تحریر ۔ سید ہاشم نظام ندوی شعبان کی پندرھویں شب ہے، غروبِ آفتاب کے بعد شبِ برات کے با برکت لمحے شروع ہوئےاور میری خالہ محترمہ بی بی خدیجہ کی زندگی کی ساعتیں ختم ہوئیں۔ وقتِ موعود آگیا اور ایک روح رب کے حضور طلب کی گئی ، جہاں انھیں ان شاء اللہ ان کے صبر ورضا کا انعام دیا جائے گا اور شاید اسی لیے اللہ رب العزت نے انھیں لمحات میں اپنے پاس بلا لیا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ جیسے باپ کی بے لوث شفقت، محبت وچاہت اورحسنِ تربیت کا عکس بھائی، چچا اور ماموں میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح ماں کی خالص محبت، بے غرض عقیدت اوربے لوث جذبۂ خدمت سوائے بہن ، پھوپھی اور خالہ کے اور کہاں مل سکتی ہے؟۔ان نعمتوں کی قدر انسان اس وقت زیادہ محسوس کرتا ہے جب یہ چھوٹ جاتی ہیں۔میری والدہ ماجدہ کی تین بہنوں میں سے یہ دوسری بہن تھی ۔ ان کے سانحۂ ارتحال سے مجھ سے اس نعمت کا ایک حصہ رخصت ہوگیا۔ انتقال کی خبر نے میرے انگ انگ کو متاثر کیا، اس ایک نعمت کے چلے جانے کے بعد میرا یہ احساس بڑھتا ہی جا رہا ہے کہ یہ کس قدر پاکیزہ روح رہی ہوگی جسے مالک نے اپنے پاس ایک ایسی مبارک رات بلا لیا جو رات اللہ کی طرف سے مغفرت کے فیصلوں کی ہوتی ہے، ایک ایسے ماہ میں وہ چلی گئی جس ماہ بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ یقینا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے اندر کتنی صفات رہی ہوں گیں، ان کا دل اللہ سے کس قدر جڑا ہوگا۔سبحان اللہ اسے عجیب حسنِ اتفاق کہیے یا حسنِ تقدیر کہ ماہِ رمضان کی وہ تیئیسویں شب تھی اور عین سحری کا وقت تھا جب ان کےشوہر محترم جفری دامدا مرحوم داعئ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تھے۔ میاں بیوی کا حسنِ خاتمہ یقینا ان کے اعمالِ صالحہ کا نتیجہ اور صبر و رضا کا ثمرہ ہے کہ جس کی دعائیں اور تمنائیں اہل اللہ کرتے ہیں وہ میاں بیوی دونوں کے نصیب میں آگئیں۔ مرحومہ کے والد مرحوم جناب عبد القادر باشہ رحمۃ اللہ علیہ مجلسِ اصلاح وتنظیم کے طویل المیعاد جنرل سکریٹری تھے، جماعت المسلمین کے رکنِ رکین اور جامعہ اسلامیہ کے پہلے ٹرسٹی تھے، ان کی زندگی خدمتِ خلق کے لیے وقف تھی، انھوں نے پوری ایک صدی کا عرصہ پایا، پورے سو سال بقیدِ حیات تھے۔ مرحومہ آپ کی لاڈلی بیٹی تھی، اپنے والدِ ماجد کے کئی اوصاف اس میں پائے جاتے تھے۔ ہر ملنے جلنے والے اور دیکھنے والے کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ ایک خوش مزاج اور خوش گفتار تھی،سراپا رحم وکرم اور پیکرِ لطف واحسان تھی، ضیافت ومہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا،غربا پروری میں وہ اپنے والدماجد کے نقشِ قدم پر تھی، کسی کے کام آنے میں اپنی سعادت سمجھتی، سخاوت وفیاضی میں کبھی اپنے حدود تجاوز کرجاتی، خود نہیں دے سکتی تو کسی سے دلواتی ۔ یہ میری وہ خالہ تھیں جنہوں نے زندگی میں بہت دکھ دیکھا، جنہیں زندگی کے کئی موڑ پر آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑامگر بہت ہی سکون اور اطمئنان سے اس کے ہر نشیب وفراز دسے گزرگئیں، بہت مشکلیں آئیں مگر کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ بہت ہی کٹھن گھڑیاں آئیں مگر اس کو آسانی سے نبھا گئیں۔ ہر امتحان اور ابتلا کے دور کو پار کر گئیں مگر تسلیم ورضا کی کیفیت میں ذرہ برابرفرق نہیں آیا۔ ماشاء اللہ بڑے دونوں فرزندوں جناب نذیر اور نوید صاحبان نے اپنی مقدور بھر خدمت کی، گھر والوں نے بھی اپنی ذمے داریاں سنبھالیں ۔ اے رب العالمین یہ بندی آج تیرے حضور حاضر ہو چکی ہے،تیری رحمت کے حوالے ہے، مغفرت کے سہارے ہے، اے اللہ بے شک تیری رحمت تیرے غضب پر غالب ہے، تیری ذات غفور ورحیم ہے، تو سب سے عظیم ہے، تیرے فضل وکرم کی کوئی مثال نہیں ہے، تیری اجازت کے بغیر کس کی شفاعت چل سکتی ہے۔ اے اللہ میری خالہ جان کی مغفرت فرما، ان پر اپنا فضل کرم فرما، لغزشوں سے در گزر فرما اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرما ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں