شری ماتا ویشنو دیوی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایکسیلنس، کٹرہ، میں 2025–26 کے لیے پہلی ایم بی بی ایس بیچ کی 50 نشستوں پر داخلہ فہرست جاری کی گئی تو معلوم ہوا کہ 42 منتخب طلبہ مسلم، 7 ہندو اور 1 سکھ ہے۔ داخلہ عمل نیشنل میڈیکل کمیشن کے اصول اور نیٹ میرٹ کے تحت، اور 85 فیصد نشستیں جموں و کشمیر کے مقامی ڈومیسائل اور 15 فیصد آل انڈیا اوپن کوٹے کیلئے مختص تھیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ادارہ کسی بھی طور پر اقلیتی تعلیمی ادارہ قرار نہیں دیا گیا، اس لیے مذہب کو بنیاد بنا کر داخلوں میں فرق روا نہیں رکھا جا سکتا۔
فہرست سامنے آنے کے بعد وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، راجپوت اور دیگر ہندو تنظیموں نے کٹرہ میں احتجاج، مظاہرے اور بورڈ حکام کی علامتی انتقام سوزی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ درگاہ کی عطیات سے چلنے والے ادارے میں ہندو طلبہ کو ترجیح ملنی چاہیے۔ اسی تناظر میں بی جے پی کے لیڈر آف اپوزیشن سنیل شرما کی قیادت میں وفد نے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کر کے میمورنڈم پیش کیا جس میں ”کسی ایک مخصوص برادری کے غلبے“ پر اعتراض اور قواعد میں ترمیم کے ذریعے داخلہ فہرست منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سنہا، جو شری ماتا ویشنو دیوی شرائن بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں، نے وفد کو ”ضروری کارروائی“ کی یقین دہانی کرائی جسے بی جے پی حلقوں نے میمورنڈم کی منظوری کے طور پر پیش کیا۔
نیشنل کانفرنس نے اس اقدام کو ”تقسیمی اور فرقہ وارانہ“ قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر اسپتال، اسکول اور یونیورسٹیاں مذہب کی بنیاد پر داخلہ دینے لگیں تو ملک کی شکل کیا رہ جائے گی اور میرٹ کہاں جائے گا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے الزام عائد کیا کہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اب تعلیم کے شعبے تک پہنچ چکا ہے اور اسے منظم پالیسی کی شکل دی جا رہی ہے۔ دیگر رہنماؤں، بشمول سجاد لون اور سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ، نے کہا کہ میڈیکل سائنس کو مذہبی شناخت کے بجائے تحقیق اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور اگر درگاہی فنڈز کو بھی مذہبی کوٹہ بنانے کیلئے استعمال کیا گیا تو آئینی سیکولرزم عملاً بے معنی ہو جائے گا۔
سرکاری اور آزاد تجزیہ کار اس معاملے کو میرٹ بمقابلہ مذہبی مطالبات کے بڑے قومی مباحثے کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ داخلہ فہرست جے کے بی او پی ای ای کے ذریعے نیٹ رینک کی بنیاد پر تیار ہوئی جس میں وادیٔ کشمیر کے طلبہ، خصوصاً مسلم امیدوار، بہتر میرٹ کی وجہ سے زیادہ تعداد میں منتخب ہوئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں مذہبی تناسب کو بنیاد بنا کر رولز میں تبدیلی کی گئی تو یہ محض ویشنو دیوی ادارے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دوسرے شرائن فنڈیڈ اور عوامی اداروں کیلئے بھی خطرناک نظیر ثابت ہو سکتی ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ جب تک کوئی ادارہ سرکاری طور پر اقلیتی درجہ حاصل نہ کرے، اس کے لیے مذہبی بنیادوں پر داخلہ پالیسی بنانا آئین کے مساوی شہری حقوق اور تعلیم کے حق سے متصادم ہو سکتا ہے۔ نیشنل میڈیکل کمیشن کے قواعد واضح کرتے ہیں کہ میڈیکل کالجوں میں داخلہ نیٹ میرٹ اور ریزرویشن پالیسی کے مطابق ہی ہو سکتا ہے اور کسی ایک مذہبی برادری کے حق یا مخالفت میں الگ ضابطہ لانا مشکل قانونی چیلنجوں کو جنم دے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے میمورنڈم کے مطابق داخلہ رولز میں ترمیم کی تو وہ اسے عدالت میں چیلنج کریں گی۔




