کرناٹک :بی جے پی کے اندر تذبذب کا ماحول ،پارٹی صدر اور لیجسلیچر پارٹی لیڈرکے انتخاب پر خاموشی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمدامین نوازبیدر
کرناٹک میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست کے بعد بی جے پی کے اندر تذبذب کا ماحول پیدا ہوگیاہے ۔اقتدار ہاتھ سے نکل جانے کے بعد بی جے پی قائدین ابھی تک شکست کے احتساب سے باہر نہیں نکل سکے ۔کرناٹک میں بی جے پی کے تمام ہندوتوا منصوبے ناکام ہوگئے اور کرناٹک کی عوام نے ان سے اقتدار چھین کر کانگریس کے حوالے کردیا ۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد بی جے پی منقسم ہے۔ پارٹی کے اندر کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے، کیونکہ سینئر لیڈروں پر ریاست میں ایڈجسٹمنٹ کی سیاست کھیلنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس پیش رفت نے پارٹی کیڈر کا حوصلہ پست کر دیا ہے۔ پارٹی کو اسمبلی، کونسل کے لیے اپوزیشن لیڈروں کا تقرر کرنا ہوتا ہے۔ نلین کمار کتیل کی میعاد ختم ہونے کے بعد پارٹی کو ریاستی صدر کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار کی تلاش ہے۔ ریاست میں کانگریس مضبوط ہو رہی ہے اور بی جے پی کے امکانات کے خلاف دوسری ریاستوں کو کامیابی سے پیغام دے رہی ہے۔ نصف درجن سے زیادہ کابینہ کے وزراء اور 40 سے زیادہ موجودہ ایم ایل ایز کو اسمبلی انتخابات میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں کانگریس لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے، لیکن بی جے پی آپس کی لڑائی میں پھنسی ہوئی ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی صورتحال یہ ہے کہ شکست کے بعدپارٹی نے ریاستی صدر کو تبدیل کرنے کے علاوہ تنظیمی تبدیلیاں لانے کے کئی اجلاس بھی طلب کئے مگر ریاست میں تنظیمی تبدیلیاں نہیں کرسکے ۔حد یہ ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی نے اپنے لیجسلیچر پارٹی لیڈر کے انتخاب کیلئے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے ۔پارٹی کے مرکزی رہنما آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ حکمراں کانگریس نے اس کو لے کر بی جے پی کو نشانہ بنایا۔ بی جے پی صدر جے۔ پی۔ نڈا نے مرکزی وزیر منسکھ منڈاویہ اور پارٹی کے جنرل سکریٹری ونود تاوڑے کو اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے لیے بطور مبصر مقرر کیا مگر اس ضمن میں فیصلہ نہیں ہوسکا ۔واضح ہو کہ کرناٹک میں بی جے پی پچھلے دنوں اسمبلی اجلاس میں مقننہ پارٹی کے رہنما کے بغیر شرکت کی۔ گذشتہ یوم کرنا ٹک کے سابق چیف منسٹر ،بی جے پی قائد بسواراج بومائی پارٹی کے اندورنی فیصلوں اور کرناٹک کی صورتحال کے اِظہار کیلئے ہائی کمان دہلی گئے تھے جہاں انھوں نے پارٹی کے قائدین امیت شاہ و دیگر قائدین کے ساتھ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا سے بھی ملاقات کی اور کرناٹک میں سیاسی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔امیت شاہ اور نڈا سے ملاقات کے دوران کرناٹک میں بی جے پی کو مزید مضبوط کرنے اور کرناٹک میں بی جے پی کے ریاستی صدر اور ریاست میں اپوزیشن لیڈر کی فوری تقرری کی درخواست کی۔ میٹنگ کے دوران موجودہ حکومت کی طرف سے دی گئی ضمانتوں پر عوام کے ردعمل اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے بی جے پی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے اور کانگریس اس پر کس طرح کام کر رہی ہے اس پر بات چیت ہوئی۔ اُمید تھی کہ سابق چیف منسٹر بسواراج بومائی کی ہائی کمان سے ملاقات کے بعد پارٹی کے ریاستی صدر اور کرناٹک اسمبلی میں اپوزیشن قائد کا اعلان ہوجائے گا مگر تاحال ایسا نہیں ہوسکا ۔کرناٹک میں بی جے پی کی بے بسی اور اور کرناٹک میںپارٹی کے تئیں ہائی کمان خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی قائدین اور ہائی کمان میں آپسی تال میل فیصلہ کن نہیں رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی پارٹی کے مرکزی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے نئی دہلی میں بارہا ڈیرے ڈالنا اور ہر وقت تیقنات کے ساتھ واپس ریاست کو آجانا ۔ایک معمہ کی صورتحال اختیار کرگیا ہے ۔ کرناٹک کے بی جے پی قائدین اس ضمن میں ہائی کمان کے فیصلے کا انتظا ر کررہے ہیں۔ ریاستی بی جے پی قائدینحکمراں کانگریس حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کی قیادت کرنے کے لیے سینئر رہنماؤں کی ایک الگ ٹیم بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کانگریس حکومت کی طرف سے پانچ ضمانتوں پر عمل درآمد، بدعنوانی کے الزامات، ٹرانسفر کے الزامات کو مسئلہ بناکر کانگریس کو گھیرنے کی تیاری اس لئے کرہے ہیں کہ آئندہ لوک سبھی انتخابات میں ان کے پاس کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ایسی صورتحال میں بی جے پی کا کرناٹک میں بُرا حال ہے ۔لوک سبھاانتخابات قریب آرہے ہیں اور بی جے پی کرناٹک میں لوک سبھا انتخابات کے بجائے پارٹی صدر اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کیلئے پریشان ہے ۔اور کرناٹک میں میںان کی ہندوتوا پالیسی بھی نہیں چل سکی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کمزور ہوگئی ہے۔ کرناٹک کی عوام نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے، جس کی وجہ سے کانگریس کو نہ صرف بہت زیادہ سیٹیں ملی ہیں بلکہ اس کا ووٹ شیئر بھی بڑھا ہے۔ اس وقت بی جے پی میں آئندہ انتخابات کی تیاریوں کو لے کر مسلسل منتھنی جاری ہے ۔کرناٹک میں زعفرانی پارٹی کی ڈرامائی گراوٹ سے یقینی طور پر ملک میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے علاوہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ہندوتوا سکہ ہرگز نہیں چلے گا ۔ کرناٹک میں بی جے پی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس یدی یورپا کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں ہے۔ بی جے پی کی طاقت لنگایت ہے اور لنگایت برادری کی حمایت یدی یورپا کی وجہ سے رہی ہے۔ یدی یورپا کی گرتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے لنگایتوں کی بی جے پی سے وفاداری شاید مستقل نہ ہو۔ لیکن کرناٹک میں کانگریس کی جیت سے یہ اندازہ لگانا بہت جلد ہوگا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مودی کو شکست ہوگی۔ ملک بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ اسمبلی اور لوک سبھا کے نتائج الگ الگ آتے ہیں۔ لیکن کرناٹک میں گزشتہ تین اسمبلی انتخابات کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ بی جے پی ذات اور مذہب کے مساوات میں بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔بی جے پی نے 2008 اور 2019 میں دو بار کرناٹک میں حکومت بنائی، لیکن کسی بھی انتخابات میں اسے واضح اکثریت نہیں ملی۔2008 میں بی جے پی کو سب سے زیادہ 110 اور 2018 میں 105 سیٹیں ملی تھیں۔ 2018 میں کانگریس کو 78 اور جنتا دل سیکولر کو 37 سیٹیں ملی تھیں۔دونوں بار بی جے پی ریاست میں واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، لیکن اکثریت سے دور رہی۔2013 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی منہ کے بل گر گئی تھی۔ تب بی ایس یدی یورپا بی جے پی کو چھوڑ کر الگ پارٹی بنا کر الیکشن لڑ ے تھے۔2013 میں بی جے پی 40 سیٹوں پر سمٹ گئی۔2008 اور 2019 میں بی جے پی نے حکومت بنانے کے لیے دیگر پارٹیوں یا آزاد ایم ایل ایز سے جن ایم ایل ایز کو شامل کیا وہ مختلف ذاتوں سے تھے۔2018 کے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی یقینی طور پر اکثریت حاصل کرنے میں پیچھے رہ گئی تھی لیکن وہ ریاست میں ایک بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔ 224 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی نے 104 سیٹوں پر اپنا دعویٰ پیش کیاتھا۔ 2009 کے لوک سبھا میں بی جے پی نے 19 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ کانگریس-جے ڈی ایس نے 6 اور 3 سیٹیں حاصل کی تھیں۔2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی اے ایس یدی یورپا کی بی جے پی میں واپسی کے بعد بی جے پی نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کرناٹک میں 2014 کے انتخابات ایک ہی مرحلے میں ہوئے تھے۔ ریاست میں لوک سبھا کی کل 28 سیٹیں میں بی جے پی نے 17 سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ کانگریس صرف 9 سیٹوں پر رہ گئی تھی۔ دوسری طرف جے ڈی ایس باقی دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو25نشستیں حاصل ہوئیں تھیں جبکہ کانگریس اور جنتادل (ایس) کو ایک ایک نشست پر اکتفا کرنا پڑا اور ایک آزاداُمیدبھی کامیاب ہوا تھا۔ سیاسی منظر نامے پر منڈلا رہا ایک مروجہ سوال کرناٹک میں ایک بار سرگرم رہنے والی بی جے پی اور حکمراں کانگریس حکومت پر تنقید کرنے میں اس کی بے تابی کی کمی پر شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ سدارامیا انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد جے ڈی ایس کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی کے قائد حزب اختلاف کے طور پر اپنا رول چھوڑنے کے وسوسے بڑھ رہے ہیں۔ اس ترقی نے بی جے پی کو پریشانی میں ڈال دیا ہے اور وہ حکومت کے خلاف جوابی بیان دینے کے لیے کسی بھی اہم اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی سے دوچار ہے۔ غیر یقینی کے اس ماحول کے درمیان بی جے پی کچھ حد تک غیر فعال اور حکومت کے اقدامات اور پالیسیوں کو مضبوط چیلنج دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انتظامیہ پر لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات کے باوجود بی جے پی کا ردعمل سست رہا ہے، جس نے ایچ ڈی کمارسوامی کو پہل کرنے اور کانگریس کی قیادت والی حکومت پر زوردار حملے کرنے کے لیے زرخیز زمین فراہم کی۔ کمارسوامی کے مطابق اعلیٰ سطحوں پر بی جے پی کی خاموشی محض علامتی احتجاج اور سرسری تنقیدوں سے ہچکچاہٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔ بی جے پی جو کبھی سرگرم تھی اب خود کو خاموشی کی ایک غیر آرام دہ پوزیشن میںہے۔ بی جے پی کی آواز واضح طور پر غائب ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اعلیٰ کمان کے دباؤ میں کمی کی وجہ سے یہ ارادے بگڑ گئے ہیں، جس کی وجہ سے ریاستی بی جے پی مشکل میں ہے۔ بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا کچھ نہ کچھ خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ کرناٹک میں بی جے پی کو پچھلی بار 28 میں سے 25 سیٹیں ملی تھیں۔ وہیں کانگریس، جنتا دل ایس اور آزاد کو ایک ایک سیٹ ملی۔ اگر سروے کی پیشن گوئی درست نکلتی ہے تو 2024 میں بی جے پی کے بعد حزب اختلاف کے گرینڈ الائنس انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس یعنی 'انڈیا' کو سب سے زیادہ سیٹیں مل رہی ہیں۔ دیکھنا ہے 2024کے لوک سبھا انتخابات میں کرناٹک میں کیا سیاسی حالات ہوں گے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں