اس کائنات رنگ و بو میں ہرانسان کو خوشی ومسرت،سکون وراحت اور تن درستی و صحت کے ساتھ ساتھ تکلیف و مصیبت،پریشانی وآفت اور بیماری ومشقت سے بھی واسطہ پڑتاہے،اور یہ سب حالات اللہ تعالی کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں؛ جس پربندہئ مومن کو کامل یقین اور مکمل اعتماد ہونا چاہیے،اللہ تعالی فرماتاہے:آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے ہمارے مقدرمیں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سوائے کوئی اور تکلیف پہنچ ہی نہیں سکتی۔ (توبۃ:۱۵)۔حالات موافق وسازگار ہوں یا مخالف و ناساز گار دونوں صورتوں میں ایک ایمان والے کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟قرآن و حدیث میں اس حوالے سے بھرپور رہنمائی موجود ہے۔حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے،وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے“۔(صحیح مسلم) اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے پسندیدگی کے طورپر مومن کے حال پر تعجب کا اظہار فرمایاہے؛ کیوں کہ وہ بدلتے حالات اور دنیاوی اتار چڑھاؤ میں خیر و فلاح اور کامیابی کامستحق بن سکتاہے اور یہ خیر صرف اور صرف مومن ہی کو حاصل ہے۔ پھر نبی پاک ﷺ نے بتایا کہ اللہ تعالی نے مومن کے ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی مقدر فرمایاہے۔ اگر اسے کوئی تنگی ومصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کی تقدیر پر صابر، اس کی طرف سے کشادگی کا منتظر اور اس سے اجر و ثواب کا امیدوار رہتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔ نیز اگر کوئی خوش کن بات پیش آتی ہے مثلا کوئی دینی نعمت کا حصول ہوتاہے، جیسے علم یا عمل صالح یا پھر کوئی دنیوی نعمت ملتی ہے، جیسے مال، اولاد اور جائیدادوغیرہ اور وہ اس پر شکر گزار ہوتا ہے، بایں طور کہ اللہ عز و جل کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے اورزبان و دل سے اس کی حمد بیان کرتاہے، تو یہ بات بھی اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔ خود کشی کیاہے؟: خود کشی،بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے،یہ کمزور ومایوس لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات، آزمائشوں اور ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کا ایک غیر اسلامی،غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقہ ہے، بد قسمتی سے اس وقت پوری دنیا کے محروم القسمت لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کمزوری کے باعث خود کشی کا رجحان آئے دن بڑھتا جارہاہے، مغربی ممالک میں تو اخلاقی اور سماجی نظام کے انتشار کے سبب خود کشی کے واقعات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خود کشی کو انسان کا نجی حق تسلیم کیا جائے۔ چناں چہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں،خودکشی کی یہ شرح ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے، دنیا کی کل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ فی صد ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ صرف بھارت اور چین میں پوری دنیا کی خودکشیوں کی 30 فی صد اموات واقع ہورہی ہیں جوبہت زیادہ تشویش کی بات ہے۔ زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطہئ نظر موجودہ مغربی اور ہندووانہ نقطہ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے،وہ اس دعویٰ ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتی کہ اپنی ذات کا مطلق مالک ہے اور وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہ اسے چلارہا ہے؛ اس لیے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لیے سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے؛لہذا انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔ کلام الہی میں خود کشی کی ممانعت: اللہ کے نزدیک کسی انسان کی جان کتنی محترم ہے اوراس کا وجود اس دنیا میں کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے؛ تاکہ وہ ان کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں؛مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرام قرار دیا اور فرمایا:"اورنہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی، بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے“(بنی اسرائیل:۱۳) ایک اور مقام پر اسی بات کو اس طرح بیان کیاگیا ہے:"اور اپنی اولادوں کو مال میں کمی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی“(انعام:۵۱) دونوں آیتوں میں الگ الگ دوطرح کے لوگوں سے خطاب کیاگیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو فی الحال مفلس تو نہیں ہیں؛ مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؛ جب کہ دوسرے طبقہ کو جو فی الحال مفلس ہے عیال سے پہلے ہی اپنی روٹی کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے؛ اس لیے ایک جگہ خشیۃ املاق اور دوسری جگہ من املاق کے ذریعہ خبردار کیاگیا کہ تم کو رزق کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔ اسی طرح صراحتاََ ایک مقام پرخود کشی سے منع کرتے ہوئے فرمایا"تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو" (النساء: ۹۲)دوسری جگہ فرمایا:تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو(البقرۃ:۵۹۱)اس طرح کے اور بہت سے احکام قرآن مجید میں موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ انسان کو اس بات کااختیار ہی نہیں ہے کہ کب اپنی جان لے،ہاں انسان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوراس میں کوئی تصرف نہ کرے۔ احادیث رسول میں خود کشی کی مذمت: رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کے تعلق سے وعید کے بیان میں جو انداز اختیار کیا ہے وہ سخت تہدید پر مشتمل ہے، فرمایا:’’جس نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا، وہ دوزخ میں بھی گلاگھونٹے گا، اور جس نے نیزہ مار کر اپنے آپ کو ہلاک کیا اسے دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کونیزہ مارنے کا عذاب دیا جائے گا۔‘‘(کنزالعمال) یعنی خود کشی کی بناء پرمصائب و مشکلات سے چھٹکارا نہیں ملے گا؛بلکہ دنیا میں جس چیز سے اورجس انداز سے خودکشی کرے گا آخرت میں اسی انداز کا عذاب دیا جائے گا؛جسے جزامن جنس العمل کہاجاتاہے۔ اسی طرح حضرت جابررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ حضرت طفیل بن عمر ودوسی ؓ کے ساتھ ان کی قوم کے ایک اور شخص نے بھی مدینہ طیبہ ہجرت کی، یہاں یہ دوسرے شخص بیمار پڑ گئے،تکلیف کی شدت کے باعث ان سے صبر نہ ہو سکا اورانہوں نے ایک ہتھیار سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ لیے، رگیں کٹ گئیں اور خون اتنا بہہ گیا کہ انتقال ہو گیا،حضرت طفیل ؓ نے بعد میں ان کو خواب میں دیکھا کہ ایمان پر خاتمہ او رہجرت کی وجہ سے بہتر حالت میں ہیں؛ مگر ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے ان سے خواب میں پوچھا کہ’’آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟‘‘ ان صاحب نے کہا:’’اللہ تعالیٰ نے ایمان اور ہجرت کی برکت سے مجھے معاف کر دیا، مغفرت تو ہوگئی، لیکن میرے ہاتھوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ’’جس چیز کو تم نے خود بگاڑ لیا ہے میں اسے درست نہیں کرتا‘‘حضرت طفیلؓ نے یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا، توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی:’’یا الٰہی! ان کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔‘‘ (مشکوٰۃ) اس سے معلوم ہوا کہ خود کشی کرنا اگر چہ سنگین جرم اور بہت ہی سخت گناہ و عذاب کا باعث ہے؛لیکن خود کشی کرنے والے کا خاتمہ ایمان پر ہو تو اس کی معافی اور بخشش ہو جائے گی اور خود کشی کرنے والے کے لیے دعاءِ مغفرت و ایصال ثواب بھی کرنا چاہیے، بلکہ وہ اس کا بہت زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ خودکشی کے اسباب اور ان کا سدباب: یہ سچ ہے کہ حوادث زمانہ کا ظہور ہرشخص کے حق میں یکساں نہیں ہوتا،کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو بڑی سی بڑی تکلیف بھی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور کچھ لوگ معمولی حادثے سے پریشان ہوکر جزع فزع پراترآتے ہیں۔مگر زندگی کے سفر میں کامیاب شخص وہ ہے جو ہمت وحوصلے کے ساتھ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور دل ہارنے کے بجائے پامردی و استقلال کا ثبوت پیش کرے۔ غورکیاجائے تو مسلمانوں میں خود کشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب میں ایک اہم و بنیادی سبب اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔جو لوگ آزمائش میں پورا اترتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہو جاتے ہیں وہ خود کشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں؛ بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔انسان کو اللہ پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ایسے حالات میں سماج کے سربرآوردہ افراد،والدین اور سرپرستوں کا کلیدی رول ہوتا ہے کہ وہ پریشان حالوں کو سمجھائیں،انہیں حوصلہ دیں اور ان کی ہرممکن اعانت کریں؛تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ ویسے توخودکشی کے مختلف اسباب وعلل ہوسکتے ہیں؛جن میں چند یہ ہیں:(1)معاشی مشکلات(3)رشتوں کی ناچاقی واختلافات(4)ظلم و بدسلوکی (5)تشدد وبے راہ روی(6)حقوق کی پامالی (7)جہیز اور ناجائز مطالبات کا رواج- وغیرہ ہم مانتے ہیں کہ حالات کے ستائے ہوئے افراد ہی خودکشی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں؛لیکن یہ زندہ حقیقت ہے کہ اس کا واحد حل "صبرو ثبات"اور "قوت برداشت" ہے۔ اور سب سے عظیم قوت صبر والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ ایسے انعام سے منھ موڑ کر جہنمی عمل کو گلے لگانا کتنی کم ظرفی اور کیسی محرومی کی بات ہے۔ اس رُخ سے بھی معاشرے کے مرد و خواتین کو غور کرنا چاہیے۔ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، صبر وشکر والوں کے لیے انعاماتِ خسروانہ کی بشارتیں موجود ہیں۔ آخرت کی فلاح سے منھ موڑ لینا خلافِ عقل بات ہے؛اس لیے خدارا! کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے یہ غور کر لیں کہ اس میں آخرت کا نفع ہے یا نقصان، اور اللہ و رسول کی رضاہے یا ناراضی۔ خلاصہئ کلام: یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور ہمارا پورا وجوداسی کی امانت ہے،اورممکنہ حد تک اس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری اور اسلامی، فطری، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے،فقہی نقطہئ نظر سے بھی دیکھاجائے تو یہ انسانی جان ربِ کریم کی عطا کی ہوئی ایک ایسی امانت ہے جس کاتحفظ بہر صورت لازم اورضروری ہے،مصائب و مشکلات کی اندھیریاں ہوں یا مجبوریوں اور ناامیدیوں کی تاریکیاں، اس عظیم امانت الٰہی کو خود کشی کے ذریعہ لمحوں میں ضائع کر دینا نہ تو اسلام میں جائز ہے، نہ انسانیت کی نظر میں مستحسن ہے،اسی لیے ایسے کسی بھی عمل کی اسلام میں اجازت نہیں جوبے مقصد ہو، صحت یا زندگی کے لیے مضرت رساں ہو اور انسانی وجود اور زندگی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہو، بلکہ جان بچانے کے لیے بوقت ضرورت اور بقدرِ ضرورت ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے جو اصلاً ناجائز اور حرام ہیں۔ پھر انسان کے لیے من جانب اللہ اس کے جسم و جان کی حفاظت کے لیے جو اسباب مہیا ہیں ان کی مثال کسی مخلوق میں نہیں ملتی، اس کے باوجود اگر کوئی اپنے آپ کوہلاک کرتاہے تو یہ ایسا جرم ہے جو دنیا اور عقبیٰ دونوں میں مجرم کو محروم کردیتا ہے اورکہیں کا نہیں رہنے دیتا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں