امریکی مسلمان صدر بائیڈن پر برہم۔ نہتے فلسطینیوں پر بم باری کا جواب بیلٹ سے دیا جائے گا ایک ہفتہ وقفے کے بعد غزہ پر بمباری کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور بحر روم میں تعنیات اسرائیلی جہاز سمندر سے خشکی پر مار کرنے والے میزائیل داغ رہے ہیں۔ جنگ بندی ختم ہونے کے پہلے بارہ گھنٹوں میں اسرائیلی بمباروں نے چار سو مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں امریکہ کے فراہم کردہ بنکر شکن Bunker Buster بم استعمال ہوئے۔ یہ بم امریکہ نے افغانستان میں پہاڑی چٹانوں کو پاش پاش کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔ BLU-109 بموں میں دو ہزار پونڈ دھماکہ خیز مواد بھرا ہوتا ہے جو بیس فٹ موٹی کنکریٹ کی تہہ کو ریزہ ریزہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل یہ بم غزہ کی شہری عمارات پر گرا رہا ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وحشت کے آغاز سے اب تک پندرہ ہزار بم اور ٹینکوں کے چھپن گولے اسرائیل بھیجے گئے ہیں۔ (حوالہ وال اسٹریٹ جرنل) خان یونس میں ایک حملے کی روداد بیان کرتے ہوئے الجزیزہ کے نمائندے طارق ابو عظام نے بتایا کہ بم پھٹتے ہوئے زمین ہلتی محسوس ہوئی اور ایک بلند عمارت چند لمحوں میں ریت کا ڈھیر بن گئی۔ یہ سب کچھ ایسا آناً فاناً ہوا کہ مرنے والوں کی چیخیں بھی نہ سنائی دیں۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک غزہ پر چالیس ہزار ٹن بارود گرایاجاچکاہے۔ 2؍ دسمبر کی شب نصر ہسپتال کے احاطے سے بات کرتے ہوئے UNICEF کے ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ’جدھر دیکھو جھلسے ہوئے بچے، بموں کے زخم، ننھے بچوں کے شکستہ کاسہِ سر سے رستے بھیجے، کچلے جسم اور ماؤں کی گود میں دم توڑتے نونہال نظر آرہے ہیں۔ موسلا دھار بارش کی طرح بم برس رہے ہیں۔ بمباری اتنی شدید ہے کہ ملبہ ہٹانا تو دور کی بات سڑک پر پڑے زخمیوں کو مرہم پٹی بھی ممکن نہیں۔ کنکریٹ میں دبے لوگوں اور زخمیوں کی چیخوں سے سارا غزہ گونچ رہا ہے‘۔ اور کانوں میں مفادات اور خوف کی انگلیاں ڈالے دنیا کو کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے۔ حماس نے قطر مذاکرات یہ کہہ کر معطل کر دیے ہیں کہ فلسطینی قیددیوں کی اسرائیل سے رہائی اور مکمل جنگ بندی سے پہلے کوئی بات چیت نہیں ہوگی اور اسی کے ساتھ انہوں نے اپنے سپاہیوں کو بھرپور جنگ کا حکم دے دیا جس کے بعد غزہ سے داغے جانے والے راکٹوں نے تل ابیب سمیت سارے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ اکثر راکٹ امریکہ ساختہ آئرن ڈوم نے روک لیے لیکن چند راکٹ گرنے سے کچھ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ انسانی نقصان پر اسرائیل کے اتحادیوں کے ’افسوس‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’ہم روزانہ اسرائیل سے کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں شہری نقصان کم سے کم ہونا چاہیے‘۔ نائب امریکی صدر کملا ہیرس دبئی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں اور کپکپاتے لہجے میں بولیں ’بہت زیادہ معصوم فلسطینی مارے گئے ہیں، غزہ سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز دل دکھانے والی ہیں۔‘ تاہم انہوں نے امریکی پالیسی کے تحت جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی مقاصد کے حصول کے لیے جاری کارروائیوں میں شہری آبادی کی حفاظت کو یقینی بنایا چاہیے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے انتہائی رعونت سے کہا ’امریکہ مستقل جنگ بندی کی حمایت نہیں کرتا، لیکن ہم وقفہ چاہتے ہیں‘۔ فرانس کے صدر ایمیونل میکراں کا خیال ہے کہ ’اگر اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کا قتل جاری رکھتا ہے تو اسے تحفظ حاصل نہیں ہوگا‘۔ مشہور نارویجین ماہر صحت ڈاکٹر میڈس گلبرٹ Mads Gilbert کہتے ہیں ’اسرائیلی فوج کا واضح ہدف (صرف حماس نہیں بلکہ) فلسطینی قوم کو ختم کرنا ہے‘۔ ڈاکٹر صاحب حملوں کے دوران الاقصیٰ ہسپتال میں تھے جہاں سے انہوں نے سیٹلایٹ فون پر براہ راست صدر بائیڈن اور امریکی وزیر خارجہ کو خطاب کرتے ہوئے انہیں بم دھماکوں اور زخمیوں کی چیخیں سنوائی تھیں۔ اسی دوران فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کے دوران تشدد کے ایک آدھ واقعات بھی ہوگئے۔ ہفتے کی شام پیرس کے ایفل ٹاور کے قریب پچیس سالہ فرانسیسی شہری نے چھرا گھونپ کر ایک جرمن سیاح کو ہلاک اور دو مقامی لوگوں کو زخمی کردیا۔ گرفتار ملزم کچھ عرصہ پہلے چار سال قید کاٹ کر رہا ہوا تھا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق ملزم کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اور وہ غزہ قتل عام پر سخت غصے میں تھا۔ اسی دن امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے اسرائیلی قونصل خانے کے سامنے مظاہرے کے دوران ایک شخص نے بطور احتجاج خود کو آگ لگا لی۔ وہاں موجود پولیس اور آگ بجھانے والے عملے نے بروقت امدادی کارروائی کی تاہم آگ بجھنے تک اس شخص کا جسم بری طرح جھلس چکا تھا۔ اسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں اسکی حالت نازک ہے۔ اسرائیلی وحشت اور اس بدترین انسانی المیے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ جو لوگ اہلِ غزہ کی حراست سے آزاد ہوکر اسرائیل پہنچے ہیں، ان کی اکثریت نے دوران حراست بہترین سلوک کا ذکر کیا ہے۔ ایک بچی اپنے چھوٹے سے کتے کے ساتھ حراست سے واپس آئی۔ غزہ قیام کے دوران کتے کی غذا کا انتظام بھی کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت کو ان لوگوں کی میڈیا سے گفتگو پسند نہیں۔ اسرائیلی وزارت اطلاعات کا خیال ہے کہ ’دہشت گردوں‘ نے دوران حراست ان لوگوں کا برین واش کیا ہے اور اب یہ لوگ حماس کا بیانیہ دہرا رہے ہیں۔ ان الزامات پر واپس آنے والے افراد سخت مشتعل ہیں اور انہوں وزیر اعظم نیتن یاہو کی ملاقات کی دعوت مسترد کردی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور حکومت کو ان کا کچھ خیال نہ تھا اور دوران حراست انہیں ایک ہی ڈر تھا کہ کہیں وہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ نہ بن جائیں۔ لڑائی دوبارہ شروع ہونے اور قیدیوں کا تبادلہ معطل ہونے سے بھی اسرائیلی لواحقین سخت پریشان ہیں۔ دو دسمبر کو یروشلم میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر زبردست مظاہرہ ہوا جس میں قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دوران امریکی مسلمانوں نے اپنے نئے سیاسی لائحہ عمل پر بحث مباحثے کا اغاز کر دیا ہے۔ امریکی جمہوریت کی قباحت اس کا دو پارٹی والا نظام ہے جس کی وجہ سے درست فیصلہ خاصا مشکل ہوتا ہے اور مسلمانوں کو ’چھوٹی برائی‘ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ منشیات، اسقاط حمل، LGBT جیسے معاملات پر مسلمانوں کی نظریاتی ہم اہنگی قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے پرجوش انداز میں صدر بش سینئر اور اس کے بعد ان کے بیٹے جونیر بش کو ووٹ دیا۔ لیکن نائن الیون کے بعد قدامت پسند کھل کر مسلمانوں کے خلاف ہوگئے اور 2004 کے بعد سے مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت شروع کردی۔ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران سابق صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی نا شائشتہ اور دھمکی آمیز زبان استعمال کی تھی جس کی وجہ سے امریکی مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کے مزید قریب آگئے۔ صدر بائیڈن نے خود یہ اعتراف کیا کہ ان کی کامیابی میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن بائیڈن جس انداز میں اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اس پر مسلمان خاصے مشتعل ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ناراضگی کے باوجود مسلمانوں کے پاس ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، اس لیے کہ ریپبلکن پارٹی کی مسلمان دشمنی بہت واضح ہے لیکن غزہ کے معاملے سے ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ ڈونالڈ ٹرمپ کی زبان پر ہے وہ زہر صدر بائیڈن نے دل میں چھپایا ہوا تھا جو وہ اب اگل رہے ہیں۔ امریکی مسلمانوں کی سیاسی تنظیم Council on American Islamic Relations یا CAIR نے AbandonBiden# مہم کا آغاز کیا ہے۔ مہم کے دوران چھ ریاستوں کو ہدف بنایا جائے گا جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں صدارت کا فیصلہ انتخابی کالج سے ہوتا ہے۔ انتخابی کالج میں ہر ریاست کا کوٹہ اس کی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی مجموعی سیٹوں کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر مشی گن کے لیے ایوان نمائندگان کی چودہ نشستیں مختص ہیں جبکہ سینیٹ کی دو نشستیں ہیں چنانچہ انتخابی کالج میں مشیگن کی سولہ نشستیں ہیں۔ عام انتخابات میں مشی گن سے جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوگی خواہ وہ ایک ووٹ ہی کی کیوں نہ ہو، انتخابی کالج کے تمام کے تمام سولہ ووٹ اس امیدوار کے کھاتے میں لکھ دیے جائیں گے۔ امریکہ میں انتخابی کالج کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 538 ہے اور کامیابی کے لیے کم ازکم 270 ووٹ لینا ضروری ہے۔ انتخابی نتائج پر نظر رکھنے والے مسلم ماہرین کا خیال ہے کہ ایریزونا (Arizona) مشی گن، مینی سوٹا (Minnesota) وسکونسن اور پنسلوانیہ (Pennsylvania) کی ریاستوں میں مسلمان ووٹوں کے بغیر صدر بائیڈن نہیں جیت سکتے۔ گزشتہ انتخابات میں وہ ان تمام ریاستوں سے جیتے تھے اور ووٹوں کا فرق بہت معمولی سا تھا چنانچہ انہیں ہرایا جا سکتا ہے۔ ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹوں کی تعداد 67 ہے۔ گزشتہ انتخابات میں صدر بائیڈن 306 انتخابی ووٹ لے کر جیتے تھے، اگر اس بار ان پانچ ریاستوں میں شکست دے کر انہیں 67 انتخابی ووٹوں سے محروم کردیا جائے تو وہ 270 کے مطلوبہ ہدف سے پیچھے رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ صدر بائیڈن کی شکست کی صورت میں جو نتیجہ سامنے آئے گا وہ کیا ہوگا؟ اس حکمت عملی سے ریپبلکن پارٹی کی کامیابی یقینی ہوجائے گی جس کی مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن صدر بائیڈن نے جس سفاکی سے غزہ کے قتل عام میں اسر ائیل کی معاونت بلکہ حوصلہ افزائی کی ہے اس کے بعد ان میں اور ڈونالڈ ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں رہا تو کیوں نہ انہیں نشان عبرت بناکر ڈیموکریٹک پارٹی کو باور کرادیا جائے کہ امریکی مسلمان اتنے مضبوط ہیں کہ حکومت کو منصفانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرسکیں؟ لیکن جیسے اندھی طاقت کے بل پر تم نے بم اور bullets سے ہمارے بچوں کو زندہ درگور کیا ہے ballots کی قوت سے ہم تمہاری سیاست کو دفن کررہے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں