ہم درس کاشف رکن الدین کی یادیں اور بہترین صفات کے حسین تذکرے !
احمد فارس ندوی
رفیق فکروخبر بھٹکل
إن العين لتدمع وإن القلب ليحزن وإنا على فراقك يا أخي لمحزونون ولا نقول إلا ما يرضي ربنا إنا لله وإنا اليه راجعون
/21 اپریل بروز اتوار بعد نماز مغرب جب میں اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا، اسی دوران میرے بہنوی نے آواز دی اور مولانا نعمت اللہ عسکری ندوی کے صاحبزادے انعام اللہ کے غرق ہونے کی خبر دی ، مزید انھوں نے بتایا کہ کاشف نامی 22سالہ نوجوان لاپتہ ہے جس کی تلاش جاری ہے۔ اس خبر کو سننا تھا کہ کلیجہ منہ کو آگیا اور کچھ لمحے کے لیے ایسا لگا کہ پیروں کے نیچے سے زمین کسکھ رہی ہوں . خبر چونکا دینے والی تھی اور یقین کرنا مشکل تھا، میں فوراً گھر پہنچا اور واٹس ایپ پر معلومات کی تصدیق کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ نوجوان میرا ہر دلعزيز وہم درس مولوی کاشف رکن الدین ندوی ہی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ بروز اتوار بعد نماز عصر مولوی کاشف ندوی اور مولانا نعمت اللہ عسکری ندوی کا فرزند ارجمند انعام اللہ عسکری دونوں اپنے گھر والوں کے ساتھ سیرو تفریح کے لیے بھٹکل کے قریب سوڈی گیدے ساحلی سمندر گئے تھے، سمندر میں تیراکی کے دوران ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے وہاں موجود گھر والوں کے ہوش اڑادئیے ، سمندر میں تیراکی میں مصروف دو نوجوان میں سے ایک نوجوان غائب تھا اور دوسرا بے ہوش ہوکر سمندر کی لہروں میں دکھائی دے رہا تھا۔ فوری طور پروہاں موجود لوگوں نے انعام اللہ کو ساحل تک پہنچایا لیکن اسے کچھ ہوش نہیں تھا ، بالآخر اسپتال لانے کے بعد اس کی تصدیق ہوگئی کہ انعام اللہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ دوسرے نوجوان کی تلاش جاری تھی ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے زندہ ملنے کی امیدیں بھی کم ہو رہی تھی ساری رات تلاش جاری رہنے کے بعد فجر کے نماز کے آدھا گھنٹہ قبل لاش برآمد ہوئی ، مجھے یہ خبر بعدِ فجر ملی جس نے میرے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا لیکن کیا کرے موت ایک اٹل حقیقت ہے آج نہیں تو کل سب کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، اس سے کسی کو مفر نہیں خدا کو انکار کرنے والے تو بہت پیدا ہوئے لیکن موت کا انکار کرنے والا اس دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے
مرحوم مولوی کا شف ندوی میرے ہم درس تھے ،چاہے روزانہ کا مذاکرہ ہو یا امتحان کی تیاری، ساتھ ہی میں بیٹھ کر پڑھا کر تے تھے. وہ بہت محنتی طالب علم تھا، درجہ کا پابند تھا جس کی گواہی میرے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تکمیل کے پہلے سال کی حاضری فیصد بھی دے رہی ہے ۔ اس کے علم کی پیاس ابھی بجھی نہیں تھی ، وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کرنے والا تھا اور سفر کی تیاری بھی کرچکا تھا ، بس یوں سمجھ لیجیے کہ ٹکٹ کے دن کا انتظار ہو۔ اس سے قبل وہ ندوہ کا سفر کرتا اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا ، اپنے بچپن کے اس ساتھی کے جدائی کا غم میرے لئے ایک المناک سانحہ بن کر دماغ پر نقش ہو گیا ۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ موصوف اتنا جلد اپنی زندگی کا سفر ختم کرکےراہی جنت ہوگا۔
ہم میں سے کسی نے شاید یہ سوچا تھا کہ وہ اس قدر جلد ہمیں داغ ِمفارقت دے جائے گا ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس سخت آزمائش میں نہ پاؤں تلے زمین باقی ہے اور نہ سر کے اوپر آسمان. دل و دماغ کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہو گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا ہے لیکن یہ طئے شدہ امر ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اللہ کی طرف ہی جانا ہے اور اسی نے اپنی حکمت و مصلحت سے میرے جوان دوست کو ہم سے جدا کر دیا اور مقدر میں شاید یہی لکھا تھا کہ وہ اس دنیا سے اُس جنت کی طرف چلا جائے گا جہاں کی آسائشیں اور نعمتیں اس کا استقبال کر رہی ہوں گی۔
موصوف بہت سے اوصاف سے متصف تھا، اس کے کس کس وصف کا تذکرہ کیا جائے۔ اس کا ہر وصف بیان کرنے کے قابل ہے ، موصوف نمازوں کا پابند تھا ، بڑا ملنسار، بڑوں کا اد ب خصوصاً اپنے اساتذہ کا ادب اور حد درجہ احترام اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ جس کا مشاہدہ خود میں نے کئی بار کیا ہے ، جس جس نے اس کو ایک حرف بھی سکھایا ، ان کا تذکرہ بڑے احترام کے ساتھ کرتا اور ان سے اس کی ملاقاتیں بھی رہتیں۔
موصوف حامل قرآن بھی تھا اور ہمیشہ اپنے سینے میں قرآن کو باقی رکھنے کے لئے کوشاں اور فکر مند رہتا تھا. پابندی سے قرآن مجید تلاوت کرتا تھا اور روزانہ مولانا عمران اکرمی جامعی کو سنایا کرتا تھا یہاں تک کہ گزشتہ سال ندوہ جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ منقطع کئے بغیر اپنے ساتھیوں کو سناتا رہا ، اس کے بچپن کے ساتھی مولوی عبد الحفیظ نے بھی بتایا کہ وہ ندوہ آنے کے بعد بھی دو مرتبہ قرآن اپنے ساتھی کو سنایا کرتا تھا جس کی گواہی میرے دیگر ہم درس بھی دیتے ہیں۔ اقرأ ورتل وارتق كما كنت ترتل في الدنيا فإن منزلتك عند آخر آية كنت تقرؤها (ترمذی)
موصوف کراٹے میں بڑی مہارت رکھتا تھا ،اس کے لیے نہ صرف شہر بھٹکل بلکہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں منعقدہ مقابلوں میں شرکت کرکے نمایاں مقام بھی حاصل کرتا ، وفات سے تین چار دن قبل میری ان سے فون پر بات ہوئی اور اس وقت بھی وہ کراٹے مقابلہ کے لیے سفر پر تھا ، یہ بات ذہین نشین رہے کہ موصوف شریعت کے حدود میں رہ کر آگے بڑ ھ رہا تھا اور اس سلسلہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔
شرعی حدود میں رہ کر دنیاوی امور میں آگے بڑھنے کی شریعت بھی اس کی اجازت دیتی ہے لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ دنیاوی کام تو کوسوں دور کی بات شرعی امور بھی شرعی حدود میں رہ کر انجام نہیں پاتے۔
اور ایک وصف جس کا مرحوم میں بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا وہ یہ کہ درجہ میں دورانِ درس ہو یا ساتھیوں کے ساتھ مذاکرہ یا کوئی بات اگر سمجھنے میں دشواری پیش آتی تو بہت ہی ادب اور شائستگی سے اپنے اساتذہ سے دوبارہ پڑھا نے کی درخواست کرتا ، وہ کبھی علم کے حصول کے لیے شرم محسوس نہیں کرتا تھا۔
اس بائیس سالہ زندگی میں نہ جانے مرحوم کی کتنی امنگیں ، امیدیں رہی ہوں جن کے ساتھ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوا۔ انسان اپنے اجل سے بے پرواہ اپنی زندگی کے لیے امیدیں باندھتا ہے لیکن اجل کے سامنے وہ بے بس ہے۔ اجل اسے لے جاتی ہے اور امیدیں یہیں رہ جاتی ہیں۔ دل میں حسرت اس غنچہ پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گیا لیکن اس کی موت نے یقینا ایک پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور وقت مقررہ کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ملتی ، اس لیے اس سے پہلے کہ ہمارا نامہ اعمال بھی بند ہو جائے اور موت کسی بہانے سے ہمیں بھی اپنے شکنجے میں لے لے، ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دعا یہی ہے کہ اے اللہ ! ہمیں ایسی آزمائشوں میں نہ ڈال جن کا تحمل ہم نہ کر سکتے ہوں اور ہمیں دنیا میں عافیت اور آخرت میں اجرِ عظیم سے نوازدے۔
آخر میں اس کے والدین اور اعزہ واقارب سے تعزیت کرتے ہوئے صرف یہ کہتا ہوں کہ ان للّٰه ما أخذ وله ما أعطى وكل شيئ عنده بأجل مسمى اور دعا گو ہوں کہ اللّٰہ تعالی اس کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے ۔ ان کے والدین، دوست احباب اوراعزہ واقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اس کا اچھا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں