کانگریس کی واحد زمینی طاقت بنے ہوئے کرناٹک میں قیادت کا بحران خوفناک موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار کے حامیوں کا مطالبہ ہے کہ وہ سدّرامیا کی جگہ وزیر اعلیٰ بنیں، جبکہ کانگریس ہائی کمان اس بحران کو سنبھالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دوسری طرف سیاسی مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو نتیجہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسا تباہ کن بھی ہو سکتا ہے۔
پس منظر: دو سال پرانا زخم پھر ہرا
دو سال قبل اسمبلی انتخابات میں شاندار جیت کے بعد کانگریس نے سدّرامیا کو وزیر اعلیٰ اور ڈی کے شیوکمار کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ شیوکمار کے قریبی حلقے مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اعلیٰ قیادت کی جانب سے ’’آدھا آدھا دور‘‘ کا وعدہ کیا گیا تھا، یعنی ڈھائی سال بعد وزارتِ اعلیٰ شیوکمار کو سونپی جائے گی۔سدّرامیا کے حامی اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔
اس کشیدگی نے اب کھلے اختلاف کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پارٹی صدر ملیکارجن کھڑگے نے کل صحافیوں سے گفتگو میں کہا:
“ہم اس معاملے کو حل کریں گے۔ راہول گاندھی، سونیا گاندھی اور میں مل کر اس پر غور کریں گے اور ضروری ثالثی کریں گے۔”
گزشتہ ہفتے کھڑگے نے بنگلورو میں دونوں لیڈروں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، مگر بحران جوں کا توں ہے۔
ہائی کمان کی بے بسی اور مینجمنٹ کی ناکامی
پارٹی کے اندر یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ کانگریس مینیجرز— رندیپ سنگھ سرجے والا اور کے سی وینوگوپال— صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک سینئر سیاسی مبصر کے مطابق:
“نہ وہ سدّا رمیاسے سخت بات کر سکتے ہیں اور نہ شیوکمار کو انتظار کے لیے منا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایم ایل ایز کے حمایت یافتہ نمبرز بھی نہیں گنے گئے۔ بظاہر زیادہ تر ایم ایل ایز سدّرامیا کے ساتھ نظر آتے ہیں۔”
پارٹی کے ایک اندرونی ذریعے نے کہا کہ فی الحال سدّا کے خلاف کچھ ٹھوس نہیں ہے اور ’’کانگریس کی جیت میں جتنا کردار ڈی کے ایس کا تھا اتنا ہی سدّا کا بھی تھا‘‘۔
ذات پات اور سیاسی حساسیت
کانگریس اس وقت صرف تین ریاستوں — کرناٹک، تلنگانہ اور ہماچل — میں برسراقتدار ہے۔
تلنگانہ اور ہماچل کے وزرائے اعلیٰ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ سدّرامیا او بی سی برادری سے آتے ہیں۔
راہول گاندھی جو مسلسل کاسٹ سینسس اور اوبی سی، دلت اور مسلم نمائندگی میں اضافہ کی بات کرتے رہے ہیں، ان کے لیے ایک او بی سی وزیر اعلیٰ کو ہٹانا خود ان کی سیاسی مہم کے خلاف جاتا ہے۔
ماضی کی قیمت اور موجودہ خطرات
کانگریس 35 سال قبل بھی کرناٹک میں اسی غلطی کی بھاری قیمت چکا چکی ہے، جب ویرندر پاٹل کو اچانک عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، جس نے لِنگایت کمیونٹی کی شدید ناراضگی کو جنم دیا اور بی جے پی کو مضبوط داخلہ ملا۔
اسی فیصلے کے بعد کچھ ہی عرصے میں بی جے پی نے 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں چار سیٹیں جیت لی تھیں اور پھر مسلسل ترقی کی۔
اسی طرح پنجاب میں امریندر سنگھ کی جگہ چرن جیت سنگھ چنی کو لانے کا فیصلہ بھی پارٹی کو مہنگا پڑا اور عام آدمی پارٹی کو بھاری فائدہ ملا۔
ڈی کے ایس کا اسکور کارڈ
کانگریس کے اندر یہ بات وسیع طور پر مانی جاتی ہے کہ ڈی کے ایس جماعت کے بڑے فنڈ ریزر ہیں اور پرینکا گاندھی کے سب سے قریب سمجھے جاتے ہیں۔اسی لیے پارٹی ان کی ناراضگی کو ہلکا نہیں لے سکتی۔
شیوکمار کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ’’آخری حد تک لڑنے‘‘ کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب، سدّرامیا نے اب تک شیوکمار کے خلاف کوئی تلخ بیان نہیں دیا، مگر چند روز قبل انہوں نے کہا:
“ہائی کمان کو اس مسئلے پر فوری طور پر فل اسٹاپ لگا دینا چاہئے۔”
اسٹیج تیار: شیوکمار کا راستہ — سندھیایا پائلٹ؟
کانگریس کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ شیوکمار جیوترآدتیہ سندھیاکے راستے پر چلیں گے — یعنی پارٹی چھوڑ دیں،یا سچن پائلٹ کی طرح انتظار کریں اور اندر ہی اندر لڑائی جاری رکھیں۔
اگر ہائی کمان مداخلت کرتی ہے تو سدّرامیا ہٹائے جانے کی صورت میں اپنے قریبی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کریں گے۔
کرناٹک اس وقت کانگریس کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔
لیکن اگر قیادت بحران شدت اختیار کرتا ہے تو معاملہ محض ایک ریاستی اختلاف نہیں رہے گا بلکہ پارٹی کے مستقبل، راہول گاندھی کی امیج اور 2026 کی سیاسی تیاریوں پر گہرے اثرات ڈالے گا۔



