یہ انتہائی غیر منصفانہ بات ہے کہ مسلمانوں کو تحفظات دینا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ہے جبکہ تحفظات مختلف کمیشنوں کے علمی جائزوں کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔ حکومت کرناٹک کا سرکاری ملازمتوں و اعلیٰ تعلیمی اور فنی اداروں میں داخلوں میں مسلمانوں کے لیے چار فیصد کوٹے کو برخاست کر کے اسے سیاسی طور پر با اثر طبقات ووکالیگا اور لنگایتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سیاسی محرکات پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر دستوری بھی ہے۔ یہ فیصلہ اس وجہ سے بھی سیاسی محرکات پر مبنی نظر آتا ہے کہ مسلم تحفظات کی برخاستگی اور ریاست میں انتخابات کا اعلان ایک کے بعد دیگر کیا گیا ہے۔ مسلم کوٹے کو 26 مارچ کو برخاست کیا گیا جبکہ اسمبلی انتخابات کی تواریخ کا اعلان 29 مارچ کو کیا گیا ہے۔ کرناٹک اسمبلی کے انتخابات 10 مئی کو منعقد ہوں گے اور نتائج کا اعلان 13 مئی کو کیا جائے گا۔ مرکزی وزیر امیت شاہ نے کرناٹک میں اپنی پارٹی کی حکومت کی جانب سے مسلم تحفظات کو برخاست کرنے کی ستائش کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ مسلمانوں کو دیے گئے تحفظات دستور کے خلاف تھے اور کرناٹک میں ان کی پارٹی کی حکومت نے سابقہ کانگریس اور جنتادل (سیکولر) کی حکومتوں کے ایک غیر دستوری اقدام کو درست کیا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے یہ غیر دستوری اقدام مسلمانوں کی خوشنودی کے لیےکیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی حکومت اس مسئلہ پر گزشتہ چار برسوں سے کیا کر رہی تھی؟ کیا اسے ان چار برسوں کے دوران یہ نہیں ملعوم تھا کہ مسلم تحفطات غیر دستوری ہیں؟ اس نے یہ اقدام پہلے کیوں نہیں کیا اور کس بنیاد پر ریاستی حکومت نے چار فیصد مسلم کوٹے کو ووکالیگا اور لنگایت طبقہ میں تقسیم کیا ہے جو پہلے ہی سے تحفظات کے دائرہ میں ہیں؟ ووکا لیگا کو پانچ فیصد اور لنگایت طبقہ کو چار فیصد تحفظات حاصل ہیں۔ مسلم کوٹے کو برخاست کر کے ووکالیگا اور لنگایتوں میں مساوی طور پر تقسیم کردینے سے ان کا کوٹہ علی الترتیب سات فیصد اور چھ فیصد تک بڑھ جائے گا۔ ووکالیگا اور لنگایت ریاست کی آبادی کا 15 فیصد اور 17 فیصد ہیں اور سیاسی طور پر با اثر ہیں۔ ان دونوں طبقوں کا ریاست بھر میں اسکولوں، کالجوں اور میڈیکل و ٹکنیکل انسٹیٹیوٹس پر کنٹرول ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور ماہر تعلیم سید تنویر احمد کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی صاف دکھانا چاہتی ہے کہ وہ مسلم دشمن ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسمبلی انتخابات کے موقع پر اکثریتی طبقہ کی رائے کو اپنے حق میں منظم کرنا چاہتی ہے۔ یہ اکثریتی طبقہ کو لبھانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس طرح کا رویہ جمہوریت کے لیے کوئی ٹھیک بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سیاست کرتے ہوئے آپ ایک جمہوری پارٹی نہیں کہلا سکتے۔ اکثریتی طبقہ کی چاپلوسی جمہوریت کا قتل کر د ے گی۔ مسلمانوں کو اب معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کے دس فیصد کوٹے کے تحت برہمنوں، جینیوں اور تعلیمی لحاظ سے ریاست کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ دیگر ذاتوں کے ساتھ رکھا گیا ہے اس لیے مسلمانوں کے لیے اس سے استفادہ کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ تعلیمی لحاظ سے وہ برہمنوں اور جینیوں کے برابر نہیں ہے۔ لہذا امکان یہی ہے کہ ای ڈبلیو ایس کوٹے کے تحت سخت مسابقت کے باعث مسلمانوں کو براہ راست فائدہ نہیں پہنچے گا۔ جناب سید تنویر احمد نے کہا ’’تحفظات مراعات سے محروم گروپوں کو سماجی انصاف فراہم کرنے کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کو برہمنوں اور دوسرے طبقات کے ساتھ ای ڈبلیو ایس کوٹے کے تحت رکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے سماجی انصاف کی روح کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ یاد رہے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی حکومت نے 2015 میں پانچ فیصد مسلم کوٹے کو برخاست کیا تھا جو کانگریس حکومت نے دیا تھا۔ کرناٹک ہو یا مہاراشٹر دونوں معاملات میں بی جے پی نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی پارٹیوں کی مذہب کی بنیاد پر اقلیت کی خوشنودی حاصل کرنے کی مثالیں تھیں۔ لیکن حقیقت میں دونوں ہی ریاستوں میں مسلمانوں کو تحفظات سائنٹفک اسٹڈی کے ذریعہ ریاست کے پسماندہ طبقات کے ریاستی کمیشنوں کی بنیاد پر دیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں نہ تو مہاراشٹر میں اور نہ ہی کرناٹک میں ریاستی اقلیتی کمیشنوں نے مسلم کوٹے کی برخاستگی کی سفارش کی تھی۔ اس وجہ سے کرناٹک اور مہاراشٹر میں بی جے پی حکومتوں کے اقدامات مکمل طور پر غیر دستوری ہیں۔ حکومت اپنے طور پر یہ کیسے فیصلہ کر سکتی ہے کہ مسلمان پسماندہ طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے؟ دونوں ریاستی حکومتوں کو اپنی متعلقہ ریاستوں میں پسماندہ طبقات کے ریاستی کمیشنوں سے کہنا چاہیے کہ وہ اس بات کا پتہ چلائیں کہ آیا مسلمان او بی سی زمرہ میں آتے ہیں یا نہیں اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے مسلم کوٹے کو برخاست کرنے کے اس دستوری طریقہ پر عمل نہیں کیا ہے۔ کرناٹک کی ریاستی حکومت کا موجودہ اقدام اور اور مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت کا سابقہ فیصلہ جو ریاستی پسماندہ کمیشنوں کی سفارش کے بغیر ہی لیا گیا ہے اس سے مسلمانوں کے تئیں ریاستی حکومت کے امتیازی رویہ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ اکثریتی طبقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی تعریف میں نہیں آتا جو مذہب کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ کرناٹک اور مہاراشٹر کی حکومتوں کے فیصلے مسلمانوں کو مزید پسماندگی میں دھکیلیں گے۔ ریاستی حکومت کی خدمات میں پہلے ہی ان کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔ کوٹے کی برخاستگی سے سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی و فنی اداروں سے ان کا مزید اخراج ہوگا۔ کیا یہ ایک ایسی پارٹی کا سماجی انصاف ہے جو سب کا ساتھ، سب کا وشواس اور سب کا وکاس کا نعرہ لگاتی ہے؟ مختلف سطحوں پر مختلف حکومتوں کی جانب سے تقرر کردہ تمام کمیشنوں اور کمیٹیوں بشمول نہایت معروف سچر کمیٹی نے مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی طور پر انتہائی پسماندہ پایا ہے۔ کیا مسلمانوں کو جو تعلیمی و معاشی طور پر پسماندہ ہیں الگ تھلگ کرنے سے مسلم طبقہ کی ترقی ہوگی؟ کیا اس سے بی جے پی اور اس حکومت پر مسلمانوں کا اعتماد پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ تنویر احمد اور بیدر میں مقیم ایک صحافی قاضی ارشد علی جنہوں نے مشترکہ طور پر ایک کتاب ’’کرناٹک کے مسلمان اور انتخابی سیاست‘‘ تصنیف کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مہاراجہ میسور کے زمانے سے مقرر کردہ تمام کمیٹیوں اور پینلوں نے مسلمانوں کو پسماندہ طبقات میں رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1918 میں میسور کے مہاراجہ کی جانب سے تقرر کردہ ملر کمیٹی نے مسلمانوں کو پسماندہ طبقات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس بنیاد پر مسلمانوں کو سابقہ ریاست میسور میں سرکاری ملازمتوں میں تحفظات دیے گئے تھے۔ ریاستوں کی تنظیم نو کے بعد حکومت کرناٹک نے ڈاکٹر آر رنگن گوڑا کمیٹی قائم کی۔ مئی 1961 میں اپنی رپورٹ میں گوڑا کمیٹی نے اعلان کیا کہ مسلمانوں کے تمام طبقات پسماندہ ہیں اور تحفظات کے اہل ہیں۔ 1972 میں ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج ایل جی ہانور کی زیر سربراہی قائم کردہ پہلے کرناٹک اسٹیٹ بیک ورڈ کمیشن نے مسلمانوں کو ایک خصوصی گروپ تصور کیا اور اس بنیاد پر ان کے لیے الگ سے چھ فیصد تحفظات کی سفارش کی۔ 1997 میں اپنے حکم میں ہانور کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر حکومت کرناٹک نے تمام مسلمانوں کو پسماندہ طبقات میں شامل کیا جسے کرناٹک ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تاہم عدالت نے یہ وضاحت کرتے ہوئے اس حکم کو برقرار رکھا کہ مسلمانوں پر مذہبی اقلیت ہونے کا لیبل انہیں پسماندہ طبقات میں شمولیت سے نہیں روکتا۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر ریاستی حکومت نے پسماندہ طبقات کی فہرست 1997 کا جائزہ لینے کے لیے ایک اور بیک ورڈ کمیشن قائم کیا۔ ٹی وینکٹ سوامی کی زیر سربراہی کمیشن نے مارچ 1986 میں تمام مسلمانوں کو تحفظات کے مقصد سے پسماندہ تصور کرنے کی سفارش کی تاہم رام کرشنا ہیگڈے حکومت نے اسے مسترد کردیا کیونکہ رپورٹ میں لنگایتوں اور ووکالیگا کو پسماندہ طبقات کی فہرست سے خارج رکھا گیا تھا۔ پھر ریاستی حکومت نے 1990 میں او چنپا ریڈی کمیشن قائم کیا۔ چنپا ریڈی کمیشن نے بھی مسلمانوں کے تمام طبقات کو پسماندہ طبقات کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی اس نے مسلمانوں کو تعلیمی اور سماجی اور معاشی طور پر ایک پسماندہ طبقہ قرار دیا۔ اس سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے 1994 میں مسلمانوں کو پسماندہ طبقات کے زمرے میں رکھا اور انہیں چار فیصد تحفظات دیے جو تاحال جاری ہے۔ لہذا یہ انتہائی غیر منصفانہ بات ہے کہ مسلمانوں کو تحفظات دینا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ہے جبکہ تحفظات مختلف کمیشنوں کے علمی جائزوں کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔ (بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں