بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت، معصیت، اور گناہ وثواب بھی ہے جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی ہمارے گلے کا ہاریا عذابِ جہنم بنیں گے، یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے؟ اور اگرچہ آج کل اس اکھاڑہ کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہوتے ہیں جو فکر آخرت اور خداورسول کی طاعت ومعصیت سے مطلقاً آزاد ہیں، اور اس حالت میں ان کے سامنے قرآن وحدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی اور فعل عبث معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ ہر زمانہ اور ہر جگہ کچھ لوگ حق پرست بھی قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہرکام میں حلال وحرام کی فکر اور خدا اور رسول کی رضاجوئی پیش نظر رہتی ہے، نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے۔(سورۃ ۵۱؍آیت ۵۵) اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں امیدوار ی اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور ان کی اہمیت کو قرآن اور سنت کی رو سے واضح کردیا جائے شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسیو قت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔امیدواری:کسی نشست کی ممبری کے انتخابات کے لیے جو امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہوتا ہے وہ گویا پوری ملت کے سامنے دوچیزوں کا مدعی ہوتا ہے، ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جس کا امیدوار ہے، دوسرے یہ کہ وہ دیادنت وامانت داری سے اس کام کو انجام دے گا، اب اگر واقع میں وہ اپنے اس دعوی میں سچا ہے، یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے اور امانت ودیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبہ سے اس میدان میں آیا ہے تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے، اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نامزد کردے،( اور اگر کہیں ایسی صورتِ حال ہو کہ لائق لوگوں کو پیچھے کیا جاتا ہو اور نالائق لوگوں کو آگے لایا جاتا ہو تو پھر باشعور انسانوں اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ لائق انسان یا مسلمان کو امیدوار بنایا جائے۔) اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں وہ اگر امیدوار ہوکر کھڑا ہوتو قوم کا غدار اور خائن ہے، اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک وملت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدار وخیانت کا مجرم ہوکر عذابِ جہنم کا مستحق بن جائے گا، اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائز ہ لے لے اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال ہی تک محدود تھی کیونکہ بنصِّ حدیث ہر شخص اپنے اہل وعیال کا بھی ذمہ دار ہے، اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلق خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے ان سب کی ذمہ داری کا بوجھ اس کی گردن پر آتا ہے اور وہ دنیا وآخرت میں اس ذمہ داری کا مسؤل اور جواب دہ ہے۔
ووٹ اور ووٹر:کسی ممبری کے امیدوار کو وٹ دینے کی اَز روئے قرآن وحدیث چند حیثیتیں ہیں۔(۱) ایک حیثیت ’’شہادت ‘‘کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے اس کے متعلق اس کی ’’شہادت‘‘ دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت و امانت دار بھی ہے۔ اگر واقع میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے جوسخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا وآخرت ہے، صحیح بخاری کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کا ذبہ (جھوٹی گواہی)کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے۔ (مشکوۃ) اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر فرمایا ہے۔ (بخاری ومسلم) جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو تعلقات کی بنیاد پر ووٹ دینا اس اکبر کبائر (یعنی بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ)میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کرووٹ دے محض رسمی مروت یا کسی طمع وخوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔ (۲)دوسری حیثیت ووٹ کی ’’شفاعت‘‘ یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے، اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹرکو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ قرآن کہتا ہے: جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے۔(سورۃ۴؍ آیت۸۵) تو اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلق خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے۔ اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق اور ظالم کی سفارش کرکے اس کو خلق خدا پر مسلط کرے، اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پنچ سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔(۳) ووٹ کی ایک تیسری حیثیت ’’وکالت‘‘ کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔ اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع ونقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا توا س کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے، اس لیے اگر کسی ناہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے، ایک ’’شہادت‘‘ دوسرے ’’سفارش‘‘، تیسری حقوق مشترکہ میں ’’وکالت‘‘، تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے،ا ورا سکے ثمرات دنیا وآخرت میں اس کوملنے والے ہیں، اس طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی۔ اور ناجائز وکالت بھی۔ اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔
قرآن وسنت کی رو سے یہ واضح ہوگیا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کوووٹ دینا گناہِ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے نیک اور قابل آدمی کو وٹ دینا ثوابِ عظیم ہے، بلکہ ایک فریضۂ شرعی ہے، قرآن کریم نے جیسے ’’جھوٹی شہادت‘‘ کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح ’’سچی شہادت‘‘ کو واجب ولازم بھی فرمایا ہے: ارشاد ہے کہ: ’’اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودئ مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وہ شخص اگر امیر ہو تو، اور فقیر ہوتو، دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے، اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑدینا، اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کروگے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘ (سورۃ۴؍ آیت:۱۳۵)اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کردے، عدل کیا کرو، جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں۔ اللہ کے لیے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ تیسری جگہ سورہ طلاق میں ارشاد ہے کہ: ’’اور اللہ کی رضامندی کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔(سورۃ۶۵؍ آیت:۲) ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد ہے کہ: ’’ شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے۔ ان تمام قرآنی آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں، ضرور ادا کریں، آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً ان لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں، اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے اس لیے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہوا س کے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم وملت پر ظلم کا مرادف ہے۔ اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کا ر اور خداترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہوتو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیسا کہ نجاست کے پورے ازالہ پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیل نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیل ظلم کو فقہاء رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ اس لیے پورے اتفاق واتحاد سے کسی ایک اچھے نمائندہ کو چن کر مجموعی طور پر اس کو ووٹ کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے اچھے ثمرات مرتب ہو، چونکہ ووٹ کی حیثیت ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اوراس پر کوئی معاوضۃ لینا بھی حرام ، اس میں محض ایک سیاسی ہارجیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا ہی بڑی بھاری غلطی ہے، کیونکہ آپ جس امیدوار کو وٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم وعمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے۔ مذکورہ بالا تفصیل کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائی بر آمد ہوتے ہیں:۔
(۱) آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعہ جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی، آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔ (۲) اس معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، اورثواب وعذاب بھی محدود ہوتا ہے، لیکن قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنی نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے اس کا ثواب وعذاب بھی بہت بڑا ہے۔ (۳) سچی شہادت کا چھپانا از روئے قرآن حرام ہے، اس لیے آپ کے حلقہ انتخابات میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل ودیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اسی کو ووٹ دیا جائے، اس میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ (۴) جو امیدوار نظام اسلامی کے خلاف کوئی ظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ البتہ ہمارے اس ملک میں چونکہ سیکولر گورنمنٹ قائم ہے، اس کا قانون قانونِ اسلامی سے الگ ہے، اس لیے اس میں اچھا انسان جو اقلیتوں کے حقوق کا پاسبان ہو ووٹنگ کے لیے منتخب کیا جائے۔ (۵) ووٹ کو پیسوں کے معاوضہ میں دنیا بدترین قسم کی رشوت ہے، اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے، دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال ودولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہوسکتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے، جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھوبیٹھے۔(
جواب دیں