تحریر: حافظ عمر سلیم عسکری ندوی
دنیا میں ایسے رہو جیسے تم کوئی اجنبی ہو یا مسافر۔
"كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ” (بخاری: 6416)
زندگی حقیقت میں ایک سفر ہے، اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس دنیا کو اپنا مستقل گھر نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ایک عارضی قیام گاہ مان کر نیک اعمال کرتے ہیں اور اخروی زندگی کو دائمی اور ابدی سمجھ کر اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر ذی روح کو چکھنا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اخرت یاد دلائی گئی ہے
"كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (آل عمران: 185)
"ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تمہیں تمہارے اعمال کا پورا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا۔”
یہ دنیا فانی ہے، ہر چیز مٹ جانے والی ہے، بقاء صرف اللہ کی ذات کو ہے:
"كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ” (الرحمن: 26-27)
"زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ فنا ہونے والا ہے، صرف تمہارے رب کی ذات باقی رہنے والی ہے، اور وہی بزرگی اور عزت والا ہے۔”
چنانچہ جناب ڈاٹا ارشاد صاحب بھی ایسے ہی مسافر تھے جنہوں نے اپنی زندگی خدمت خلق، محبت، سچائی اور دیانت داری کے ساتھ بسر کی اور بالآخر ایک مسافر کی طرح دنیا سے رخصت ہو گئے۔
وہ دنیا میں رہتے ہوے بھی آخرت سے غافل نہیں تھے اسلئے انسان دنیا میں رہتے ہوئے بھی آخرت کی تیاری کرے اور اس سفر میں اخرت کے لئے زاد راہ تیار کرے۔
مرحوم کی رمضان کی ابتدائی ایام میں مجھ سے ملاقات ہوئی اور کہا:” کہ میرا ان شاء اللہ رمضان کے آخری دس دن دبئی میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ گذار کر مسقط جانے کا ارادہ ہے اور پھر عید کے بعد عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہونے کا ارادہ ہے۔میں نے انہیں مبارکباد دی کہ وہ رمضان اور عید اہل خانہ کے ساتھ گزاریں گے اور پھر عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
دبئی جاتے ہوئے ان کا سفر درحقیقت ان کی آخری پرواز ثابت ہوئی ۔ دورانِ پرواز ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، اور جہاز کو ہنگامی طور پر مسقط میں اتارا گیا، جہاں ان کے قریبی احباب اور عزیز و اقارب، خصوصاً فوزان صاحب محتشم نے فوری طور پر تمام انتظامات سنبھالے۔
اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے میت کی دیکھ بھال، قانونی کاروائی اور دیگر انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ڈاٹا ارشاد صاحب کے انتقال کی خبر سنتے ہی دل افسردہ ہو گیا۔ وہ دنیاوی لحاظ سے تو دبئی کے لئے روانہ ہو گئے تھے مگر حقیقت میں وہ آخرت کی طرف روانہ ہو رہے تھے ۔
سادگی اور دیانت داری کی پہچان
ارشاد صاحب کی زندگی سادگی، قناعت اور دیانت داری کی بہترین مثال تھی۔
وہ چاہتے تو بے پناہ دولت کما سکتے تھے، مگر انہوں نے ہمیشہ حق اور سچائی کا راستہ اختیار کیا۔
ان کا اصول تھا کہ کام کا معاوضہ صرف اتنا ہی لیں جتنا ضروری ہو، اور اگر کوئی ضرورت مند ہو تو بنا کسی لالچ کے اس کی مدد کریں۔
"یہ جو بندے ہیں زمین پر، یہی ہیں اصل میں دولت
کبھی سوچو! کبھی سمجھو! یہی سرمایہ ہوتا ہے”
وہ سرکاری معاملات اور دیگر اہم امور میں لوگوں کی مدد کرتے، اور اگر کوئی ضرورت مند ہوتا تو معمولی فیس لے کر یا بالکل بلا معاوضہ اس کا کام نمٹا دیتے۔ان کے دل کا دروازہ ہمیشہ غریبوں اور مستحقین کے لیے کھلا رہتا تھا۔
مسجد سے انکا دلی لگاو
ڈاٹا ارشاد صاحب کو مسجد سے گہرا لگاؤ تھا۔وہ مسجد احمد سعید، ہورلیسال کے صرف نمازی ہی نہیں بلکہ مجلس انتظامی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ وہ محلے کے مسائل پر گفتگو کرتے، سب کے ساتھ محبت سے پیش آتے اور ہمیشہ خیر کے کاموں میں آگے رہتے۔
بے باکی اور حق گوئی
ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو حق گوئی اور بے باکی تھا۔ چاہے سامنے کوئی وزیر ہو یا اور کوئی ، وہ کبھی سچ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ حکمت کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ ان کے الفاظ دوٹوک ہوتے، اور یہی خوبی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔
مدح خوانی – ان کی سریلی آواز کی گونج
چالیس، پچاس سال پہلے، جب مساجد میں تراویح کے بعد مدح خوانی کی روایت عام تھی،ڈاٹا ارشاد صاحب کا شمار بہترین مدح خوانوں میں ہوتا تھا۔ان کی آواز میں روحانیت اور جاذبیت تھی، جو سننے والوں کے دلوں میں سرور پیدا کر دیتی تھی۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔
ان کے درجات بلند فرمائے۔
ان کے اہل خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
"یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی”
ڈاٹا ارشاد صاحب چلے گئے، مگر ان کے نیک اعمال، ان کی مسکراہٹ، ان کی دیانت داری اور ان کی محبتیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔