بدگمانی، طعن وتشنیع، چغل خوری کی طرح جھوٹ بولنا بھی ان دنوں عام ہے اور اسے گناہ ہونے کا خیال لوگوں کے دلوں سے نکل گیا ہے، لوگ کثرت سے جھوٹ بولتے ہی نہیں، جھوٹ لکھتے بھی ہیں اور جھوٹی گواہی بھی دیا کرتے ہیں، ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرآن واحادیث میں مذکور ہے اور جس بات کو اللہ کے رسول کہہ دیں اس سے سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلی الکَاذِبِیْنَ۔ اللہ کی لعنت کریں ان پر جو جھوٹے ہیں، (سورۃ آل عمران: ۶۱) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (سورۃ مؤمن: 28)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جھوٹ سے بچتے رہو، اس لیے کہ جھوٹ فسق وفجور اور جہنم کی طرف لے جانے والی چیز ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے بالآخر اللہ رب العزت کے یہاں اس کا نام جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے، جھوٹ کی شناعت بیان کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آدمی کے جھوٹ بولنے کی بد بو کی وجہ سے رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں، ایک حدیث میں منافق کی تین علامتوں میں سے ایک جھوٹ کو قرار دیا گیا اور تینوں علامتوں کے ذکر میں سر فہرست اسے رکھا گیا، فرمایا: اذا حدث کذب۔ اور دوسری حدیث میں منافق کی چار علامتیں بیان کی گئیں، اس میں دوسرے نمبر پر اس جملہ کو رکھا گیا، اس سے جھوٹ کی شناعت کا پتہ چلتا ہے، مسند احمد اور بیہقی کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے اور مؤمن جھوٹی خصلت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا، مسند احمد ہی میں ہے کہ ایک دل میں سچ اور جھوٹ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔
ان دنوں سماج میں مختلف قسم کے جھوٹ رائج ہیں، جھوٹ بولنا تو عام سی بات ہے، جھوٹ لکھنا بھی اسی میں شامل ہے، دفتر کا وقت جو مقرر ہے، وقت پر نہ آکر آمد میں اس وقت کا اندراج کرنا، یا رفت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے جا کر وقت کے کالم میں دفتر کا آخری وقت بھرنا، یہ جھوٹ لکھنا ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کسی کے بارے میں جانتے ہوں کہ اس کے اخلاق وعادات ٹھیک نہیں ہیں، مگر کیرکٹر سرٹیفیکٹ میں اس کے بر عکس لکھنا تحریری جھوٹی گواہی دینے کے زمرے میں آتا ہے۔جھوٹی سفارش کرنا، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِکہہ کر جھوٹی باتوں سے بچنے کو کہا ہے، تجارت میں عیب دار سامان کو درست اور نقلی کو اصلی کہہ کر فروخت کرنا جھوٹ کی ایسی قسم ہے، جس میں جھوٹ کے ساتھ فریب اور دھوکہ بھی پایا جاتا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ بد گمانی سے بچو، کیوں کہ کسی کے خلاف بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، جھوٹ کی ایک قسم یہ بھی ہمارے یہاں رائج ہے کہ گھر سے نکلتے وقت بچے نے دامن پکڑااور کہا کہ ابا! ٹافی لیتے آئیے گا، آتے وقت ہم نہیں لائے تو یہ جھوٹے وعدہ جیسا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس قسم کے معاملات سے بچیں جس میں جھوٹ کا شائبہ بھی ہو، حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے پاس بلایا کہ وہ کچھ انہیں دیں گی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہارا کیا دینے کا ارادہ تھا، ان کی والدہ نے کہا کہ کھجور دینے کا ارادہ تھا، فرمایا: اگر تم اسے کھجور نہ دیتی تو تمہارے نامہئ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔
کسی بات کو حقیقت کے خلاف کہنا یا لکھنا جھوٹ کہلاتا ہے، جھوٹ کبھی تو دفع مضرت کے لیے بولا جاتا ہے اور کبھی جلب منفعت یعنی نفع کے حصول کے لیے، آج کل خوشامد کرنے والے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے خلاف واقعہ جو باتیں ذکر کرتے ہیں وہ بھی جھوٹ کی اعلیٰ قسم ہے، جو نفع کے حصول کے لیے بولا جاتا ہے، بزرگوں کے بارے میں ایسی کرامات کا بیان جو کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے اور اسے لوگوں میں عقیدت پیدا کرنے کے لیے مریدوں نے پھیلا دیے، یہ بھی جھوٹ ہے، جس کو آج کل لوگ جھوٹ سمجھتے ہی نہیں، جھوٹ بولنا کسی بھی طرح مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے، اس سے خود اس شخص کا وقار تو گرتا ہی ہے، پوری ملت کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوتی ہے، جھوٹ لکھنے کی ایک قسم ”حسابات کی تصنیف“ ہے، ٹی اے، ڈی اے اور سفر خرچ کے نام پر غلط اندراج کرنا اسی قبیل کی چیز ہے، بعض دفعہ حسابات کی یہ تصنیف اس قدر مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ اس کا جھوٹ روشن دن کی طرح عیاں ہوتا ہے، لیکن جھوٹ لکھنے والے کو توتصنیف کرنی ہے اور سفر خرچ کے نام پر زیادہ سے زیادہ روپے وصولنے ہیں اس لیے عقل بھی ماری جاتی ہے اور جھوٹ لکھنے کا وبال الگ ہوتا ہے، اسے کہتے ہیں دنیا کے متاع قلیل کے حصول کے لیے آخرت تباہ کرنا۔
جھوٹ کی یہ شناعت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب جھوٹا شخص صاحب اقتدار بھی ہو، ایسے شخص کی پہلی سزا تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے نظر کرم سے محروم ہوگا، باری تعالیٰ نہ تو اس سے بات کریں گے اور نہ ہی اس کو معاف کریں گے،ا س صورت حال کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے، مسند بزار کی ایک روایت ترغیب وترہیب میں یہ بھی منقول ہے کہ تین شخص جنت میں نہیں جا سکتے،بوڑھا، زنا کار، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔
جھوٹ بولنے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولا جائے، ایسے شخص کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تباہی اور بر بادی کی دعا کی ہے یہ روایت ابو داؤد اور ترمذی شریف دونوں میں مذکور ہے کہ جو شخص ہنسنے، ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے اس کے لیے بر بادی ہے، حدیث میں ”ویل“ کا لفظ آتا ہے، جو جہنم کے طبقوں میں سے ایک طبقہ بھی ہے۔
جھوٹ بولنے کو حدیث میں خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے اور خیانت بھی بڑی خیانت، کیوں کہ سامنے والا اس کی بات کو سچ مان رہا ہے، حالاں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے،ہمیں اچھی طرح یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جھوٹ ہلاک اور برباد کرنے والی چیز ہے، نجات صدق ہی میں ہے، فرمایا گیا: ”الصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالکِّذْبُ یُھْلِکْ“ سچ سے نجات ملتی ہے اور جھوٹ سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے، بچپن میں ہم لوگوں نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک چرواہا روز آواز لگاتا تھا کہ بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا، کئی روز تک لوگ اس کی آواز پر لوگ دوڑتے رہے اور اس کے جھوٹی آواز لگانے سے پریشان ہوکر لوٹتے رہے، عاجز آکر لوگوں نے اس کے شور کرنے کو جھوٹا سمجھ کر مدد کے لئے آنا چھوڑ دیا، ایک دن واقعتا بھیڑیا آگیا، اس نے بہت آواز لگائی، کوئی نہیں آیا، بالآخر بھیڑیے نے اپنا کام کرلیا اور اس کو ہلاک کرڈالا، اس کہانی کو پڑھا کر استاذ بتاتے تھے کہ اس سے سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور بے اعتمادی انسان کو ہلاکت کے دہانے تک پہونچا دیتی ہے۔
یہاں پر وہ مشہور روایت بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ایک صاحب جو بہت سارے گناہ میں ملوث تھے، اپنے گناہوں کا اقرار آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا اور یہ بھی عرض کیا کہ ایک ہی گناہ کو میں چھوڑ سکتا ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھوٹ چھوڑنے کا حکم دیا، وہ اس پر عامل ہوگیا اور اسلام بھی لے آیا تو سارے گناہ دھیرے دھیرے اس کیچھوٹ گئے کہ جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرلیا تھا اور سچ بولنے کی شکل میں داروگیر کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
جھوٹ بولنے کا بڑا نقصان یہ ہے کہ جب انسان مسلسل جھوٹ بولتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے پھر تسلسل کی وجہ سے یہ دھبہ بڑھتا رہتا ہے تاآنکہ اس کا قلب توے کی طرح سیاہ ہوجاتا ہے اور اس مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے کہ جب اس کے دل، آنکھ اور کان پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ خیر قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، البتہ اگر اس نے پہلے مرحلہ میں ہی توبہ کرلیا تو وہ دھبہ مٹ جاتا ہے اور خیر کی طرف رغبت کا احساس باقی رہتا ہے، اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں