غزہ: (فکروخبر/ذرائع)اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 18 مارچ سے غزہ میں دوبارہ شروع کی گئی کارروائیوں کے دوران فلسطینی علاقے کے تقریباً 30 فیصد حصے کو ‘سیکیورٹی بفر زون’ میں تبدیل کر دیا ہے اور اب تک 1200 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اسرائیلی فوج غزہ میں قائم کردہ بفر زون میں موجود رہے گی، بالکل اسی طرح جیسے وہ لبنان اور شام کی سرحدوں پر موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات اسرائیل کی طویل المدتی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔
اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ کے شہر رفح پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں موجود فلسطینیوں کو چھوٹے اور محدود علاقوں میں محصور کر دیا ہے۔ اس تازہ کارروائی میں سینکڑوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ غزہ کے شہری بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 18 مارچ سے جاری ان حملوں میں اب تک 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ صرف حالیہ دنوں میں شمالی غزہ میں 13 افراد، جبکہ ایک فضائی حملے میں 10 افراد شہید ہوئے، جن میں معروف فلسطینی مصنفہ اور فوٹوگرافر فاطمہ حسونا بھی شامل ہیں۔
طبی امدادی تنظیم "ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” (MSF) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ اب ایک "اجتماعی قبر” بن چکا ہے، جہاں نہ صرف عام فلسطینی بلکہ ان کی مدد کرنے والے طبی رضاکار بھی خطرے میں ہیں۔ تنظیم نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی امداد کی فوری فراہمی اور جنگ بندی کے لیے اقدامات کرے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل روکنے کا فیصلہ برقرار رکھیں گے، جس سے علاقے میں بھوک، بیماری اور مصائب مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ غزہ میں جاری صورتحال انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے، اور اگر فوری مداخلت نہ کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔