کے اور بھرپور بوسہ دیا اور اسے قیامت کے دن کے لیے گواہ بنا کر طواف میں مشغول ہو گئے۔ بڑے اطمینان اور آرام کا طواف چاروں طرف سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر محافظ دستوں نے بنا رکھی تہی، درمیان کا علاقہ ہم لوگوں کے لیے خالی تھا، تھوڑی ہی دیر میں طواف کے سات شوط پورے ہو گئے۔ حجر اسود سے قریب مقامِ ابراہیم سے تھوڑی سی مسافت پر طواف کے بعد دو رکعت پڑھیں، دعائیں کیا کیں؟ کس کس کے لیے کیں؟ کتنی دیر تک کیں؟ اس کا اب کسے ہوش؟ علیم و خبیر ذات ان دعاؤں کو قبول کرے اور ہماری اور رفقاء و احباب سبھی کی جائز مرادیں پوری کرے۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔ پھر اسی راہ سے یعنی ”قصر صفا“ نامی شاہی محل کے مہمان خانے سے واپسی ہوئی فصل گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد اللہ تعالیٰ بار بار یہ موقع لائے۔آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں