ارتداد کی آندھی

یاسر ندیم الواجدی 

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کتاب: "ردة ولا أبا بكر لها" جس زمانے میں لکھی گئی تھی آج حالات اس سے زیادہ سنگین ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں ارتداد پر ایسی محنت ہورہی ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ میرے فیس بک پر ہر روز دسیوں مسلم نوجوانوں کے پیغامات آرہے ہیں کہ ہم نے فلاں ویڈیو دیکھی ہے اور اس کو دیکھ کر ہمارا ایمان متزلزل ہوگیا ہے، فلاں آدمی نے اسلام پر یہ اعتراض کردیا ہے اب ہم کیا کریں وغیرہ وغیرہ۔ کل ہی ایک نوجوان کا میسج تھا کہ میرے سوال کا اگر جواب نہ ملا تو شاید میرا ایمان باقی نہیں رہے گا۔ العیاذ باللہ۔ 

ارتداد کی جو خطرناک کوششیں ملحدین کررہے ہیں، اس کی مثال آج کا ہی ایک فیس بک پیغام ہے جس میں ایک صاحب نے کسی ملحد کی ویڈیو بھیجی ہے، ایک گھنٹے طویل اس ویڈیو میں اس نے مسلمانوں کے اس دعوے کو کہ قرآن میں کسی بھی حرف کی تبدیلی نہیں ہوئی ہے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے چند منٹ ہی وہ ویڈیو دیکھی اور الحمد للہ اس کے مکر کا اندازہ ہوگیا۔ لیکن ایک عام مسلمان کے ایمان وعقیدے کو وہ بآسانی ہلاسکتی ہے۔ اسٹانفورڈ یونیورسٹی سے شائع ایک کتاب کی بنیاد پر اس نے یہ دعوا کیا کہ یمن کے صنعا شہر میں 80 کی دہائی میں ایک قدیم مسجد سے قرآن کا قدیم ترین مخطوطہ برآمد ہوا ہے۔ اس کے کاغذ پر ایک مرتبہ قرآن تحریر کرکے مٹایا گیا ہے اور پھر دوبارہ لکھا گیا ہے۔ جدید تکنیک سے پرانی تحریر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن جب دونوں تحریروں میں موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ پہلے قرآن کچھ تھا اور اب کچھ۔ اس شخص نے اپنی اسکرین پر دونوں تحریروں کا موازنہ مختلف چارٹس کی مدد سے دکھایا ہے۔ ویڈیو کے نیچے کمنٹس دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ متاثر ہوے ہیں۔ 

لیکن الحمد للہ اس ملحد شیطان کے مکر کو پکڑنا بہت آسان تھا۔ جرمنی کی ایک مسلم پروفیسر نے اسٹانفورڈ کی ریسرچ کا جواب لکھا ہے جس کا حاصل مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے عرب کے کچھ علاقوں میں لکھ کر قرآن یاد کرنے کا طریقہ رائج رہا ہے۔ طلبہ ایک صفحہ پر بغیر دیکھے آیت لکھتے ہیں اور استاذ کو دکھاتے ہیں، اگر غلطی ہوتی ہے تو استاذ غلط لفظ مٹاکر صحیح لفظ لکھ دیتا ہے، اس مخطوطہ میں بھی یہی ہوا۔ اس مسلم پروفیسر نے یہ ثابت کیا ہے کہ دونوں تحریروں کا زمانہ ایک دوسرے سے بہت قریب ہے۔ 

 

 دوسری مثال اپنے ملک کی ہے جہاں ایک سابق مسلمان نے اپنے فیس بک پر واضح لکھا ہے کہ: "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے آئڈیل اس وقت تک تھے جب وہ مکہ میں تھے۔۔۔۔۔۔" اس شخص نے ایک پورٹل پر قسط وار مضمون لکھا کہ مسلمانوں کی ساری مذہبی روایات مشرکین سے لی ہوئی ہیں، ان کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ شخص وقتا فوقتا ویڈیو بھی بناتا ہے اور اسلام پر اعتراض کرتا ہے۔  حالانکہ اہل علم کے لیے اس کا مضمون ایک مضحکہ خیز چیز ہوسکتی ہے لیکن عوام کے لیے یہ تباہ کن ہے۔ 

افسوس اس بات کا ہے ہم اس جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، حالانکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں نہ قارئین کی قلت مسئلہ ہے اور نہی ناظرین کی۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہمارے بعض باصلاحیت نوجوان فضلائے مدارس واٹس ایپ اور فیس بک پر خانہ جنگی برپا کیے ہوے ہیں، ذرا کوئی بات اپنے منہج کے خلاف دیکھی، فورا اس کے جواب اور جواب الجواب میں اپنا دن بھی ضائع کردیا اور نفسیاتی دباو کا بھی شکار ہوگئے۔ مسلم نوجوانوں کے ایمان کی فکر کون کرے گا؟ نہ مدارس میں سو فیصد مسلمان آتے اور نہی تبلیغی جماعت میں، یہ عام نوجوان ہیں جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مسئلہ کس سے پوچھنا ہے۔ سوشل میڈیائی نسل کے شکوک کا ازالہ اسی راستے سے ہوگا۔ اگر یہ ہوتا کہ فضلائے مدارس سوشل میڈیا بالکل بھی استعمال نہ کرتے تو بھی ایک بہانہ تھا، لیکن اب تو یہ عذر بھی گیا۔ اس بات کو بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں، اگر نہ ہوتیں تو ہم ایک دوسرے کے خلاف دلائل کا انبار کیسے لگاتے۔ ہمارے پاس معلومات بھی ہیں، وسائل بھی ہیں، وقت بھی ہے، لیکن سمت نہیں ہے۔ اپنی سمت کو درست کیجیے کیوں کہ ارتداد کی لہر چل رہی ہے اور کوئی ابوبکر سا نظر نہیں آتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے