جماعتِ اسلامی ہند اور اے پی سی آر کا جمہوری و عدالتی بحران پر اظہارِ تشویش

جماعتِ اسلامی ہند (JIH) اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس (APCR) نے آج یہاں منعقدہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ملک کی جمہوری و عدالتی سالمیت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
جماعتِ اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر سلیم انجینئر اور اے پی سی آر کے قومی سکریٹری ندیم خان نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے انتخابی شفافیت، خواتین کے تحفظ اور سی اے اے مخالف مظاہرین کی طویل نظربندی جیسے سنگین امور پر سوالات اٹھائے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے بہار کے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ خوف یا لالچ کے بجائے بے خوف ہوکر بامقصد ووٹ ڈالیں اور روزگار، مہنگائی، امن و امان اور ترقی جیسے مسائل کو ترجیح دیں۔
انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ پیسے اور طاقت کے زور پر عوامی فیصلوں کو متاثر نہ کریں اور جمہوری اقدار کا احترام کریں۔
انتخابی موسم میں تشدد اور قتل کے واقعات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے انہوں نے الیکشن کمیشن سے غیر جانب دارانہ کردار ادا کرنے اور عوام کے اعتماد کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
ان کے بقول، "عوام ایسے نمائندے منتخب کریں جو انصاف، بھائی چارہ اور ہم آہنگی کے علمبردار ہوں، نہ کہ نفرت اور تقسیم کے۔”
پروفیسر سلیم نے این سی آر بی 2023 کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں خواتین کے خلاف 4.48 لاکھ سے زائد مقدمات درج ہوئے، جو تشویش ناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "نربھیا کیس کے بعد حکومت کے وعدوں کے باوجود صورتحال نہیں بدلی۔ قانون کمزوروں کا محافظ ہونا چاہیے، طاقتوروں کا نہیں۔”
انہوں نے فوری، شفاف اور متاثرہ خواتین پر مرکوز عدالتی نظام کی ضرورت پر زور دیا۔
انتخابی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے بتایا کہ بہار میں اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) کے دوران 65 لاکھ نام ووٹر لسٹ سے حذف کیے گئے، جن میں 22 لاکھ افراد کو غلط طور پر فوت شدہ قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بعض گھروں میں "سینکڑوں فرضی ووٹر آئی ڈیز درج ہیں،” جو الیکشن کمیشن کی سنگین غفلت کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے خواتین کو نقد رقم کی تقسیم کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اعلان کیا کہ جماعتِ اسلامی ہند اپنے شراکت دار اداروں کے ساتھ مل کر ایک ہیلپ لائن شروع کرے گی تاکہ متاثرہ ووٹر اپنے حقوق بحال کر سکیں۔
اے پی سی آر کے نیشنل سکریٹری ندیم خان نے سی اے اے مخالف طلبہ رہنماؤں — عمر خالد، شرجیل امام، گلفشہ فاطمہ اور میران حیدر — کی طویل حراست کو "عدالتی مفلوجیت” قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی آر 59 کے تحت درج مقدمہ گزشتہ پانچ برسوں سے تین ججوں کے درمیان گھوم رہا ہے، 60 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں، مگر ابھی تک فردِ جرم عائد نہیں ہوئی۔
ان کے مطابق، جج صاحبان 60 مرتبہ رخصت پر رہے اور سرکاری وکلا 55 مرتبہ غیر حاضر رہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقدمے کو دانستہ طول دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "واٹس ایپ گروپس میں موجودگی یا کسی اسٹوڈنٹس کلیکٹیو کی رکنیت کو بغاوت نہیں کہا جا سکتا۔ پانچ سال کی قید انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کو اختلافِ رائے دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اور امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ زیرِ سماعت ضمانت درخواستوں میں انصاف بحال کرے گی۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر دونوں رہنماؤں نے عدالتی احتساب، یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کی منسوخی اور انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ "جب ادارے خاموش ہو جائیں تو جمہوریت کی روح خطرے میں پڑ جاتی ہے۔”
جماعتِ اسلامی ہند اور اے پی سی آر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک میں جمہوری اقدار، شہری حقوق، انتخابی دیانت اور قانون کی بالادستی کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

منگلورو میں نوپارکنگ کے خلاف پولیس کی کارروائی، تین ماہ میں تقریباً 35 لاکھ روپے جرمانہ وصول

بھٹکل :’’ قرآن سب کے لیے‘‘ ٹیم کی جانب سے بین الاقوامی آن لائن کوئز مقابلہ کا اعلان