انتخابات سے قبل سیاستدان اپنے حواریوں اور کارکنان پر جاں نثار!!!

کہیں آپ سیاستدانوں کے ہاتھوں کا کھلونا تو نہیں بن رہے؟

بہار میں اسمبلی انتخابات قریب ہے اور مہاراشٹر میں کارپوریشن و نگر پالیکا کے انتخابات بھی سر پر ہے، مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کے حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں ہر شعبہ بی جے پی کی پالیسیوں سے متاثر ہوا ہے چاہے جی ایس ٹی ہو نوٹ بندی ہو، کرونا وائرس کے وقت غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن ہو عوام مخالف قانون سازیاں ہو بی جے پی ہر محاذ پرناکام نظر آتی ہے۔ملک میں مذہبی منافرت بھی عروج پر ہے میڈیا بھی غلامی کا پورا حق ادا کر رہا ہیں اور بی جے پی سرکار کی ناکامیوں کو کامیابی کی طرح بیان کرنے میں مصروف ہے۔ ان گیارہ سالوں میں مودی حکومت عوام کے حق میں کوئی مفید کام انجام دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن سے ساز باز اور ووٹ چوری کا بھانڈہ پھوٹ چوکا ہے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی غلامی اور امیت شاہ کے دعوے کی قلعی کھول کر سامنے آئی ہے کہ وہ‌ دو ہزار پچاس تک بھی اقتدار سے بے دخل نہیں ہونے والے ہے، راہول گاندھی نے عین انتخابات سے قبل ووٹ چوری کا انکشاف کرکے بی جے پی کو سکتہ میں ڈال دیا ہے اب نا تو وہ صفائی پیش کر پارہی ہیں اور نا سامنے آکر مخالفت کر پارہی ہیں کیونکہ راز افشاء ہوچکا ہے۔

آج کی تحریر کا اصل مقصد مہاراشٹرو بہار انتخابات کے پیش نظر نوجوانوں سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے مفاد کیلیے عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور سیاست ہیں ہی اسی کا نام اپنے مفادات کے لیے عوام کو جذباتی تقاریر اور بیانات وقتی طور پر ان کی دلجوئی اور بڑے بڑے جھوٹے دعوے، جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں سیاستدان خودساختہ امیدوار نام نہاد قائدین عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے کارکنان و حواریوں کو خصوصاً نوجوانوں کو مالی مدد یا امدادی سامان، نقد روپیے کی شکل میں ووٹ اکٹھا کرنے کیلیے نوجوانوں اور عوام کو بہلانے کیلیے ووٹ کے بدلے راشن کپڑے کھانے پینے کی اشیاء کٹ کی شکل میں اپنے اپنے علاقوں میں مفت تقسیم کیے جاتے ہیں اور پھر انکی بے بسی کی تصویریں اخبارات و سوشل میڈیا پر ڈال کر خوب تعریفیں سمیٹتے ہیں۔

نوجوانوں کو پارٹی میں عہدہ و ٹکٹ دلانے کا لالچ دیتے ہیں اور پارٹی کے لیے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں جب یہ سیاستدان اپنے کارکنان و حواریوں کی تصویروں کو استعمال کرکے پارٹی ہائی کمان کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ تمام نوجوان میرے ساتھ ہے اور اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ کارکنان کو یہ لالچ بھی دیا جاتا ہیں کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد نالیوں سڑکوں کے ٹھیکے آپ ہی کو دے گے۔ اور پارٹی میں کوئی عہدہ بھی دیا جائے گا۔

ذاتی طور پر عوام سے رابطے کرتے ہیں گھر گھر جاکر عوام سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں خصوصی تقریبات شادی بیاہ، جنازہ میں شرکت کرتے ہیں اور جھوٹی محبت و اپنایت کا راگ الاپتے ہیں، نوجوانوں کو جوش دلانے کے لیے جلسے و جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں سوشل میڈیا پر مہم چلاتے ہیں۔ بینروں پر چھوٹے بڑے فوٹو لگوا کر اپنے کارکنان و حواریوں کو یہ محسوس کرواتیہیں کہ پارٹی میں آپ کی بہت اہمیت ہیں اصل میں حقیقت کچھ اور ہوتی ہیں۔

کارکنان کے مسائل کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، دکھ سکھ میں شامل ہوکر انہیں اپنے برابری کا محسوس کرواتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ کارکنان کو صرف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی محفلیں منعقد کی جاتی ہے بڑی بڑی ہوٹلز میں پارٹیاں کی جاتی ہیں روزانہ چائے کی محفلیں سجتی ہیں کم سے کم قیمت کی ٹی شرٹ، ٹوپیاں،رومال کارکنان و حواریوں کو پہنائے جاتے ہیں جو نہ سردی میں کام آتی ہیں نا گرمی میں کام آتی ہیں۔ ساری رونقیں جھوٹی ساری تعریفیں جھوٹی اپنا بڑا پن ثابت کرنے کے لیے سیاستدان اپنے کارکنان سے سوشل میڈیا کے ذریعے منظم مہم چلاتے ہیں۔

اپنے مخالفین کے خلاف پروپگنڈا پھیلانے کا کام بھی انہیں کارکنان کے ذریعے لیا جاتا ہیں نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے۔ مذہبی منافرت پھیلانے کا کام کیا جاتا ہے عوام سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں،  گلی محلوں میں جاکر اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی پروگرام اور پروجیکٹ فائلوں کے ذریعے بتاتے ہیں ، پوسٹر بازیاں کی جاتی ہیں یہ سارا تماشہ صرف اور صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ہوتا ہیں۔ جیسے ہی ان کا مقصد پورا ہوجاتا ہے پھر وہ آپ کو کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔

اس لیے خصوصاً نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنی زندگیوں اور وقت کو ان جھوٹے مکار لیڈروں کے پیچھے برباد مت کیجیے آپ کا وقت بھی قیمتی ہیں اور زندگی بھی قیمتی ہیں ان جھوٹے سیاستدانوں کے لیے اپنی زندگیوں کو دشمنی و نفرت کے دھارے میں شامل مت کیجیے ہو سکتا ہیں آپ کے گھر میں آپ تنہا کمانے والے ہو آپ کے اوپر گھر کی ذمہ داریاں ہیں بوڑھے ماں باپ ہیں بیوی بچے ہیں کسی کے اوپر بہنوں کی شادیوں کی ذمہ داری ہیں تو کسی پر چھوٹے بھائیوں کی پڑھائی کا بوجھ ہیں کسی کے اوپر بوڑھے والدین کی بیماری کے علاج کی ذمہ داری ہیں۔ آج ہوش میں آنے کی ضرورت ہے۔ خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہیں کیونکہ وقت تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہیں دنیا اپنے طیور بدل چکی ہیں اس نفسہ نفسی کے دور میں وہی زندہ رہے گا جو حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت طاقت و صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں گا وقت کا ظالم پہیاں رواں دواں ہیں یہ کسی کے لیے رکنے والا نہیں ہیں یہاں غفلت کا نتیجہ موت ثابت ہوسکتا ہے۔

اس لیے اپنے آپ کو سنوارنے اور دنیا کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے فضول کاموں سے بچنے اور دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے بہتر ہیں کہ گمنامی میں رہ کر اپنی زندگی کو سنوارنے پر محنت کی جائے تاکہ آپ کی خاموش محنت بعد میں کامیابی کا شور ثابت ہوگی۔ یہ سیاستدان صرف انتخابات تک ہی آپ کو نظر آئیں گے اور آپ کے ساتھ دکھائی دیں گے بعد میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی یہ کہیں نظر نہیں آتے ہیں بلکہ یہ اپنے بچوں اور نسلوں کی سنوارنے کے لیے آپ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خود کے بچے کبھی آپ کو تشہیر کرتے نظر نہیں آئیں گے ان کے بچے بڑی بڑی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بیرون ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں تو کوئی بڑی کمپنیوں کا مالک ہیں اور ہمارا چھوٹا سا بچہ بھی فلاح فلاح پارٹی کا جھنڈا سائیکل پر لگا کر نعرے بازی کرتے نظر آتا ہیں جس کے پیر میں ٹوٹی ہوئی چپل کسی لیڈر کو نظر نہیں آتی ہیں اور نا ہی اس کی تعلیم و مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)

محاصرہ در محاصرہ؛ صہیونی سازش میں سیرت نبوی سے سبق

منڈیا: بسنا گوڑا یتنال کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر پر ایف آئی آر، مبینہ طور پر فرقہ وارانہ بیان بازی کا الزام