جمہوری نظام حکومت انسانی اقدار کے تحفظ کیلئے ناکافی ہے

  ذوالقرنین احمد

بھارت میں جمہوری نظام کو قائم ہوئے 71 سال گزر چکے ہیں اور اب 72 واں یوم جمہوریہ منایا جارہا ہے۔ جمہوریت کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہے۔ دراصل جمہوری نظام حکومت میں تمام انسانوں کو برابری کے حقوق شخصی مذہبی، ثقافتی تعلیمی، اظہارِ رائے کی آزادی، کا نام ہے اسی طرح ابراہیم لنکن نے یوں کہا ہے کہ عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔ یعنی عوام میں سے عوام کے ذریعے حکومت چلانے کیلئے نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے۔ 1935 سے جو حکومت ہند ایکٹ نافذ تھا اسے منسوخ کرنے کے بعد آئین ہند کا نفاذ عمل میں آیا دستور ساز اسمبلی نے آئین ہند کو 26 نومبر 1949 کو اخذ کیا 26جنوری 1950 کو نافذ کرنے کی اجازت دی جسکے بعد بھارت میں جمہوری نظام حکومت کا آغاز ہوا۔  ہم آزادی کے بعد کے بھارت پر گہری نگاہ ڈالے تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ ستر سال میں کسطرح سے جمہوری نظام حکومت اورقانون عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی گئی کس طرح سے فرقہ پرستوں نے ملک کے آئین اور انصاف مہیا کرنے والے اداروں کا اپنے مفاد کی خاطر استحصال کیا ہے۔ جتنی نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہیں اور جتنی فرقہ پرست پارٹیاں ہیں جنہوں نے ماضی میں اپوزیشن کا رول ادا کیا ہے۔ سبھی نے اپنی پارٹی و اقتدار  حاصل کرنے کی خاطر تمام انسانی اقدار کو پامال کیا ہے۔ 

انہیں افراد نے عوامی رائے دہی کے حق کو پیسوں نوکریوں میں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اور جمہوری نظام کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جتنے بھی سیاسی پارٹیاں ہے اور فرقہ پرست لیڈران ہیں سبھی جمہوریت کے قاتل ہیں۔ کانگریس کے دور اقتدار میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ آزادی کے بعد ایک مخصوص کمیونٹی کو ریزرویشن سے محروم کیا گیا، انہیں فرقہ پرست پارٹیوں کا خوف دلا کر انکے حقوق کو غضب کیا،انکے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کی طرح برتاؤ کیا گیا۔ اور احساس کمتری کا شکار بنایا گیا۔ کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ اسی طرح سیاست میں قدم رکھنے اور مضبوط ہونے سے روکا گیا، سرکاری اداروں میں نوکریوں سے محروم رکھا گیا۔ مختلف طریقوں سے فسادات کروا کر انسانیت پرظلم کرکے جمہوری نظام حکومت پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ 

آج مودی حکومت کے دوسرے دور اقتدار میں گذشتہ ساڑے چھے سالوں میں کس طرح سے جمہوری نظام کو تباہ کیا گیا، آج تمام حکومتی شعبے شک کے دائرے میں ہے 2019میں بی جے پی کےپاس انتخابات لڑنے کیلئے کوئی مثبت پہلو نہیں تھا ناہی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کوئی تعمیری سرگرمیاں تھی نا ہی دیش کو فائدہ پہچانے جیسے کوئی کارنامے تھے اس لیے حکومت نے بڑی چالاکی سے فرقہ پرست میڈیا کو خرید کر ملک کے دفاعی قوت اور بارڈر پر دیش کی حفاظت کرنے والے نوجوانوں پر فرضی دہشتگردانہ حملہ کروا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ اسکے راز اب مہاراشٹر حکومت کھول رہی ہے۔ ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی کے چیٹ میں یہ خلاصہ سامنے آیا کہ ارنب کو اس حملے کے بارے میں پہلے سے پتہ تھا اور وہ دیش کے محافظوں کی موت پر خوشیا منا رہا تھا۔ یہ تمام باتیں سامنے آنے کے باوجود ابتک ملک کی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کیونکہ ارنب کے تار سیدھے حکومت سے ملتے ہیں تبھی تو فرقہ پرست اینکر کو بچانے اورجیل سے رہا کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے فوری سنوائی کرتے ہوئے شخصی آزادی کا کہے کر حکومت کے اشارے پر اسے رہا کرنے کا حکم جاری کردیا۔ 

اتنا ہی نہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ حکومت اپنے ناجائز عزائم کی تکمیل کیلئے کس قدر گر سکتی ہے دیش کی سیکولر پارٹیاں اور عوام اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی سلامتی اداروں  کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ حکومت اور اسکے چیلوں کو ملک سے کوئی محبت نہیں ہے اور ناہی قانون آئین کے تحفظ کی فکر ہے۔ کیونکہ یہ خود تمام حدوں کو پار کرچکے ہیں۔ ذرا غور کیجئے آج ملک کی تمام عوام پریشان ہیں لیکن پھر بھی فرقہ پرست عناصر نے اس طرح کا ماحول اور ذہین سازی ہندوتوادیوں کی کی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے تیار نہیں ہے گزشتہ برس مسلمان اپنے وجود کی لڑائی لڑنے کیلئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اورآج ملک کے کسان ذراعی ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔کوئی بھی طبقہ حکومت کی پالیسیوں سے نہیں بچنے والا ہے لیکن عوام کی اندھی تقلید اور بغیر سوچے سمجھے حکومت پر  اعتماد کرنا ملک کیلئے کافی نقصاندہ ثابت ہورہا ہے اور مزید حالات بگڑنے کی طرف اشارہ ہے۔ 

آج ضرورت اس بات کی ہےاور یہ بات سمجھنے کی ہےکہ ملک کے سسٹم کو چلانے کیلئے جس قانون کو وضع کیا گیا تھا اور اسکے مطابق حکومت کرنے عدل و انصاف کرنے کا فیصلہ کیاگیا تھا آج ان تمام قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن کو خرید لیا جاتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کو خریدا جاتا ہے۔ عوام کے حقوق کو چھینا جارہا ہے۔ غریب عوام کو امیر کارپوریٹ گھرانوں کا غلام بنانے کیلئے قانون میں ترامیم کرکے زمین سازگار کی جارہی ہیں اور جمہوریت و آئین کو بطور سیلف پروٹیکشن کے حکومت استعمال کر رہی ہیں۔ قانون کی پاسداری نا کرنے پر سزائے موجود ہونےکے باوجود جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دن بدن خواتین پر زنا بالجبر،عصمت دری،جان سے مار دینا ،ظلم و ستم ،قتل و غارتگری، چوری، ڈاکے، سرکاری عہدوں کی خرید و فروخت، عوامی حقوق کا استحصال، انصاف کا قتل،سرکاری زمینوں، خزانوں کا لوٹنا، یہ تمام جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ لیکن حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوچکی ہیں۔ اور یہ ہونا ہی ہے۔ کیونکہ انسانوں کے ذریعے بنایا جانا والا قانون انسانوں کیلئے ناکافی ہیں۔ جس میں عدل و انصاف حقوق کی  پامالیاں ہونا طے شدہ بات ہے۔اس دنیا کو بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے تمام دنیا کے انسانوں کیلئے زندگی گزارنے کا طریقہ آفاقی پیغام قرآن اور نبی کریم ﷺ کو رہبر بناکر بھیجا ہے اور اسی کے ذریعے سے دنیا میں عدل و انصاف قائم ہوگا یہ انسانوں کے بس کی بات ہی نہیں ہےکہ وہ اپنے محدود سوچ کے ذریعے بنائیں گئے قانون کے تحت دنیا میں امن و امان عدل و انصاف پر مبنی نظام حکومت قائم کرسکے اسکے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نائب بنا کر دنیا میں بھیجا ہے کہ ہم اس آفاقی نظام کو قائم کرنے کی کوشش کریں جو ساری انسانیت کیلئے مفید اور کارآمد ہیں۔ اور اسی میں انسانیت کی نجات ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

بہ یاد یار مہرباں

میڈیا۔کووڈ کے بعد………..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے