کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے

چوتھے اور پانچویں راؤنڈ پر شاید جن حادثوں نے مودی صاحب کو دامن بھی تار تار گریباں بھی چاک چاک کرنے پر مجبور کردیا ان میں سے ایک تو سیکڑوں چوٹی کے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کا ماؤلنکر ہال میں جمع ہوکر وہ سب کہہ دینا جسے عدم اعتماد سے کم نہیں کہا جاسکتا۔ مودی کے لیفٹیننٹ راج ناتھ سنگھ اور ارون جیٹلی نے حکومت کے نشہ میں آکر ان سب کو کانگریس کے کھلونے کہہ کر اپنے کو پاک دامن ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے ہی جال میں پھنستے چلے گئے اور بعد میں راج ناتھ سنگھ نے کہہ دیا کہ وہ تمام دانشور جو عدم رواداری، عدم تحمل، اظہار رائے اور پریس کی آزادی کو خطرہ میں محسوس کررہے ہیں وہ تشریف لائیں۔ میں ان سے تمام کاموں کو چھوڑکر دن بھر بات کرنے کے لئے تیار ہوں۔
ماؤلنکر ہال میں جو ہر زبان کے آفتاب و ماہتاب اور کہکشاں جمع ہوئی تھی ہم ان کے برابر نہیں ہیں لیکن ہم نے بھی ڈیڑھ سال میں یہ دیکھا ہے کہ ملک میں شخصی حکومت ہے۔ ایسی ہی جس کی ابتدا مسز اندرا گاندھی نے کی تھی اور جس کے متعلق یہ تبصرہ ہر زبان پر تھا کہ اندراجی کی حکومت میں صرف ایک مرد ہے جس کا نام اندرا گاندھی ہے۔ کچھ ایسی ہی 2014 ء کے الیکشن میں دیکھا تھا اور اسی سال کے آخر میں یہ بھی دیکھا تھا کہ راج ناتھ سنگھ پارٹی کے صدر بننا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم نے حکم دیا کہ صدر امت شاہ ہوں گے اور راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ ہوں گے جبکہ ہم نے وہ جمہوریت دیکھی ہے کہ 1966 ء میں کامراج صاحب صدر تھے وہ اتنے طاقتور تھے کہ اندرا گاندھی کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے من مانی کرنے کے لئے کانگریس چھوڑکر اندرا کانگریس بنانا پڑی تھی۔ گذارشات کا مقصد صرف یہ ہے کہ دانشوروں سے بات جب ہونا چاہئے جب مودی صاحب بلائیں اور اس گفتگو میں موہن بھاگوت صاحب بھی شریک ہوں اور جو یقین دہانیاں کرائی جائیں ان پر دستخط بھی دونوں کے ہوں اور مہر بھی دونوں کی ہو۔
مودی صاحب کو جھنجھوڑ دینے والے دوسرے اور تیسرے حادثوں میں اُترپردیش میں ہونے والے پنچایت کے نتیجے بھی ہیں۔ وہ اُترپردیش جس میں پارلیمنٹ کی 80 سیٹوں میں سے 73 سیٹیں ملی تھیں اور جو سات سیٹیں انہیں نہیں ملی تھیں ان میں سے دو اُن کی دشمن پارٹی کانگریس کو نہیں ملیں بلکہ ایک ماں کو ملی دوسری بیٹے کو۔ اور جو پانچ سپا کی کہی جارہی ہیں ان میں سے بھی کوئی سماجوادی پارٹی کو نہیں ملی شری ملائم سنگھ، اُن کی بہو، ان کے پوتے اور دو رشتے کے بھائیوں کو مل سکیں یعنی ووٹروں نے کنبہ نوازی کی پارٹی کی پالیسی کو نہیں نوازا۔ اور یہ اس حال میں ہوا کہ سماجواد کی ٹھیکہ دار کہی جانے والی پارٹی نے ملائم سنگھ کے لئے ایک ایک کروڑ روپئے خرچ کرکے پنچ بنائے تھے اور پورے الیکشن میں وہ ہیلی کاپٹر میں ہی گھومتے رہے جس کا کرایہ ایک گھنٹہ کا ایک لاکھ پچاس ہزار ہوتا ہے۔ اسی اُترپردیش میں سماجوادی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کو کسی پارٹی نے اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن بی جے پی نہ یہ سمجھ کے اپنے نام سے الیکشن لڑایا کہ ہمیں کون ہرا سکتا ہے؟ لیکن اس کا اسی طرح صفایا ہوگیا جیسا صفایا ڈیڑھ سال پہلے اس نے ہر پارٹی کا کیا تھا اور انتہا یہ ہے کہ بنارس کے جس گاؤں کو مودی صاحب نے گود لیا تھا اسی گاؤں میں ان کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہا۔
اور یہ حادثہ وہ کیسے برداشت کرسکتے تھے کہ مہاراشٹر میں گائے، بیل اور بچھڑوں کے ذبیحہ پر پابندی لگاکر یہ چاہا تھا کہ شیوسینا کو کوڑے دان میں ڈال دیں لیکن وہ مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی سے آگے ہوگئی۔ تاریخ کی یہ اُلٹی گنتی کسی وزیر اعظم کی نہ سنی نہ دیکھی۔ پنڈت نہرو سے لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ تک یہی دیکھا کہ دو چار سال تو قصیدوں میں ہی گذرے اور شکایات کی ابتدا کئی سال کے بعد ہوئی۔ لیکن مودی صاحب تو ایسے وزیر اعظم ہیں جو صرف اپنے بل پر 280 سیٹیں جیت کر لائے تھے اور انہوں نے اس مسلّمہ کو ’’کہ اب دور سنگل پارٹی کا نہیں رہا‘‘ غلط ثابت کردیا تھا وہ ٹھیک ایک سال کے بعد زوال کی سیڑھی پر قدم بہ قدم اُتر نہیں رہے بلکہ لڑھکتے ہوئے آئے اور دہلی کی اسمبلی ہارکر مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات میں ہارے اور اُترپردیش کی پنچایتوں میں تو صاف ہی ہوگئے۔
ایک بات تمام سیاسی پارٹیوں سے عرض کرنا ہے کہ بے وجہ جو یوپی، بہار اور بڑے صوبوں میں پانچ یا سات یا چار اور تین راؤنڈ میں الیکشن کرایا جاتا ہے یہ اس وقت تو ٹھیک تھا جب کہیں مار پیٹ ہوجاتی تھی کہیں بیلٹ باکس لوٹ کرلے جاتے تھے کہیں دبنگ کمزوروں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیتے تھے اور اپنے ساتھیوں براتیوں سے فرضی ووٹنگ کرالیتے تھے۔ لیکن اب جبکہ بہار کے پانچوں راؤنڈ میں کوئی ایک بھی سنگین واردات نہیں ہوئی تو دو مہینے صرف الیکشن کا ماحول طاری کرائے رکھنا اور بڑے لیڈروں کا قیمتی وقت برباد کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ بہار میں زیادہ سے زیادہ دو راؤنڈ میں ہوجانا چاہئے۔ ایک راؤنڈ وہ جو نکسلی اور ماؤوادی سے متاثر اضلاع میں ہو اور دوسرا وہ جو پرامن علاقہ ہو۔ یہ پانچ راؤنڈ میں کرانے کا ہی نتیجہ ہے کہ تین راؤنڈ کے بعد ماہر الیکشن بازوں نے سمجھ لیا کہ رائے دہندگان کا رُخ کس طرف ہے۔ یہ چوتھے اور پانچویں راؤنڈ کا تحفہ ہے کہ وزیر اعظم جیسے ملک کے سب سے بڑے عہدیدار 31 سال پرانے سکھوں کے خلاف فساد کا ذکر کرکے کہیں کہ کانگریسیوں کو ڈوب مرنا چاہئے جبکہ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ اس وقت اندرا گاندھی اتنی ہی طاقتور وزیر اعظم تھیں جتنے آج مودی صاحب ہیں۔ اگر آج کوئی سکھ ان کے ساتھ وہ کردے جو دو سکھوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ کیا تھا تو شاید پورے پنجاب میں ڈھونڈے سکھ نہ ملے گا۔ ایک وزیر اعظم کو گولیوں سے چھلنی کردینا کوئی معمولی حادثہ تھا؟ رہی یہ بات کہ جو سکھ قتل ہوئے ان کا کیا قصور تھا تو اس کا جواب تو مودی صاحب کے پاس بھی نہیں ہے کہ انہیں اگر گودھرا کے مسلمانوں سے شکایت تھی تو احمد آباد اور سورت کے مسلمانوں کی لاشوں کے کیوں ڈھیر لگ گئے؟ اور مودی صاحب وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے کیوں ہونے دیا؟
الفاظ اور لہجہ صرف وزیر اعظم نے نہیں بگاڑا۔ وہ لالو یادو جو آج صرف اپنی پارٹی کے سرپرست ہیں انہیں جب مودی صاحب نے کہا کہ ان کی دونوں کی حکومت کے اب چھ دن اور رہ گئے ہیں تو جواب میں لالو یادو نے کہہ دیا کہ میں وزیر اعظم مودی کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دوں گا۔ بی جے پی کے صدر شری امت شاہ نے الزام لگا دیا کہ اگر نتیش جیت گئے تو پاکستان میں پٹاخوں سے خوشی منائی جائے گی۔ یا ان کی حکومت بن گئی تو گاؤں گاؤں اور ہر گلی میں گائے کے گوشت کی دکانیں کھل جائیں گی۔ ایک حکمراں پارٹی کا صدر اور اتنی گھٹیا بات کہے۔ جبکہ آج ہی نہیں دس برس سے نتیش کمار کی حکومت ہے اور برسوں سے لالو اور نتیش بھائی بھائی ہیں۔ اس وقت گائے کے گوشت کی کتنی دکانیں کھلی ہیں؟ ان باتوں کے جواب میں نتیش کی طرف سے یہ الزام کہ 2014 ء کے الیکشن میں پاکستان سے مودی نے مدد مانگی تھی اور ڈان اخبار میں عمومی چندہ کا اشتہار چھپوایا تھا۔ یہ تمام شرمناک الزام اور ان سے زیادہ شرمناک جواب صرف اس لئے کہ چوتھے اور پانچویں راؤنڈ کے لئے وقفہ مل گیا۔ الیکشن کمیشن کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایک وزیر اعظم کا ایک صوبہ میں ایک ورکر کی طرح ایک مہینہ تک بار بار دہلی چھوڑکر ریلی کو خطاب کرنے کے لئے جانے سے ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ جب اتنی فوج اور نیم فوجی جوان اسلحہ سے لیس نگرانی کررہے ہوں تو کہیں پانچ اور کہیں سات یا کہیں چار اور تین راؤنڈ وقت کی بربادی نہیں تو کیا ہے؟

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے