فیصلے کی دہلیز پر
مفتی اشفاق قاضی
(بانی و ڈائریکٹر فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر)
دنیا کا تجربہ اور شریعت کا سبق یہی ہے کہ جب بھی دو یا تین افراد مل کر کاروبار شروع کرتے ہیں، تو صرف سرمایہ یا ذہانت ہی کافی نہیں ہوتی، بلکہ باہمی اعتماد، شفاف معاہدہ اور شرعی اصولوں کی پاسداری ضروری ہے، ورنہ وہی کاروبار جو ترقی کی راہ پر گامزن ہو، چند مفاد پرست اقدامات کے سبب تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ تین دوستوں کی کہانی ہے وہ تین ایسے تھے، جیسے سایہ، جسم اور روح ۔۔ تعلیم سے کاروبار تک، رفاقت سے شراکت تک۔ مگر پھر دولت آئی۔۔۔اور آزمائش ساتھ لائی ۔دونے چالاکی اپنائی، اور تیسرے نے وہ کر دکھایا جوہم صرف کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔۔۔اس نے حق پر ہوتے ہوئے اپنا حق جنت کے وعدے پر چھوڑ دیا اور کامیاب ہوگیا۔
یہ واقعہ ان تین دوستوں کا ہے جنہوں نے تعلیم کے دور سے تعلقات کو بنیاد بنا کر ایک کاروبار کا آغاز کیا۔ مقصد یہ تھا کہ بڑی زیراکس مشینیں خرید کر مختلف سرکاری محکموں میں مہیا کی جائیں، جس کے بدلے ماہانہ مشاہرہ حاصل ہو۔ کاروبار کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، صرف زیراکس نہیں بلکہ پرنٹر، اسکینر اور دیگر مشینوں کی سپلائی تک سلسلہ آگے بڑھا اور کمپنی ترقی کرتی چلی گئی ۔ پہلی کمپنی اندھیری میں قائم ہوئی، جہاں سے تینوں پارٹنر کاروبار کو آگے بڑھاتے گئے۔ ایک صاحب سرمایہ کار تھے، دوسرے کے سرکاری محکمات میں تعلقات تھے، اور تیسرے شاہین (فرضی نام) تنہا دن رات محنت کرنے والے شخص تھے، اگرچہ تینوں کا نفع طے شدہ تناسب سے تھا، لیکن اصل جدوجہد اور مینیجمینٹ کی ذمہ داری شاہین کے کاندھوں پر تھی، وقت کے ساتھ ترقی کا سفر جاری رہا اور اسی ترقی کے دوران واشی میں بھی اس کمپنی کی ایک دوسری شاخ کھولی گئی۔ چونکہ ایک ہی فرد کے لیے دو جگہ کا نظم سنبھالنا مشکل تھا، اس لیے دوسرے دو پارٹنر خلیق الرحمٰن اور منور انصاری (فرضی نام) نئی شاخ سنبھالنے لگے لیکن پیسوں کی ریل پیل اور ترقی سے نیت میں فتور آگیا، دوستی میں مفاد پرستی غالب آنا شروع ہوگئی، جلد ہی اندازہ ہونے لگا کہ واشی کمپنی کی آمدنی مکمل طور پر کمپنی اکاؤنٹ میں نہیں آ رہی بلکہ نجی اکاؤنٹس یا غیر مصدقہ ذرائع سے رقومات ہضم کی جارہی ہیں، اختلافات کی ابتداء ہوئی، انتشار بڑھنے لگا، آپس میں یہ لوگ معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، کئی جگہ میٹنگیں ہوئیں، حالات یہ تھے کہ عنقریب وہ عدالت چلے جاتے مگر جب حالات قابو سے باہر ہوئے، تو فریقین فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر، جامع مسجد ممبئی سے رجوع ہوئے۔ تینوں سے انفرادی طور پر تفصیلی گفت و شنید کی گئی۔ شاہین اپنی محنت اور کھاتوں کا شفاف ریکارڈ پیش کر رہے تھے، جبکہ دوسرے دو شریک نقصان کے دعوے اور طرح طرح کے دلائل کے ساتھ آئے۔ ان کی کوشش تھی کہ اندھیری کی کامیاب کمپنی کے منافع پر بھی قبضہ کیا جائے اور واشی کی بد انتظامی کا بوجھ بھی شاہین کے سرپر ڈال دیاجائے، ہم نے استخارہ کیا، تدابیر سوچی اور ان سے کئی میٹنگوں کے بعد یہ فیصلہ کیا اگر انصاف کی بنیاد پر ہر ایک کا سو فیصد حق دیا گیا تو معاملہ کبھی حل نہیں ہوگا، اور عدالتوں کی راہ لی جائے گی جہاں وقت، پیسہ، عزت سب داؤ پر لگ جائیں گے ۔ لہٰذا حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں شاہین کو یہ نصیحت کی گئی کہ ’’میں جنت کے وسط میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں اس کے لیے جو حق پر ہوتے ہوئے حق کو چھوڑ دے‘‘ ۔ ابتدا میں شاہین کے لیے یہ تلخ فیصلہ تھا، لیکن اللہ کی رضا کی خاطر انہوں نے نہ صرف صبر کا مظاہرہ کیا بلکہ معاملات کو مفاہمت سے طے کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ 29 جولائی 2022 کو آخری نشست میں نفع و نقصان کے حساب و کتاب طے کئے گئے، ایک معاہدہ لکھا گیا، دستخط لیے گئے، مشینیں، رقم اور دیگر ذمہ داریاں تقسیم ہوگئیں، شاہین کو وقتی طور پر نقصان ضرور ہوا، لیکن انہوں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے نئی راہ اختیار کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کاروبار میں وہ چھ سال کی محنت کے باوجود محدود نفع حاصل کر پائے تھے، اسی جیسی نئی کوشش میں صرف چھ ماہ کی قلیل مدت میں اس سے زیادہ نفع حاصل کر گئے۔ ان کا کاروبار پھلتا پھولتا رہا، کیونکہ وہ امانت دار، محنتی اور سچائی پر قائم رہنے والے انسان تھے۔اس کے برخلاف، جن دو دوستوں نے جھوٹ، چالاکی، عیاری اور دھوکہ دہی کا راستہ اپنایا تھا، وہ نہ صرف اپنے مخلص دوست سے محروم رہے بلکہ کاروبار بھی ایک سال کے اندر خسارے کی نذر ہوگیا۔ ملازمین چھوڑ گئے، اکاؤنٹس بگڑ گئے، اور شراکت داری کے درمیان نئے اختلافات نے جنم لے لیا اور وہ برباد ہوگئے۔
یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے سبق ہے جو مشترکہ کاروبار کا حصہ بنتا ہے۔ شراکت داری صرف نفع کی نہیں، بلکہ اعتماد، شفافیت اور دیانت کی بنیاد پر قائم رہتی ہے۔ جب کوئی حق پر ہوتے ہوئے بھی نرمی دکھاتا ہے، تو اللہ اس کے لیے وسیع رزق، سکون اور ترقی کے دروازے کھول دیتا ہے۔اللہ کا نظام ایسا ہے کہ جو اخلاص، امانت اور صبر کے ساتھ معاملات انجام دیتا ہے، اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں فلاح لکھی جاتی ہے۔ اور جو فریب، خیانت اور ظلم سے راستہ چنتا ہے، وہ انجام کار خسارے کا شکار ہوتا ہے۔
شرکاء اور پارٹنرز کے درمیان اعتماد و امانت داری اور سچائی بہت ضروری ہے ورنہ یہ شراکت اور پارٹنرشپ ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کاروبار سے برکت نکل جاتی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میں دو شریکوں کا تیسرا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک، دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرے، اور جب کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں‘‘۔
لہذا اگر شراکت داری اور پارٹنرشپ میں بزنس کرنا ہے تو خیانت، چوری، جھوٹ، دغا اور بے اعتمادی سے بچنا ہوگا ورنہ اس طرح کی شراکت اور پارٹنرشپ زیادہ عرصہ جاری نہیں رہتی اور جو دھوکہ دیتا ہے وہ ظاہراً خوب مال کما لے، خوب پیسے جمع کر لے، خوب شہرت حاصل کرلے لیکن بہت جلد وہ ذلت و رسوائی کی عمیق اور گہری کھائی میں جا گرتا ہے، دنیا کا بھی نقصان اٹھاتا ہے اور آخرت کے بھی بہت بڑے خسارے میں ہوتا ہے۔
’’اگر آپ کے اردگرد بھی خاندانوں، بھائیوں، دوستوں، شراکت داروں ،اداروں یا جوڑوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔۔۔اگر طلاق، خلع، وراثت، مالی تنازعات یا ذہنی دباؤ آپ کی زندگی کو الجھا رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کا سوچ رہے ہیں، جہاں صرف روپیوں کا ضیاع نہیں، رشتے بھی ٹوٹتے ہیں ۔۔۔ تو ذرا ایک لمحے کو ٹھہرئیے۔۔۔۔نفرت کی دیوار کھڑی کرنے سے پہلے، محبت کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کیجئے۔۔۔۔فیملی فرسٹ گائیڈنس سینٹر نے بے شمار ٹوٹتے رشتوں کو جوڑا ہے۔۔۔بھائیوں کے درمیان صلح کروائی ہے۔۔۔اداروں کے درمیان مفاہمت کی راہیں نکالیں ہیں۔۔۔ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد کو نئی زندگی دی ہے۔۔۔اور یہ سب کچھ قرآن و سنت کی روشنی، صبر و حکمت، ہمدردانہ مشورے ،مکمل رازداری اور وقار کے ساتھ حل کئے گئے ہیں ۔تو اگر آپ بھی کسی آزمائش میں ہیں، یا جانتے ہیں کوئی ایسا خاندان یا ادارہ جو الجھنوں میں گھرا ہے تو رابطہ کیجئے۔شاید۔۔۔اگلی کہانی آپ کی ہو جو ٹوٹنے سے بچ جائے‘‘۔۔!




