فکروخبر ڈیسک رپورٹ
یہ منظر کسی بھی دل کو چیر کر رکھ دے۔ ایک ماں، اپنی بیمار بیٹی کو کندھوں پر اٹھائے، مدد کے لیے در در بھٹک رہی ہے ، مگر نہ کوئی ہاتھ بڑھاتا ہے، نہ کوئی سہارا دیتا ہے۔ بالآخر وہ بیٹی راستے میں ہی دم توڑ دیتی ہے۔ یہ صرف ایک ماں کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسے معاشرے کا آئینہ ہے جو بے حسی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
یہ وہ معاشرہ ہے جسے نہ کسی کی مدد کی فکر ہے، نہ کسی کے دکھ میں شریک ہونے کا جذبہ۔ لوگ اپنے کاموں میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں کسی کے درد پر نظر ڈالنے کی بھی فرصت نہیں۔ بے سہارا ماں اپنی بیٹی کو کندھوں پر اٹھائے سہارے کی تلاش میں ہے، مگر ہر در بند ہے۔ سوچنے کی بات ہے، اس ماں کی ممتا پر کیا گزری ہوگی جس نے اپنی بیٹی کو لاد و پیار سے پالا، اور آج وہی بیٹی اسی کے کندھوں پر دم توڑ رہی ہے۔
یہ ہمارے اس معاشرے کی بے حسی ہے جسے اپنی تعلیم، مرتبے اور دولت پر اتنا غرور ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں — نہ انسان کو، نہ انسانیت کو۔
یہ واقعہ ہے کہ ادھم سنگھ نگر کے کیچھا علاقے کا ہے جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہیرا کلی نامی ضعیف ماں اپنی شادی شدہ بیٹی رجنی کو اس کے سسرال سے کندھوں پر اٹھا کر لے جا رہی تھی، کیونکہ کوئی اس کی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ الزام ہے کہ رجنی کو سسرال والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد اس کی حالت بگڑ گئی۔ ای رکشہ والے نے بھی سوار کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ کسی طرح پرائیویٹ ایمبولینس کا انتظام کر پائی، مگر اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی بیٹی نے دم توڑ دیا۔
ہیرا کلی کے آنسو، اس کی تھکی ہوئی سانسیں اور اس کا انصاف مانگتا چہرہ آج ہم سب سے سوال کر رہا ہے —
آخر انسانیت کہاں مر گئی؟
کیا ہمارا ضمیر اتنا سنگدل ہو چکا ہے کہ ایک ماں کی فریاد بھی ہمیں جھنجھوڑ نہیں سکتی؟
پولیس نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، لیکن سماج پر لگنے والا یہ داغ شاید کبھی نہ دھل سکے۔




