ڈاکٹر مرضیہ عارف
پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں اسلام اور اس کی شریعت کا جوپیغام لے کر آئے اس کو دوسروں تک پہونچانے میں آپ نے اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ صر ف قول سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی۔ آپ نے اس کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ اور نبوت کی ۳۲ سالہ زندگی میں صحابہ کرام ؓ کی ایک ایسی جماعت تیار فرمادی جس نے اسلام کے پیغام کو دور دراز علاقوں تک پہونچادیا۔ نبی پاک ﷺ کے بعد اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کام ان کے صحابہ اور تابعینؒ کے ذریعہ ہوتا رہا۔ اور اسی طرح پیغام نبوی ﷺ نسلاً بعد نسلٍ آگے والوں کو منتقل ہوتاگیا یہاں تک کہ علماء ومشائخ نے دعوت وتبلیغ کی یہ ذمہ داری مختلف طریقوں سے انجام دی جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام خاص طور سے بنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں رسول کے بعد جو نبی آئے انہوں نے اپنے سے پہلے آنے والے رسول کے دین وشریعت کی تبلیغ فرمائی۔ اور ان کے اقوال وافعال کی دعوت دی۔ حدیث میں ہے میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں،حق تعالیٰ شانہ نے انبیاء علیہ السلام کو اس دنیا میں اس لئے مبعوث فرمایا تاکہ وہ پہلے آنے والے رسولوں کی شریعت کی آبیاری کریں۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کیا۔ اس کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ نبی پاک ﷺ اس دنیا میں خاتم الانبیاء والمرسلین بناکر بھیجے گئے آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول آنے والا نہیں ہے۔یعنی آپ کی ذات نبوت رسالت کی آخری کڑی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ کوئی ایسی جماعت ہو جو شریعت محمدی ﷺ کی دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیتی رہے حضرات صحابہ کرام جہاد ولشکر کشی کے ذریعہ دوسروں پر غلبہ حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے اور نہ حکومت واقتدار پر قبضہ کرنا ان کا مقصد تھا بلکہ جہاد سے ان کی منشاء یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا راستہ کھل جائے اور کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے یہی پیغمبر اسلام کا نسب العین تھا۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ہرقل اور مقوقس وغیرہ حکمرانوں کے پاس قاصد بھیجے اور ایمان واسلام کی دعوت دی۔ اس سے آپ کا مقصد تھاکہ دعوت کا دروازہ کھلے، عام لوگوں تک رسائی ہوجائے تاکہ ہراک کو دعوت دی جاسکے۔
حضرت عمر فاروقؓ جب کسی کو حاکم یا گورنر بناکر بھیجتے تھے تو یہ تاکید فرمادیتے کہ ”آپ کی رعایا مسلمان ہو یا ذمی ہر ایک کے سامنے آپ اسلام کا تعارف کرائیں اسلامی محاسن اور بشارتیں بیان کریں اور انہیں دینی امور سکھائیں“۔
ان جملوں سے نہ صرف اسلامی جہاد بلکہ دعوت وتبلیغ کی روح کو بھی سمجھاجاسکتا ہے۔ اس طرح آنحضرت ﷺ کی سیرت سے دعوت وتبلیغ کے اصولوں پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ اس بات کا انتظار نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں بلکہ خود عام میلوں، ٹھیلوں اور بازاروں میں پہونچ کر مختلف علاقوں کا سفر کرکے وہاں کے رئیسوں کے گھروں پر دستک دیکر دعوت وتبلیغ کا فرض انجام دیتے تھے جیسا کہ طائف وغیرہ کے واقعات سے معلوم ہوتاہے۔حج کے موسم میں بھی آپ کا کام یہی ہوتا کہ ایک ایک قبیلہ کے ذمہ دار کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے تلخ وترش جواب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پیغام حق پہونچادیتے۔
اسلام کی دعوت کا دائرہ بہت وسیع ہے رسول اللہ ﷺ نے جہاں غیرمسلمانوں کو اسلام کا پیغام پہونچایا اپنے دعوتی نمائندے بناکر بھیجے، وہیں مسلمانوں کے لئے بھی حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مدینہ اور حضرت موسیٰ اشعری ؓکو یمن اسی مقصد کے لئے روانہ کیا۔ ’دعوت وتبلیغ“ کی اسی کشش اور طاقت کا نتیجہ ہے کہ جن سلجوقیوں، ترکوں اور تارتاریوں کو مسلمانوں کی عظیم سیاسی طاقت وقوت نہ روک سکی ان کے بڑھتے ہوئے قدم کو دین کی دعوت نے نہ صرف روک دیا بلکہ ان کے دلوں کو بھی مسخر کردیا۔
ہندوستان میں دعوت وتبلیغ
صدر اول سے لے کر ساڑھے تیرہ سو صدی تک دعوت وتبلیغ کایہ کام انفرادی طور پر انجام دیاجاتا رہا جو زیادہ تر مسجدوں، خانقاہوں اور مدارس کی چہار دیواریوں تک محدود تھا ہندوستان میں جس کا اسلامی علوم کی خدمت اور دین کی دعوت وتبلیغ میں بڑا حصہ ہے ابتداء میں یہ کام ایک بہت بڑے داعی حضرت شاہ معین الدین چشتی ؒ کے ہاتھوں بڑے پیمانہ پر شروع ہوا۔ آپ نے راجپوتانہ کے علاقہ میں اسلام کے پیغام کوپہونچایا اور لاکھوں لوگ ان کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے حضرت فرید گنج شکر ؒ سندھ کے کنارے سے لوگوں کو پیغام حق سناتے ہوئے دہلی اور وہاں سے پنجاب تک آئے اور ان کے مریدوں میں حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے دہلی کومرکز بناکر رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعد کے دور میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور خاندانِ ولی الٰہی کے ہاتھوں آل تیمور کی غلط سیاست کے تدارک واصلاح کا کام ہوا۔ جو کئی پیڑھیوں تک مسلسل جاری رہا پھر اس کے بعد تبلیغی کام کا باقاعدگی سے آغاز ہوا۔
۱۲۹۱ء کے دوران غیرمنقسم ہندوستان میں آریوں کی کوشش سے جاہل اور نومسلم دیہاتی علاقوں میں ارتداد کی آگ پھیلنے لگی تو اس کے بجھانے کے لئے متعدد تبلیغی انجمنیں سرگرم عمل ہوگئیں ہزاروں روپے کے چندے کئے گئے۔ مبلغین نوکر رکھ کر مختلف علاقوں میں بھیجیگئے۔ مناظرین اسلام نے بحث ومباحثہ کی مجلسیں منعقد کیں اور کئی سال تک یہ کام ہوتا رہا لیکن جیسے جیسے جوش وخروش کم ہوا۔ ایک ایک کرکے انجمنیں ٹوٹتی گئیں یہاں تک کہ یہ کام بند ہوگیا علامہ سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں اس کی وجہ یہ تھی:
”یہ سارا تماشہ کام کرنے والوں کی دلی لگن کا نتیجہ نہ تھا اور نہ مبلغین ومناظرین اور داعیان کے دلوں میں دہشت کی دھن تھی بلکہ جو کچھ تھا وہ داد ودست کا مبادلہ اور نفعِ عاجل کی حرص اور طمع تھی اور دینی دعوت وباطنی ارشاد وتبلیغ بازار کی قیمت سے خریدی نہیں جاتی“
اللہ تعالیٰ نے خاندان ولی والٰہی سلسلہ کے ایک درد مند مگربظاہر کمزور اور عمر رسیدہ مولانا الیاس صاحب ؒ کاندھلوی کو یہ شر بخشا کہ وہ دعوت وتبلیغ کا ایک سادہ موثر اور طریق نبوت سے قریب تر اجتماعی کام ہندوستان میں شروع کریں۔ انہوں نے برسوں کی غوروفکر تڑپ ولگن اور ذاتی مشاہدے کے بعد تبلیغی کام کا کام علاقہ میوات سے آغاز کیا۔
میوات کا حال
میوات دلی کے جنوب کا وہ علاقہ ہے جس میں قدیم زمانہ سے میو قوم آباد ہے تاریخ فیروز شاہی میں میوات کا نام سب سے پہلے شمس الدین التمش کے تذکرہ میں آتا ہے دہلی کی مسلم سلطنت کے ابتدائی دور میں میواتی تکلیف کا باعث بنے ہوئے تھے اکثر وبیشتر شہر میں گھس آتے اور لوٹ مار کرکے بھاگ جاتے ان مجرمانہ سرگرمیوں کے باعث اہل دلی خوف وہراس کا شکار رہتے تھے غیاث الدین بلبن نے ان کی سرکوبی کے لئے ایک بڑی مہم بھیجی جس نے میواتیوں کی بہت بڑی تعداد کو قتل وغارتگری کا نشانہ بنایا تب سے تقریباً ایک صدی تک میواتیوں کے نام اور کام کا ملک کی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔
میو قوم کو قبول اسلام یا اس کے محرکات سے بھی تاریخ کے صفحات خالی نظر آتے ہیں لیکن اس قدر ضرور معلوم ہوتا ہے کہ میو قوم کی مذہبی اور اخلاقی حالت کافی روبہ زوال تھی۔ وہ صرف نام کے مسلمان ہی نہ تھے بلکہ ان کی جہالت اور گمراہی کی وجہ سے چھٹی صدی عیسوی کے عربوں سے ان کی مثال دی جاسکتی ہے۔
اس قوم سے علماء کا پہلا تعلق مولانا الیاسؒ کے والد مولانا محمد اسماعیل صاحبؒ کی حیات میں شروع ہوا جو ایک غیبی انتظام تھا کہ مولانا محمد الیاس سے پہلے بستی نظام الدین میں جسے میوات کا دہانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا یہیں مولانا محمد اسماعیل صاحب مقیم ہوگئے اور انہوں نے میوات کی جہالت کو دور کرنے کے لئے ان کے بچوں کو اپنے یہاں رکھ کر دینی تعلیم دینا شروع کردی جس سے میو قوم اور دنیا کے مابین حائل خلیج کم ہوتی گئی۔ مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے اس سے ایک قدم آگے بڑھا کر میوات کے مختلف علاقوں میں دینی تعلیم کے کئی مدارس قائم کرادیئے جس سے وہاں دین اسلام کی بنیادی باتوں سے آگاہی کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا اور پوری قوم میں اصلاح ہونے لگی اسی دوران میوات کے ایک سفر میں مولانا الیاس صاحبؒ کے سامنے ایک نوجوان لایا گیا جس کی صلاحیت کی مقامی لوگوں نے کافی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے فلاں مدرسہ سے تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوا ہے لیکن اس کی غیر شرعی صورت نے مولانا کو دینی مدارس کے اصلاحی پہلو سے نامطمئن کردیا اور مدارس اور مکاتب کی طرف سے ان کا دل پھر گیا اور مجموعی اصلاحی تبلیغ کے کام کا خیال ان کے دل میں پیدا ہوا جو بعد میں ایک عظیم تبلیغی تحریک ثابت ہوئی اور میوات جیسے ہر حیثیت سے پسماندہ علاقہ سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی چنانچہ قصبہ نوح ضلع گڑگاؤں میں ۲۱ اگست ۴۳۹۱ء کو مولانا محمد الیاس صاحب کی صدارت میں ایک پنچایت منعقد ہوئی جس میں میوات کے سبھی اہم لوگ شریک ہوئے ان کی تعداد تقریباً ۷۰۱ تھی۔ اس پنچایت میں دیگر باتوں کے علاوہ اجتماعی طور پر دین کی دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور گفتگو میں یہ بات زیر بحث آئی کہ دین کی تبلیغ کا کام صرف علماء کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے لہذا یہ تمام فیصلے ضبط تحریر میں لاکر ایک پنچایت نامہ مرتب کیا گیا۔ جس میں تمام شرکاء نے اپنی منظوری ثبت کردی اور اس طرح تبلیغ کے کام کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس کام نے پورے میوات میں ایک دینی انقلاب برپا کردیا تو مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے مسلمانوں کی اصلاح وتبلیغ کے اس کام کے اصول وقواعد پر روشنی ڈالنا شروع کی ربیع الاول ۴۲۱ھ میں مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے اس کے طریقہ اور اصولوں کے ذیل میں تلقین فرمائی۔
۱: اس کام کے لئے ہر ہفتہ کچھ وقت فارغ کرکے ایک جماعت بنائی جائے اس کا ایک قائد یعنی امیر بھی مقرر کیا جائے جس کی ماتحتی میں یہ جماعت کسی دوسرے محلے یا قریب وجوار میں جاکر عام مسلمانوں کو کلمہ توحید کی اصلاح اور نماز کی تلقین کرے اس عمل کو تبلیغی گشت کا نام دیا گیا۔
۲: ہر ماہ تین دن کے لئے پانچ کوس کے اندر جماعت کی صورت میں جاکر تبلیغ کا کام کیا جائے جس کو ابتداء میں میواتی ”پنچ کوسہ نظام“ سے موسوم کرتے تھے۔
۳: سال میں کم از کم چالیس دن اور زیادہ سے چار ماہ فارغ کئے جائیں جس میں تبلیغ کے مذکورہ کام کی محنت بھی کی جائے۔ ۰۵۴۱ء میں تبلیغی کام کے لئے جو دورے کئے گئے ان کے نتیجہ میں یہ کام میوات میں اس حد تک پھیل گیا کہ ہر گاؤں قریہ اور قصبہ میں تبلیغ کے مرکز قائم ہوگئے۔
مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے میواتیوں کی پہلی جماعت بناکر کاندھلہ بھیجی دوسری جماعت رائے پور کے لئے روانہ کی۔ تبلیغ کے اس کام کا پورے علاقہ میں بڑا اثر مرتب ہوا کہ وہاں کے لوگوں میں جاری ہندورسم ورواج کا خاتمہ ہونے لگا شادی بیاہ کی تقریبات، مشرکانہ رسوم سے پاک ہوگئیں۔ جرائم فتنہ وفساد اور بداخلاقیوں کا تناسب انتہائی کم ہوگیا۔
مولانا محمد الیاس صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ دعوت وتبلیغ کا جو کام میوات یا ہندوستان میں ہورہا ہے اس سے دوسرے ملکوں کے لوگوں کو بھی متعارف کرانا چاہئے خصوصاً اس سرزمین کے باشندوں کو جہاں سے دعوت کی محنت کا سب سے پہلے آغاز ہوا۔یعنی جزیرہ العرب میں بھی یہ کام شروع کیاجائے۔ لہذا مولانا محمد الیاس صاحب ؒ ۰۲ جنوری ۰۳۹۱ء کو تبلیغ اور حج کی نیت سے اپنے کچھ ساتھیوں اور صاحبزادے مولانا محمد یوسف صاحب کے ساتھ ہندوستان سے روانہ ہوئے اور لاہور ہوتے ہوئے پہلے کراچی گئے اور وہاں سے روانہ ہوکر یکم فروری کو جدہ پہونچ گئے۔ مولانا نے اپنے اس سفر حج کے دوران اہل عرب میں اپنے دعوتی کام کی بنیاد ڈالی جس کی عربوں کے مختلف طبقات کی طرف سے پذیرائی ہوئی اس کے بعد چند سالوں کے دوران دعوت وتبلیغ سے متعلق بعض رسائل واخبارات میں مضامین شائع ہوئے تو اہل علم اور اہل مدارس نے اس کام کی طرف توجہ دی۔ ۲۴۹۱ء میں میوات کے قصبہ نوح میں تبلیغ کا پہلا بڑا اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں ۵۲ ہزار لوگوں نے شرکت کی دوسال بعد دہلی کے تجربہ کار تاجروں کی ایک جماعت لکھنؤ روانہ کی گئی جس نے ندوۃ العلماء اور دوسرے علاقوں میں جاکر دعوت وتبلیغ کے کام سے لوگوں کو متعارف کرایا۔ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے کئی عالم فاضل جس میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور مولانا منظور نعمانی کے نام قابل ذکر ہیں کہ اس کام کی طرف راغب ہوئے۔
۴۴۱۹ء میں مولانا محمد الیاس صاحبؒ کا انتقال ہوگیا تو ان کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف صاحبؒ کو مشورے سے دعوت وتبلیغ کا امیربنایا گیا جن کے دور میں تبلیغ کا کام بہت تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ مولانا محمد الیاس صاحب کی زندگی میں ا گرچہ مختلف علاقوں سے بستی نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں جماعتوں کی آمدورفت شروع ہوگئی تھی اور مراد آباد، لکھنؤ، کانپور، سہارن پور، مظفر نگر میں تبلیغ کا کام بھی کافی بڑھ گیا تھا۔ اسی طرح پشاور اور سندھ کے بعض مقامات نیز کراچی میں بھی یہ کام شروع ہوچکا تھا۔ مگر اس کا ملک گیر پھیلاؤ مولانا محمد یوسف کے دورِ امارت میں ہوا اور آپ کی زبردست محنت و کوشش اور تبلیغی اکابرین کی جدوجہد کے نتیجہ میں یہ کام مختلف عرب اور مسلم ملکوں تک ہی نہیں پھیل گیا بلکہ یورپ، امریکہ، جاپان اور برطانیہ تک جماعتوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ مولانا محمد یوسف صاحب نے پاکستان کے ۸ سفر کئے اور آخری سفر میں لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔ مولانا محمد یوسف صاحب کے دور میں ۷۴۹۱ء کے دوران جب پورا ملک فسادات وقتل غارت گری میں ڈوبا ہوا تھا تب بھی یہ کام جاری رہا۔ فسادات کے اس سنگین ماحول میں بھی تبلیغی جماعتیں اپنی جانوں پر کھیل کر مسلمانوں میں کام کرتی رہیں ان کو دم دلاسہ دیکر ان کے قدم جمانے کے لئے دن رات محنت میں جٹی رہیں۔ تقسیم ملک کے بعد پہلی جماعت جو پاکستان گئی گویا آگ کے دریا کو پار کرکے وہاں پہونچی۔ اس کے دو تین سال بعد تبلیغی جماعتوں نے مشرقی پنجاب کادورہ کیا۔ اور ہر بار مختلف تکلیفوں اور امتحانوں سے دوچار ہوکر واپس ہوئیں۔ تقسیم کے چند دنوں بعد تک مولانا محمد یوسف صاحب کی بیشتر توجہ دہلی اور اس کے اطراف میں مسلمان پناہ گزینوں پر مرکوز رہی۔ جہاں آپ نے زیادہ سے زیادہ جماعتیں بھیج کر اور بعض مقامات پر خود جاکر مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے قدم ہندوستان میں جمانے کی پوری پوری کوشش کی۔ مولانا محمد یوسف صاحب کے انتقال تک یہ کام ہندوستان کے چپہ چپہ تک پھیل چکا تھا۔ بھوپال کے سالانہ تبلیغی جماعت میں ہر سال آپ خود شرکت فرماتے اسی طرح جنوبی ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جو تبلیغی اجتماعات ہوتے اس میں بھی آپ خود پہونچتے اور مرکز نظام الدین میں صبح سے رات گئے تک جو تبلیغی وفود آتے ان کی خبر گیری و تربیت میں بھی ہمہ تن مصروف رہتے آپ کی زندگی میں عرب ممالک اور یورپ، امریکہ، افریقہ، انڈونیشیا، ملیشیا، جاپان وغیرہ ملکوں سے بڑی تعداد میں جماعتیں تبلیغی مرکز پہونچنے لگی تھیں جنہیں ہندوستان سے مختلف ممالک کو پہونچا دیا جاتا تھا۔ (ماخوذ از تحقیقی مقالہ)
تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر حضرت مولانا انعام الحسن صاحبؒ ۵۶۹۱ء میں اس وقت جماعت کی ذمہ داری سنبھالی جب دوسرے امیر حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ کا اچانک لاہور میں انتقال ہوگیا حضرت کی سحر انگیز اور جاذب نظر شخصیت کے بعد جو ایک زبردست مقرر، مفکر، مفسر اور محدث تھے جب مولانا انعام الحسن صاحب اپنے دور کی سب سے موثر وہمہ گیر جماعت کے سربراہ بنے تو اس وقت اس خدشہ کا اظہار کیا گیا کہ اس تبدیلی کا اثر دعوت وتبلیغ کی محنت پر ضرور پڑے گا لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ کام دن دونی رات چوگنی رفتار کے ساتھ بڑھتا رہا یہاں تک کہ جو بڑے بڑے اجتماعات صرف بھوپال، گجرات، جنوبی ہند یا لاہور اور ڈھاکہ میں ہوا کرتے تھے اب برطانیہ، امریکہ، افریقہ کے دور دراز براعظموں میں ہونے لگے، حضرت کا یہ کارنامہ بھی کم نہیں کہ دعوت کے کام کے پھیلاؤ کے باوجود اس کو ایک مرکز کے تحت انہوں نے جوڑے رکھا ورنہ اس دور کی دیگر سیاسی، سماجی اور مذہبی تحریکات اپنے اصول ومقاصد سے بھٹک کر کچھ سے کچھ ہوگئیں۔ آج برصغیر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی گمراہ کن فکر، بدعات، بددینی، دھریت اور قادیانیت کے فتنوں کا کسی تحریک نے نہایت خاموشی اور مستعدی کے ساتھ دفاع کیا اور مسلمانوں کو اس کے اثرات سے بچانے میں کامیابی حاصل کی تو وہ دعوت وتبلیغ کا ہی کام ہے جو شور شرابے یا مادی پروپیگنڈہ کے بغیر نہایت اخلاص وخاموش محنت کے ساتھ انجام پاتا رہا۔ اور اب اس کی رہبری کا کام حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کے پرپوتے اور مولانا انعام احسن صاحب کے بیٹے نیز نواسے انجام دے رہے ہیں۔
جواب دیں