میں نے کوئی جواب نہی دیا… مگر یہ سچ تھا… یہ بے چینی‘ انتظار کانتیجہ تھی۔ اپنی بیٹی کا ا نتظار… کل رات کے آخری پہر ہی تو اس کی رخصتی ہوئی ہے… پھر بھی لگتا ہے کہ برسوں بیت گئے… اسے وداع ہوئے۔ رت جگے کے بعد دن دیر گئے تک سوکر اٹھتے ہیں تو دن کب گذر جاتا ہے پتہ نہیں چلتا… مگر آج کا دن شاید میری زندگی کا سب سے طویل دن ہے… رخصتی کے دوسرے دن دلہن کو سسرال سے مائیکہ لانے کی ایک رسم چلی آرہی ہے… اسی رسم کو نبھانے کی غرض سے اسے لانے کے لئے گھر والے گئے ہوئے ہیں… اور ہم اس وقت انتظار میں ہیں… حالانکہ آنے جانے میں کتنا وقت لگے گا اس کا بھی اندازہ ہے… اس کو گذارنے کے لئے مصروف ہونا چاہتا ہوں مگر کسی کام میں دل نہیں لگتا… تھک کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ آنکھیں بند کرلیتا ہوں کہ نیند آجائے تو وقت گذر جائے… آنکھ بند کی تو یادوں کے دریچے کھل گئے…
اپنی بیٹی شہلا فاطمہ کے بچپن کی پرچھائیاں متحرک ہوگئیں… بالکل کسی فلمی ریل کی طرح۔ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن… ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہونے کے باوجود ہم نے بہت زیادہ لاڈ و پیار سے اس کی پرورش نہیں کی… اسے ایک گھریلو لڑکی بنانے پر توجہ دی۔ وہ بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی… پانچویں جماعت سے ہی اس کے کھلونوں میں میڈیکل کٹ بھی ہوتی… وہ اپنے بھائیوں کو کھلونے والے انجکشن دیتی… استھسکوپ سے ان کا معائنہ کرتی… بہت ہی کم عمری سے ہی اسے گوشہ پردہ کا عادی بنایا… کچن میں ماں کے ساتھ کام کرنے، کپڑے دھونے، استری کرنے کی عادت ڈالی گئی… ہم بار بار یہی سمجھاتے.. بیٹے… لڑکی چاہے کتنی ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو… اگر گھریلو کام کاج کی عادی نہ ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لڑکی کی اہمیت اس کی ڈگری سے نہیں‘ اس کے کام کے سلیقہ سے ہوتی ہے… سلیقہ مند لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر کو جنت بناتی ہے اور شادی کے بعد اپنے شوہر و سسرال کے گھر کو… جسے پکوان نہ آئے وہ عورت کہلانے کے لائق نہیں… ہم کوشش کرتے رہے کہ ہماری بیٹی تعلیم بھی حاصل کرتی رہے اور امور خانہ داری کی ماہر بھی بنے… بچپن ہی سے ہم نے اسے ایسی مذہبی تعلیم دی کہ الحمدللہ! توہم پرستی کے خلاف وہ تحریک چلاسکتی ہے… توہم پرستی، شکوک و شبہات سے ہی تو ہزاروں گھر تباہ و برباد ہوتے ہیں‘ اگر عورت ان سے بے نیاز رہے تو وہ بھی سکون سے رہ سکتی ہے، ماں باپ بھی اور شوہر و سسرال والے بھی۔
وقت گزرتا گیا‘ میٹرک، پھر انٹر پھر ایمسیٹ اور پھر ایم بی بی ایس میں داخلہ… 9؍ستمبر 2010ء میری زندگی کا سب سے اہم اور یادگار دن تھا جب شہلا نے ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا… ڈاکٹر وی آر کے ویمنس میڈیکل کالج کا پہلا بیاچ تھا… مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اسے ویمنس میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ملا… ایڈمیشن کے بعد کالج سے گھر واپسی کے دوران میں نے اسے سمجھایا تھا کہ بیٹے ڈاکٹر بن جانا آسان ہے… انسانیت کی خدمت بہت مشکل ہے… مریض ڈاکٹر میں خدا کو تلاش کرتے ہیں… وہ اسے فرشتہ بلکہ مسیحا سمجھتے ہیں… اللہ کے فضل و کرم سے تمہیں میرٹ میں داخلہ ملا… اللہ کا شکر اُس وقت ادا ہوگا جب تم اس کے بندوں کی انسانیت کے جذبوں کے ساتھ خدمت کرو… آج کے دور کے ڈاکٹرس کی طرح ’’کمرشیل‘‘ نہ ہونا… پیسہ تو بہت کمالوگے… مگر یہ پیسہ نہ دنیا میں کام آئے گا اور نہ ہی آخرت میں…..
اور پھر… ایم بی بی ایس کی تکمیل بھی ہوگئی۔ انٹرن شپ شروع ہوگئی… اس دوران اس کا رشتہ بھی طئے ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا… اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب 5؍نومبر کو اسے اپنے گھر سے رخصت ہونا تھا… اس دن فجر کے بعد وہ بہت دیر تک میرے سینے سے لگی آنسو بہاتی رہی… شاید اسے یہ احساس ہورہا تھا کہ آج اس کا گھر میں آخری دن ہے۔ میں بھی رونا چاہتا تھا مگر سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رویا کیسے جاتا ہے۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہی سمجھاتا رہا… بیٹے! ہم نے تمہیں ہر قسم کی تربیت دی… اللہ کے فضل و کرم سے تم نے دنیاوی، دینی تعلیم حاصل کی… اب تمہارا سسرال تمہارا اصلی گھر ہے… اب تک تم نے اپنے ماں باپ کی خدمت کی… اس گھر کو سجانے سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی… یہ سلسلہ رکنے نہ پائے… اب یہی کام تمہیں اپنے سسرال میں کرنا ہے…..
دنیا کی کوئی بہو، بیٹی نہیں بن سکتی۔ کوئی داماد بیٹے کی جگہ نہیں لے سکتا… تم اچھی بہو… اچھی بیوی بن سکتی ہو۔
تم اپنے ماں باپ‘ بھائیوں کو چھوڑ کر جس گھر میں جارہی ہو‘ وہاں اپنی ساس میں اپنی ماں کی ممتا تلاش کرنا… ان کو کبھی یہ احساس نہ ہونے دینا کہ تمہارے اس گھر میں آنے سے بیٹا… ماں سے دور ہوگیا.. بلکہ تمہارا رویہ، تمہارا سلوک ایسا ہو کہ ماں بیٹے کے رشتے اور مضبوط ہوں… اور وہ تمہارے بغیر خود کو ادھورا محسوس کریں۔
بیٹے! شادی شدہ زندگی بڑی آزمائشی ہوتی ہے… میاں بیوی کو ایک دوسرے کے سمجھنے میں برسوں لگ جاتے ہیں… اس دوران معمولی معمولی باتوں سے نااتفاقی، خلش، دوریاں پیدا ہوتی ہیں‘ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کے گھروں میں آگ لگاکر سکون ملتا ہے.. ایسے لوگوں کو ان کی سازشوں میں کامیاب نہ ہونے دو‘‘ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سنی سنائی باتوں کو نظر انداز کردو۔
شوہر کو مجازی خدا کہا گیا۔ اس کو خوش رکھوگی تو دنیا اور آخرت سنورے گی۔ اس کی خوشی تمہاری خوشی‘ اس کا دکھ تمہارا دکھ… اس کے اپنے مزاج کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرو… جو بات اسے پسند نہیں‘ اس سے دور رہو… اس کی معمولی معمولی ضروریات کا خیال رکھو۔ اپنے شوہر کے لئے پکوان خود کرو… اس بات کا خیال رکھو کہ نمک مرچ نہ زیادہ ہوں نہ کم… حالت روزہ میں بھی شوہر کے لئے پکوان چکھ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اکثر نوالہ میں کنکر، بال… آجاتے ہیں۔ نمک مرچ زیادہ ہوجاتے ہیں تو اس سے بڑے بڑے جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو شوہر باہر ہوٹلوں کے کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سے جیب ، گھر صحت اور سب متاثر ہوجاتے ہیں۔
گھر میں کبھی تمہیں یہ احساس نہ ہو کہ تم ڈاکٹر ہو… گھر میں تم صرف بیوی، بہو اور بھاوج ہو۔ اگر اپنے گھر اپنے شوہر اور ساس و دیگر سسرالی رشتہ داروں سے ٹھیک نہ رہ سکو اور ساری دنیا کا علاج کر بھی لو تو اس سے کیا فائدہ۔
اور بیٹا… ہر گھر میں جھگڑے اختلافات ہوتے ہیں… اپنے گھر کی بات گھر تک رکھنا… مائیکہ میں آکر اس بارے میں کہوگے تو اس سے اپنے ماں باپ کو بھی تکلیف ہوگی اور رشتوں میں دراڑ پیدا ہونے لگتی ہے۔ بیوی پر غصہ شوہر کا حق ہے۔ بیوی ہی اس کی غمگسار اور رازدار ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ اس کا اعتماد حاصل کرے۔ بیٹے… ہر انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں… مصائب، مسائل برا وقت سب پر آتا ہے۔ اچھے دنوں میں تو سبھی ساتھ دیتے ہیں۔ برے دنوں میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے… بیوی اور بہو تو وہی ہے جو آزمائشی حالات میں ثابت قدم رہے۔ لاکھ پریشانی آجائے کسی کو پتہ نہ چلے۔اللہ تعالیٰ صبر کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں دیتا ہے اور آزمائشی حالات میں ثابت قدمی سے ہی رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔
میں اپنی بیٹی کو نصیحت کرتا رہا… وہ سینے سے لگی سنتی رہی… آنسو بہاتی رہی… 5؍نومبر کا دن تو پنکھ لگاکر اڑگیا…۔ رات دیر گئے فنکشن ہال سے گھر واپس آئے تو جگمگ جگمگ کرتا ہوا گھر بھی بے رونق اور ویران سا لگا… تھکن کی وجہ سے نیند کا غلبہ ہوا… مگر فجر کے وقت کسی نے اٹھادیا… آنکھیں کھول کر دیکھا کوئی نہیں… شاید یہ عادت ہوچکی تھی۔ روزانہ بیٹی اسی وقت اٹھادیتی تھی… یاد آیا کہ اسے تو ہم رات ہی وداع کرچکے ہیں… ہر روز یہی معمول تھا فجر کے وقت اٹھادینا.. اور صبح آٹھ بجے کالج کی بس کے آنے سے پہلے گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ مجھے چائے یا کافی… اور ناشتہ دینا۔ شام کو کالج سے گھر آتے ہی فون پر اطلاع دینا‘ میرے آنے کا وقت پوچھنا۔ دیر ہوجائے تو گھر آنے تک بار بار فون کرنا۔ میرے گھر پہنچتے ہی رات کا کھانا نکالنا، دوائیں دینا سوجانے کے لئے اصرار کرنا اور پھر زبردستی پیٹھ اور پیر دبانا سر کی مالش کرنا۔ اس وقت مجھے اپنی بیٹی میں اپنی ماں کی ممتا کا احساس ہوتا۔
صبح آٹھ بجے تک اِدھر سے اُدھر ٹہلتا رہا… رات میں مشکل سے دو گھنٹے کی نیند ہوئی تھی اس کے باوجود اب نیند کا پتہ نہ تھا… جانے کیوں لگ رہا تھا کہ وہ کچن میں ہے… کبھی محسوس ہوتا کہ دیوان خانہ کے شیلف میں کتابیں جمارہی ہے… کبھی واشنگ مشین کے قریب اس کی پرچھائیں نظر آتی…
اکثر بیٹیاں اپنے باپ کے قریب رہتی ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہیکہ وہ اپنی ماں سے بھی بہت زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ ایک بیٹی اپنے ماں باپ اور بھائیوں کا جتنا خیال رکھ سکتی ہے وہ بیٹے یا بھائی نہیں رکھ سکتے۔ بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے.. واقعی اچھی اور نیک بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ وہ میرا تو خیال رکھتی ہی تھی ساتھ ہی اپنے بھائیوں کو وہ نوالے بنا بناکر زبردستی کھلاتی ان کی جھڑکیاں سنتی مگر ان کا خیال رکھتی…
بیٹی رحمت اور رحمت کو گھر سے رخصت کرتے ہیں تو دل روتا ہی ہے۔ یہ بیٹی ہی ہوتی ہے جو سسرال جانے کے بعد بھی اپنے ماں باپ کے لئے تڑپتی ہے… اس کی اسی محبت اور تڑپ کا اکثر سسرال والے فائدہ اٹھاتے ہیں…
چوں کہ مرد پہلے شوہر بنتا ہے پھر بیٹی کا باپ بنتا ہے۔ اس لئے اسے دوسرے کی بیٹی کی تکلیف کا احساس کم ہوتا ہے۔ اکثر بیویاں اپنے شوہر کے ظلم سے بیزار ہوکر یہی کہتی ہیں کہ میرا بدلہ داماد لے گا۔اگر کسی مرد کو اپنی بیٹی کی تکلیف کا احسا س یاتجربہ ہو تو وہ کبھی اپنی بیوی کو تکلیف نہیں دے سکتا۔ مگر اس احساس کی منزل تک پہنچنے تک اسے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔اکثر شوہر بیویوں کو برسوں مائیکہ نہیں بھیجتے‘ اور خود اپنی بیٹیوں کے انتظار میں رہتے ہیں….
پپا… دیدی آگئی۔ چھوٹے بیٹے فرحان کی آواز نے مجھے خیالات سے حقیقت کی دنیا میں واپس لایا… میرے سامنے میری بیٹی کھڑی تھی۔ ایک دن کی دلہن… گھونگھٹ ڈالے… وہ سینے سے لگ گئی۔ ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اور پھر وقت ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرنے لگا۔
داماد صاحب آگئے… شہلا جارہی ہے۔ کسی کی آواز سنائی دی۔ چار گھنٹے گذرگئے… پتہ ہی نہیں چلا۔
اور پھر اشکبار آنکھوں سے اپنی بیٹی کو اپنے ہی گھر سے ایک مہمان کے طور پر وداع کرتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ برسوں پہلے ہم اپنی بیٹی کی ماں کو اسی طرح ان کے گھر سے لے آئے تھے۔ 27؍برس گذر گئے۔ ان برسوں میں جب بھی مقررہ وقت پر مائیکہ سے ہماری بیوی گھر آجاتی… تو ہمیں اپنے ’’شوہر پن‘‘ پر انجانا سا فخر ہوتا… آج باپ کی حیثیت سے اپنی بیٹی کو ’’مقررہ وقت‘‘ پر اس کے گھر روانہ کرتے ہوئے دل بوجھل ہورہاہے… اور آنکھ سے…
جواب دیں