مالک کی غیر موجودگی میں بھی نہایت لگن اورجاں فشانی سے کام کیاجائے
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
انسان ایک سماجی جان دار ہے۔سماج اور معاشرے میں رہتے ہوئے ہماری بہت سی حیثیتیں ہوتی ہیں۔ہر حیثیت میں ہمارے کچھ حقوق او ر فرائض ہیں۔مثال کے طور پر ایک شخص،کہیں باپ ہے،کہیں بیٹا ہے،کسی کا شوہر ہے،کسی کمپنی کا مالک یا منیجر ہے۔سماج میں رہتے ہوئے باہم ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ اس کی درج ذیل شکلیں ہوسکتی ہیں۔
(۱)دوسروں کی ضرورت بلا معاوضہ پوری کرنا۔ اسے خدمتِ خلق کہا جاتا ہے۔ یعنی کوئی اجرت لئے بغیر انسانوں کے کام آنا۔
(۲) ماہانہ یا سالانہ تنخواہ (نوکری) طے کرلینا اور متعین اوقات میں کسی کے کام کو انجام دینا۔ اسے ملازمت یا نوکری کہتے ہیں۔
(۳) روزانہ متعین وقت کے اندرمتعین کام کرنا اور روزانہ اجرت حاصل کرلینا۔ اسے مزدوری کہتے ہیں۔
(۴) بادشاہ، نواب، صوبہ دار،قبیلہ یا بستی کے سردار عام لوگوں سے بلااجرت کام لیتے تھے اور غریب لوگ ان کے دباؤ میں بلامعاوضہ کام کرتے تھے۔ اسے بیگاری کہا جاتا تھا۔ ملوکیت اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمہ پر ہمارے ملک سے یہ ظالمانہ صورت بھی ختم ہوگئی۔البتہ ابھی بہت سے لوگ اپنے جیسے انسانوں سے غلاموں جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔جسے اسلام میں گناہ قرار دیا گیا ہے۔
(۵) اسلام سے پہلے ایک شکل یہ بھی تھی کہ لوگ انسانوں کو اپنی خدمت کے لیے خرید لیتے تھے اور ان سے گھر کے تمام کام لیے جاتے تھے۔ انہیں زندگی بھر اپنے مالک کے کہنے پر ہر کام کرنا ہوتا تھا۔انہیں غلام کہاجاتا تھا۔اسلام آیا تو اس نے غلاموں کو آزاد ی عطا کی۔انسانی غلامی ختم کرنے کے لیے پوری مہم چلائی۔غلاموں کو آزاد کرنے پر بڑے اجر کی بشارت سنائی۔ اسی طرح مسلمانوں نے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔ بعض گناہوں کا کفارہ اسلام نے یہ قرار دیا کہ غلام کو آزاد کیا جائے۔
غلاموں کی آزادی کے لیے اسلام نے مکاتبت کا اصول مقرر کیا۔اس کے تحت غلاموں اور مالکوں کے درمیان ایک اگریمنٹ ہوتا ہے مالک کہتا ہے کہ مجھے اتنی رقم دے دو میں تمہیں آزاد کردوں گا یا غلام کہتا ہے کہ میں اتنی رقم آپ کو دوں گا۔آپ مجھے آزاد کردیں۔بہر حال پیش کش کسی جانب سے بھی ہو اگر معاہدہ طے پاجاتا ہے تو پھر غلام آزاد ہوجاتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:۔
”اور تمہارے غلام اگر تم سے مکاتبت کی درخواست کریں تو اسے قبول کرلو،اور اللہ نے جو مال تمہیں دیا ہے اس میں سے اسے دو۔“(النور33)
اسلام نے زکاۃ کے مصارف میں ایک مد یہ بھی رکھی کہ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرایا جائے۔
”یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو،نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں“''(التوبہ:60)
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
”اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔“(البقرہ:177)
مذکورہ بالا پانچوں شکلوں میں سے اس وقت بیشتر ممالک میں ملازمت اور نوکری کی صورت رائج ہے جو دینی، اخلاقی اورسماجی اعتبار سے جائز اور درست ہے۔کبھی کبھی کوئی فرد مالک نہ ہوکر کمپنی یا ٹرسٹ مالک ہوتا ہے۔ اس میں دونوں فریق کچھ شرائط طے کرتے ہیں۔ایک فریق دماغی یا جسمانی محنت کرتا ہے۔ اپنا وقت صرف کرتا ہے۔ دوسرا فریق اس کے بدلہ میں اسے یومیہ مزدوری یا ماہانہ طے شدہ معاوضہ دیتا ہے۔جو لوگ یومیہ مزدوری یاماہانہ مشاہرہ پر کام کراتے ہیں انہیں مالک یا ایمپلائر(Employer) کہا جاتا ہے اور جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں مزدور یا نوکر(Employee) کہا جاتاہے۔اسلام نے دونوں فریقوں کے حقوق وفرائض متعین کئے ہیں۔اس پہلے راقم ایک مضمون مزدوروں کے حقوق پر قارئین کی خدمت میں پیش کرچکا ہے۔اس وقت دوسرے فریق کے حقوق رقم کیے جارہے ہیں۔
مالک اور آقا کا پہلا حق یہ ہے کہ جن شرائط پر کام کرنے کا معاہدہ ہوا ہے ان شرائط کو پورا کیا جائے۔مالک کے مفوضہ کام کو نہایت دیانت داری اور محنت سے انجام دیا جائے۔ اس کاحکم خوشی خوشی بجالایا جائے۔ اس کی پسند اور مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے۔ وہ جو ہدایت دے اسے خوش دلی سے پورا کیا جائے۔ وہ جو معاوضہ دیتا ہے اپنی محنت اور لگن سے اس کا حق ادا کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”جب کوئی اپنے آقا کی خیر خواہی اور وفاداری کرے اور خدا کی عبادت بھی اچھی طرح کرے تو وہ دوہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔“(بخاری ومسلم)
مالک سے وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ مالک کی غیر موجودگی میں بھی نہایت لگن اورجاں فشانی سے کام کیاجائے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب تک مالک سرپر سوار رہتا ہے تو مزدور خوب کام کرتا ہے اور جیسے ہی مالک کسی کام سے باہر چلاجاتا ہے۔ مزدور بھی آرام کرنے لگتا ہے یا لاپرواہی سے کام کرتا ہے۔ یہ اپنے مالک کے ساتھ خیانت وبددیانتی اور اپنے معاہدہ کی خلاف ورزی ہے جو منافقت کی دلیل ہے۔ آنحضورﷺنے ارشاد فرمایا:
”منافق کی تین نشانیاں ہیں جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے جب وہ کوئی امانت سپرد کرے تو اس میں خیانت کرے اور جب کوئی عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔“(مسلم)
مالک نے جو کام آپ کے سپرد کیا ہے وہ امانت ہے۔ اگر آپ اس کام کو کماحقہ انجام نہیں دیں گے توآپ امانت میں خیانت کے مرتکب ہوں گے۔اسی طرح کام مکمل کرنے کے لیے جو مدت طے ہوجائے۔ اسی مدت میں مالک کا کام پورا کردیا جائے۔الا یہ کہ کوئی ایسا قابل قبول عذر لاحق ہوجائے۔بلا وجہ کام میں تاخیر کرنا بھی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔
ملازمت اورمزدوری کے درمیان مالک بہت سی ایسی باتیں بتاتا ہے یا ایسے کام سپرد کرتا ہے جو اس کے راز ہوتے ہیں۔ ان رازوں کی حفاظت کرناملازم کی بڑی ذمہ داری ہے۔ جو شخص کسی کے راز کے حفاظت نہیں کرتا اللہ اس کو دنیا میں بھی ذلیل کرتاہے اور آخرت میں بھی رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا۔اس لیے مالک یا کمپنی کے رازوں کی حفاظت کی جائے اور ان کے ساتھ حد درجہ خیر خواہی کا رویہ اپنایا جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے سامنے وہ تین شخص پیش کیے گئے جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے تھے:(۱) شہید (۲) وہ پاک دامن جو حرام وشبہات سے بچتاہے۔(۳) وہ شخص جس نے اچھی طرح اللہ کی بندگی کی اور اپنے مالکوں کی خیر خواہی کی۔“ (ترمذی)
بہت سے لوگ درمیان میں کام کو ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں بالفاظ دیگر بھاگ جاتے ہیں۔بہت سے لوگ مالک کے پیچھے اس کی برائی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مالک کے نقصان کے درپے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ دل میں مالکوں سے بغض رکھتے ہیں۔یہ تمام باتیں نہ شرعاً جائز ہیں اور نہ اخلاقی طور پر۔ اپنے مالکوں سے ہر حال میں خوش رہیے۔ ان کی طرف سے اگر کوئی شکایت کا موقع ملے تو اسے برداشت کرلیجئے یا ادب واحترام سے اپنے مالک سے بات کرلیجئے۔آپ اتنی محنت سے جو حلال روزی کمارہے ہیں اسے معمولی سی کوتاہی سے حرام نہ ہونے دیجئے۔ آپ بہت خوش نصیب ہیں کہ محنت ودیانت سے حلال روزی حاصل کررہے ہیں۔آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:”فرض عبادت کے بعد سب سے بہتر عمل اپنے ہاتھ سے روزی کمانا ہے“۔
مالک جو کام سپرد کرے، اسے بہترسے بہترانداز میں انجام دیجئے۔ ٹال مٹول اور کاہلی وسستی کو قریب نہ آنے دیجئے۔ نہایت چستی وپھرتی اور دل کی لگن سے کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچائیے۔ خوبصورتی اورتند ہی سے اپنے مفوّضہ فرائض کو انجام دیجئے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”مملوک کے لیے یہ بات بہت عمدہ ہے کہ اللہ اس کو اس حالت میں اٹھائے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت اور اپنے آقا کی فرمانبرداری میں لگا ہو۔“(بخاری ومسلم)
اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ کوئی آجریا کمپنی اپنے کسی ملازم کو اس کے عقیدے کے خلاف کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔مسلمان ملازمین تو اس کے پابند ہیں کہ وہ اپنے خالق کی نافرمانی کسی حال میں نہیں کریں گے۔(لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت لازم نہیں)وہ صرف معروف میں اطاعت کے پابند ہیں۔اللہ کی نافرمانی والے کام کرنے پر وہ گناہ گار ہوں گے۔ایسی حالت میں ایک مسلمان کو صاف صاف یہ بتادینا چاہئے کہ جس کام کی اجازت اس کا دین نہیں دے گا اس کام کووہ نہیں کرے گا۔اگر کہیں ایسی نوبت آجائے اور مالک یا کمپنی زور و زبردستی کرے تو مسلمان ملازم کو نوکری چھوڑ دینا چاہئے۔اسے اللہ کے رازق ہونے پر یقین رکھنا چاہئے۔یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے۔جس عمل سے ہماری آخرت تباہ ہوتی ہو،ہماری ہمیشہ کی زندگی خطرے میں پڑتی ہو اس عمل سے باز رہنے میں ہی عافیت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:۔”جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے۔خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے۔اگر اسے معصیت (شریعت کی نافرمانی)کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ عمل کرنا۔“ (ترمذی)
(۱)دوسروں کی ضرورت بلا معاوضہ پوری کرنا۔ اسے خدمتِ خلق کہا جاتا ہے۔ یعنی کوئی اجرت لئے بغیر انسانوں کے کام آنا۔
(۲) ماہانہ یا سالانہ تنخواہ (نوکری) طے کرلینا اور متعین اوقات میں کسی کے کام کو انجام دینا۔ اسے ملازمت یا نوکری کہتے ہیں۔
(۳) روزانہ متعین وقت کے اندرمتعین کام کرنا اور روزانہ اجرت حاصل کرلینا۔ اسے مزدوری کہتے ہیں۔
(۴) بادشاہ، نواب، صوبہ دار،قبیلہ یا بستی کے سردار عام لوگوں سے بلااجرت کام لیتے تھے اور غریب لوگ ان کے دباؤ میں بلامعاوضہ کام کرتے تھے۔ اسے بیگاری کہا جاتا تھا۔ ملوکیت اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمہ پر ہمارے ملک سے یہ ظالمانہ صورت بھی ختم ہوگئی۔البتہ ابھی بہت سے لوگ اپنے جیسے انسانوں سے غلاموں جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔جسے اسلام میں گناہ قرار دیا گیا ہے۔
(۵) اسلام سے پہلے ایک شکل یہ بھی تھی کہ لوگ انسانوں کو اپنی خدمت کے لیے خرید لیتے تھے اور ان سے گھر کے تمام کام لیے جاتے تھے۔ انہیں زندگی بھر اپنے مالک کے کہنے پر ہر کام کرنا ہوتا تھا۔انہیں غلام کہاجاتا تھا۔اسلام آیا تو اس نے غلاموں کو آزاد ی عطا کی۔انسانی غلامی ختم کرنے کے لیے پوری مہم چلائی۔غلاموں کو آزاد کرنے پر بڑے اجر کی بشارت سنائی۔ اسی طرح مسلمانوں نے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔ بعض گناہوں کا کفارہ اسلام نے یہ قرار دیا کہ غلام کو آزاد کیا جائے۔
غلاموں کی آزادی کے لیے اسلام نے مکاتبت کا اصول مقرر کیا۔اس کے تحت غلاموں اور مالکوں کے درمیان ایک اگریمنٹ ہوتا ہے مالک کہتا ہے کہ مجھے اتنی رقم دے دو میں تمہیں آزاد کردوں گا یا غلام کہتا ہے کہ میں اتنی رقم آپ کو دوں گا۔آپ مجھے آزاد کردیں۔بہر حال پیش کش کسی جانب سے بھی ہو اگر معاہدہ طے پاجاتا ہے تو پھر غلام آزاد ہوجاتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:۔
”اور تمہارے غلام اگر تم سے مکاتبت کی درخواست کریں تو اسے قبول کرلو،اور اللہ نے جو مال تمہیں دیا ہے اس میں سے اسے دو۔“(النور33)
اسلام نے زکاۃ کے مصارف میں ایک مد یہ بھی رکھی کہ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرایا جائے۔
”یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو،نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں“''(التوبہ:60)
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
”اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔“(البقرہ:177)
مذکورہ بالا پانچوں شکلوں میں سے اس وقت بیشتر ممالک میں ملازمت اور نوکری کی صورت رائج ہے جو دینی، اخلاقی اورسماجی اعتبار سے جائز اور درست ہے۔کبھی کبھی کوئی فرد مالک نہ ہوکر کمپنی یا ٹرسٹ مالک ہوتا ہے۔ اس میں دونوں فریق کچھ شرائط طے کرتے ہیں۔ایک فریق دماغی یا جسمانی محنت کرتا ہے۔ اپنا وقت صرف کرتا ہے۔ دوسرا فریق اس کے بدلہ میں اسے یومیہ مزدوری یا ماہانہ طے شدہ معاوضہ دیتا ہے۔جو لوگ یومیہ مزدوری یاماہانہ مشاہرہ پر کام کراتے ہیں انہیں مالک یا ایمپلائر(Employer) کہا جاتا ہے اور جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں مزدور یا نوکر(Employee) کہا جاتاہے۔اسلام نے دونوں فریقوں کے حقوق وفرائض متعین کئے ہیں۔اس پہلے راقم ایک مضمون مزدوروں کے حقوق پر قارئین کی خدمت میں پیش کرچکا ہے۔اس وقت دوسرے فریق کے حقوق رقم کیے جارہے ہیں۔
مالک اور آقا کا پہلا حق یہ ہے کہ جن شرائط پر کام کرنے کا معاہدہ ہوا ہے ان شرائط کو پورا کیا جائے۔مالک کے مفوضہ کام کو نہایت دیانت داری اور محنت سے انجام دیا جائے۔ اس کاحکم خوشی خوشی بجالایا جائے۔ اس کی پسند اور مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے۔ وہ جو ہدایت دے اسے خوش دلی سے پورا کیا جائے۔ وہ جو معاوضہ دیتا ہے اپنی محنت اور لگن سے اس کا حق ادا کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”جب کوئی اپنے آقا کی خیر خواہی اور وفاداری کرے اور خدا کی عبادت بھی اچھی طرح کرے تو وہ دوہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔“(بخاری ومسلم)
مالک سے وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ مالک کی غیر موجودگی میں بھی نہایت لگن اورجاں فشانی سے کام کیاجائے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب تک مالک سرپر سوار رہتا ہے تو مزدور خوب کام کرتا ہے اور جیسے ہی مالک کسی کام سے باہر چلاجاتا ہے۔ مزدور بھی آرام کرنے لگتا ہے یا لاپرواہی سے کام کرتا ہے۔ یہ اپنے مالک کے ساتھ خیانت وبددیانتی اور اپنے معاہدہ کی خلاف ورزی ہے جو منافقت کی دلیل ہے۔ آنحضورﷺنے ارشاد فرمایا:
”منافق کی تین نشانیاں ہیں جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے جب وہ کوئی امانت سپرد کرے تو اس میں خیانت کرے اور جب کوئی عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔“(مسلم)
مالک نے جو کام آپ کے سپرد کیا ہے وہ امانت ہے۔ اگر آپ اس کام کو کماحقہ انجام نہیں دیں گے توآپ امانت میں خیانت کے مرتکب ہوں گے۔اسی طرح کام مکمل کرنے کے لیے جو مدت طے ہوجائے۔ اسی مدت میں مالک کا کام پورا کردیا جائے۔الا یہ کہ کوئی ایسا قابل قبول عذر لاحق ہوجائے۔بلا وجہ کام میں تاخیر کرنا بھی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔
ملازمت اورمزدوری کے درمیان مالک بہت سی ایسی باتیں بتاتا ہے یا ایسے کام سپرد کرتا ہے جو اس کے راز ہوتے ہیں۔ ان رازوں کی حفاظت کرناملازم کی بڑی ذمہ داری ہے۔ جو شخص کسی کے راز کے حفاظت نہیں کرتا اللہ اس کو دنیا میں بھی ذلیل کرتاہے اور آخرت میں بھی رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا۔اس لیے مالک یا کمپنی کے رازوں کی حفاظت کی جائے اور ان کے ساتھ حد درجہ خیر خواہی کا رویہ اپنایا جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے سامنے وہ تین شخص پیش کیے گئے جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے تھے:(۱) شہید (۲) وہ پاک دامن جو حرام وشبہات سے بچتاہے۔(۳) وہ شخص جس نے اچھی طرح اللہ کی بندگی کی اور اپنے مالکوں کی خیر خواہی کی۔“ (ترمذی)
بہت سے لوگ درمیان میں کام کو ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں بالفاظ دیگر بھاگ جاتے ہیں۔بہت سے لوگ مالک کے پیچھے اس کی برائی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مالک کے نقصان کے درپے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ دل میں مالکوں سے بغض رکھتے ہیں۔یہ تمام باتیں نہ شرعاً جائز ہیں اور نہ اخلاقی طور پر۔ اپنے مالکوں سے ہر حال میں خوش رہیے۔ ان کی طرف سے اگر کوئی شکایت کا موقع ملے تو اسے برداشت کرلیجئے یا ادب واحترام سے اپنے مالک سے بات کرلیجئے۔آپ اتنی محنت سے جو حلال روزی کمارہے ہیں اسے معمولی سی کوتاہی سے حرام نہ ہونے دیجئے۔ آپ بہت خوش نصیب ہیں کہ محنت ودیانت سے حلال روزی حاصل کررہے ہیں۔آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:”فرض عبادت کے بعد سب سے بہتر عمل اپنے ہاتھ سے روزی کمانا ہے“۔
مالک جو کام سپرد کرے، اسے بہترسے بہترانداز میں انجام دیجئے۔ ٹال مٹول اور کاہلی وسستی کو قریب نہ آنے دیجئے۔ نہایت چستی وپھرتی اور دل کی لگن سے کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچائیے۔ خوبصورتی اورتند ہی سے اپنے مفوّضہ فرائض کو انجام دیجئے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”مملوک کے لیے یہ بات بہت عمدہ ہے کہ اللہ اس کو اس حالت میں اٹھائے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت اور اپنے آقا کی فرمانبرداری میں لگا ہو۔“(بخاری ومسلم)
اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ کوئی آجریا کمپنی اپنے کسی ملازم کو اس کے عقیدے کے خلاف کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔مسلمان ملازمین تو اس کے پابند ہیں کہ وہ اپنے خالق کی نافرمانی کسی حال میں نہیں کریں گے۔(لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت لازم نہیں)وہ صرف معروف میں اطاعت کے پابند ہیں۔اللہ کی نافرمانی والے کام کرنے پر وہ گناہ گار ہوں گے۔ایسی حالت میں ایک مسلمان کو صاف صاف یہ بتادینا چاہئے کہ جس کام کی اجازت اس کا دین نہیں دے گا اس کام کووہ نہیں کرے گا۔اگر کہیں ایسی نوبت آجائے اور مالک یا کمپنی زور و زبردستی کرے تو مسلمان ملازم کو نوکری چھوڑ دینا چاہئے۔اسے اللہ کے رازق ہونے پر یقین رکھنا چاہئے۔یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے۔جس عمل سے ہماری آخرت تباہ ہوتی ہو،ہماری ہمیشہ کی زندگی خطرے میں پڑتی ہو اس عمل سے باز رہنے میں ہی عافیت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:۔”جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے۔خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے۔اگر اسے معصیت (شریعت کی نافرمانی)کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ عمل کرنا۔“ (ترمذی)
جواب دیں