جب کوئی قوم اپنے امتیازی تشخص ،مذہبی شعائر و عقائد کے ساتھ ساتھ اپنے اکابرین کی حرمت کو سینت ،سنبھال کر کرھنے کی بجائے اسے رنگ برنگی جھنڈی بنا کر تقدس اسلام کے مرقد پر رسم و رواج،لہو و لعب کا تماشہ بنا کر ٹانگ دیتی ہے تو پھر بدعت و خرافات کے کالے ناگ اپنا پھن اٹھا کر اس امت پر مسلط ہوجاتے ہیں ۔اور رہ رہ کر اپنا زہر پھینکتے رہتے ہیں ۔ آج کا ہندوستانی مسلمان ،اور اس کے ابتر حالات انہیں حالات کے شکار ہوچکے ہیں ۔ اس پر سب سے بڑی قیامت یہ ہے کہ ان سب کے باوجود برادران وطن کے سامنے اسلام کی اصلی شکل اور اس کی روح کو ٹھیک ٹھاک پیش کرنے سے مسلمان قاصر ہے،اور سارا دین جشن شازی،مزار و چادر،پیر و مرشد،حلیم و دلیم اور شیر و شربت کی نذر ہوچکا ہے ۔ اور مسلمان ان تمام لغویات کا برانڈ ایمبیسیڈر بن چکا ہے۔ محرم الحرام کے اس با برکت مہینے میں بچپن سے یہ شعر سنتی آرہی ہوں ۔لیکن اس کے معنی و مطلب سے آگاہی نہ تھی ۔اب جب ان اشعار کا مطلب سمجھ آیا تو ضمری کچوک یلگاتا ہے کہ سب کی طرح تمم نے بھی یہ راگ و الاپ سننا ہے اور سن کر محظوظ یا خاموش ہوجانا ہے ۔ اس لیے لکھ رہی ہوں ………. اللہ مغفرت فرمائے مولانا محمد علی جوہر کی یہ کیسا شعر کہہ گئے قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد میں سمجھتی ہوں اور پھرخود ہی جواب دیتی ہوں ……. اسلام کب زندہ ہوتا ہے ؟ اسلام تب زندہ ہوتا ہے ………..جب بوڑھی سمیہ ؓاسلام کی خاطر بڑی بے دردی سے شہید کردی جاتی ہیں اور جواں قوم کے لئے شہادت کا اسوہ اور صبر ا استقامت کی لازوال داستاں پیچھے چھوڑ جاتی ہیں ۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے ………..جب گیارہ سالہ زبیر ؒ بن عوام نبی ﷺ کی گرفتاری کی افواہ پر ننگی تلوار لے کر مکہ کی گلیوں میں دشمونوں کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں ۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..جب حق و باطل کے کارزار مین امین امت ابو عبیدہ ؓ بن جراح کی تلوار سگے باپ کو بھی نہیں بخشتی اور گردن دھڑ سے جدا کردیتی ہے۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..جب کوئی صدیق اکبر ؓ اول تا آخر نبی ﷺ کا سایہ بن کر ان کی حفاظت کرتا ہے او ران کے بعد اپنی پوری زندگی مرتدین اسلام اور مانعین زکاۃ کی شر انگیزیوں کے خلاف بر سر پیکار رہتا ہے۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..جب عمر فاروق ؓ جیسا کوئی جری ببانگ دہل اپنے ایمان کو لوگوں کے لیے چیلنج بنا کر پیش کرتا ہے ،حق و باطل کو چیر کر الگ الگ کردیتا ہے،دین کے نٖفاذ میں کسی قسم کی رعایت بہیں دیتا۔عرب و عجم میں اپنی اور اپنے اصحاب کی کم مائیگی کے ساتھ اسلام کا رعب اور اس کی ہیبت سے لرزاں بر اندام رکھتا ہے۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..جب عثمان ؓ جیسا غنی اپنی ساری دولت ملت پر وار دیتا ہے ،کبھی مسجد تو کبھی پانی کا کنواں کبھی جنگی ساز و سامان امت کے لئے ہر چیز وقف کرتا رہتاہے ۔اور خود شہادت سے پہلے بوند بوند پانی کو ترسایا جاتا ہے ۔جس نے اپنے ہی گھر میں دشمنوں کے ہاتھوں اپنی جان دے دی تاکہ امت فتنوں سے محفوظ رہ سکے ،اسلام تب زندہ ہوتا ہے۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..جب علی ؓ جیسا شہسوار تلواروں کے سائے میں فراش نبوی پر لیٹ جاتا ہے ، جو آںکھوں کی سوزش لیے درہ خیبر کو ایک جھٹکے میں اکھاڑ پھینکتا ہے۔جب آپ جیسا جنگجو میدان بدر میں ایمان و یقین کے ہتھیار سے لیس ہوکر کافروں کے سر گردنوں سے الگ کرتے پھرتا ہے ۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..اختلاف و انتشار سے پر فتنوں کے دور میں جب کوئی امیر معاویہ ؓ جیسا بردبار،حلیم الطبع کھڑا ہوتا ہے اور بیس سال تک امت کو ایک ہی علم کے سائے میں متحد رکھنے میں پوری طرح کامیاب رہتا ہے ۔ اسلام تب زندہ ہوتا ہے………..جب ہجرت کے بعد نو آبادیات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو یہ بڑے دل والے ایثار و قربانی کی ایک انوکھی داستان رقم کرتے ہیں ۔بلا کسی قانون ،فورس اور آرڈیننس کے مہاجرین کو انصار محض ایک نبوی اپیل ’’بھائی بھائی بن جائو ‘‘ پر خود میں یو ں ضم کرلیتے ہیں جیسے شیر و شکر ۔رضی اللہ عنھم اجمعین واقعہ کربلا تو اسلام کا وہ عظیم سانحہ ہے جس نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ، جس کی تلافی تا قیامت نہیں کی جا سکتی ۔اس امت میں ایسی تفرقہ بازی ہوئی جس کا سلسلہ آج تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ،دین کے نام پر غلو پرستی ،شخصیت پرستی اور عجیب و غریب قسم کی بدعتیں ایجاد کی گئیں ۔ کیا یہی وہ مقام ہے جہاں اسلام زندہ ہورہا ہے ؟
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں