ہندوستان ٹیپوسلطان کی قربانیوں کا مرہون منت

ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھے بلکہ حقیقی معنیٰ میں ایک مردِ مومن تھے۔ عالِم، عابد ، ممتاز منتظم باکمال جرنیل اور خداترس حکمراں تھے۔انہیں ایک تجربہ کار سیاستداں اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والے عوامی رہنما اور قائد ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ بابائے میزائل مرحوم اے پی جے عبد الکلام کی علم و تحقیق کی روشنی میں وہ دنیا کے پہلے میزائل مین تھے۔
ٹیپو سلطان 10نومبر 1750ء کو ہندوستان کے موجودہ شہر بنگلورسے 21 میل دور شمالی بنگلور کے نواحی گاؤں یوسف آباد میں پیدا ہوئے۔ ٹیپو سلطان کی والدہ کا نام فاطمہ فخرالنساء تھا جو کاڈیا کے قلعے کے گورنر میرمحی الدین کی بیٹی تھیں اور سلطان ٹیپو کے والد حیدر علی کی دوسری بیوی تھیں۔سلطان ٹیپو کا تعلق عربی النسل قریشی خاندان سے تھا یہ خاندان مکہ سے جنوبی ہند کے علاقے گلبرگ پہنچا ۔ٹیپو سلطان کا نام بزرگ مستان شاہ ٹیپو کے نام پر رکھا گیا۔ ٹیپو کے نام کا ایک حصہ فتح علی، اس کے والد اور دادا سے منسوب ہے۔ اس لیے انہیں فتح علی سلطان ٹیپو کہا جاتا ہے۔سلطان ٹیپو کے والد حیدر علی سلطنتِ میسور کے فوجی افسر تھے ،1761ء میں حیدر علی سلطنت میسور کے فرماں روا بن گئے حیدر علی کو سرور کائنات کے قبیلے قریش کے ساتھ اپنی نسبت پر بڑا نازتھا۔
ٹیپوسلطان کے والد محترم نے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے اعلیٰ درجے کا استاد مقرر کیا، بہت کم عرصے میں ذہین و فطین سلطان ٹیپو کو ہندی ، اردو، عربی، فارسی، کناڈا جیسی زبانوں پر عبور حاصل ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے قرآن مجید، حدیث شریف اور اسلامی فقہ کی تعلیم مکمل کر لی، سلطان ٹیپو نے شہ سواری، نشانے بازی اور دیگر جنگی امور میں بھی مہارت حاصل کر لی،حیدر علی نے سلطان ٹیپو کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے فنون حرب میں بھی یکتائے روزگار بنایا،ٹیپوسلطان ابھی 15 برس کے تھے جب 1766ء میں انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ انگریزوں کے خلاف میسور کی پہلی لڑائی لڑی،1767 میں کرناٹک پر قبضے کے دوران انہوں نے زمینی فوج کی کمان سنبھالی، 1775-79ء کی پہلی اینگلو مہارتھا وار میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا،انگریزوں کو حیدر آباد دکن سے نکالنے کے لیے حیدر علی نے جو فوج بھیجی اس کی کمان بھی سلطان ٹیپو نے سنبھالی۔ ٹیپو سلطان نے اپنی فہم فراست سے نواب آف حیدر آباد کو اپنی مدد کے لیے قائل کیا جنہوں نے ٹیپو سلطان کو نصیب الدولہ فتح علی خان بہادر کے لقب سے نوازا۔

1782میں اپنے والد حیدر علی کی وفات کے بعد سلطان ٹیپو نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی اور ایک قلیل مدت میں مختلف الجہات اصلاحات سے سلطنت کو صحیح معنوں میں تعمیری، زرعی، صنعت، فوجی، تہذیبی، تمدنی اور دیگر شعبوں میں خود کفیل بنا دیا، نئے قوانین و ضوابط کے تحت فوج منظم کی، دوکاموں پر خاص توجہ دی۔ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی۔دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر اس کے باوجود سلطنت میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتاہے۔
ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا گیا کہ ٹیپو سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو سے بڑھ کر ہے۔
ٹیپو سلطان نے اپنے عہد حکومت میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنیدجیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا، لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت، فوجی سالاروں اور قلعہ داروں کو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعداس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس فرمانرو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوفناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔
ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں بلاتفریق مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم تھا۔ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام146146 مجلس غم نہ باشد145145تھا۔ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام فتح المجاہدین تھا اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ملکی آئین تھا۔ سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو کثیر مشاہرہ پر یہاں مقرر کیا گیا۔

سلطان ٹیپو کو اسلام کی محبت نے وطن کی آزادی سے غافل کیا نہ وطن کی آزادی کے شوق میں انہوں نے اسلام کی خدمت میں کوتاہی کی، ہندو مسلم نااتفاقی مٹانے اور غیر ملکی استعمار پرستوں کے خلاف مسلمانوں اور ہندؤں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے ٹیپوسلطان کی کوشش تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی ہوئی ہیں۔ ہر محکمے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی جاتی تھی، فارسی کے ساتھ کنڑی دفتر بھی قائم کیا گیا تھا، مسلمان اور ہندو وزراء کی تعداد برابر تھی، سلطان ہندوستان کے پہلے مجاہد تھے جنہوں نے اہل ہند اور اہل مشرق کو انگریزوں کے خلاف بیدار اور متحد کیا تھا۔ٹیپو سلطان کو توپ بنانے میں بھی اولیت حاصل ہے ایک فرانسیسی انجینئر کی مدد سے اس نے توپ کا کارخانہ بھی بنایا ٹیپو سلطان غالباًہندوستان کا پہلا میزائل مین بھی تھا جس نے طغرق نامی راکٹ بنایا تھا اور اسے انگریزوں کے خلاف استعمال کیا ۔
حق پرستی اور رواداری سلطان ٹیپو کی نمایاں خصوصیت تھی۔ ان کے بڑے بیٹے نے ایک غریب کسان کے کھیت سے بلااجازت سبزی توڑ لی، اس عظیم بادشاہ نے بیٹے کو سزا دے کر عدل و انصاف کا بول بالا کیا، قلعہ ڈنڈیکل پر حملے کے وقت حکم دیا ،حملہ قلعہ کی پچھلی جانب سے نہ کیا جائے کیونکہ اس طرف راجہ کا مندر ہے مسلم اور ہندوؤں میں بلا رو رعایت انصاف کرنا سلطان ٹیپو کا خاصہ تھا۔ ظالم کے علاوہ کسی کو بھی ناحق تکلیف دینا انہیں سخت ناپسند تھا۔ترخیا پلی مندر کے ساتھ ایک بہت بڑی جاگیر وقف کرنا، سلطان کی مذہبی رواداری کی روشن دلیل ہے اس جیسی دیگر مثالیں تیبخور، میسور، ارکاٹ اور دیگر علاقوں میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ سلطان ٹیپو نے دکن کو تہذیب و ثقافت کا گہوار بنا دیا،اچھوتوں میں اشاعت اسلام سے ان کا مقام معاشرے میں بلند کیا، برہمنوں کے جبر و استبداد سے اچھوتوں کو ہمیشہ کے لیے نجات دلائی،، مسلمانوں اور ہندوؤں کی بڑی تعدادٹیپو سلطان کو آج بھی یاد کرتی ہے۔
وہ ہندوستان کا پہلا حکمراں ہے جس نے نے اردو کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا پہلا اردو اخبار فوجی نکالا سلطان ٹیپو واحد مشرقی حکمران تھا جن کے شب و روز محلوں اور ایوانوں کے بجائے لڑائی کے میدانوں اور فوجی خیموں میں گزرے، آخری چار سال تو انہوں نے نے خیمے میں کمبل اور اینٹ کے تکیے پر گزارے ہمیشہ سادہ غذا استعمال کرتے تھے۔
مورخ ڈاکٹر دلاری قریشی کے بقول سلطان ٹیپو ایسا جنگو بادشاہ تھا جو دشمن کے خلاف متحرک ہونے میں تاخیر نہیں کرتاتھا ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر لڑنا ٹیپو کی شان تھی ،میسور آرمی کو ایک عسکری سائنس کا ادارہ بنانا ان کا کارنامہ ہے۔سلطان ٹیپو نے تمام چھوٹی چھوٹی جنوبی ریاستوں کو تسخیر کیا، نظاموں کو شکست دی، وہ چند ہندوستانی بادشاہوں میں سے تھے جنہوں نے برطانوی دشمن کو شکست دی۔ سلطان نے نئے سکوں، کیلنڈرز، اوزان پیمائش کو فرانسیسی تکنیک کے مطابق متعارف کرایا۔ مورخین کا کہنا ہے سلطان ٹیپو بنیادی طور پر ا یک صوفی تھا مگر ان کے والد حیدر علی نے انہیں شمشیر زن سپاہی بننے پر مجبور کیا۔سلطان ٹیپو نے عورتوں کی توقیر بڑھانے کے لیے عورت فروشی کو ممنوع قرار دیا، میسور گریٹر کے مصنف کے مطابق سلطان دن بھر بغیر آرام کے سلطنت کے امور میں مصروف رہتا تھاسخت سے سخت خطرے میں بھی اطمینان کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتاتھا۔ دنیا کی کوئی بات کسی حالت میں بھی انہیں خوف زدہ نہیں کر سکتی تھی، یہ عظیم مجاہداپنوں کی غداری کی بدولت ایک عظیم خواب سینے میں سجائے ہوئے انگریزوں کے ساتھ لڑتاہوا 4 مئی ،1799 کو اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کرگیا ۔
ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت میسور کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ملک میں ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ146146 آج سے ہندوستان ہمارا ہے145145۔
یہ مختصر سی حیات زندگی ہے عظیم فرماں روا شیر میسور ٹیپوسلطان کی جس کا ہر باب یہ بتارہاہے کہ حب الوطنی ان کی زندگی میں شہ رگ کی طرح سمائی ہوئی تھی ،ہندوستان ان کی قربانیوں کا مرہون منت ہے ، ہندؤوں سے محبت اور انہیں اقتدار میں شریک کرنے کی جو تاریخ انہوں نے قائم کی تھی ہندوستان کی سیکولر حکومت سترسالوں کا عرصہ گذرجانے کے باوجودبھی اس کے عشر عشیر کے قریب تک نہیں پہونچ سکی ہے پھر بھی اس عظیم حکمراں پر فرقہ پرست ، غیری ملکی اور غدار ہونے کا گھناؤنا الزام لگایا جارہا ہے ، برسوں کے مطالبہ کے بعد آج10 نومبر ،2015 کو ان کے256 ویں یوم پیدائش پر کرناٹک کی کانگریس حکومت نے ان کی سالگرہ منانے کا اعلان کیا تو ہندتو خیمے میں آگ لگ گئی ، شدت پسندہندوستانیوں کو یہ برداشت نہیں ہوسکا اور جو من میں آیا اس عظیم مجاہد آزادی کی شان میں بولنا شرو ع کردیا ۔بی جے پی لیڈران بھی آر ایس ایس اور ہند وپریشد کی حمایت میں کھل کر آگئی ہے ۔ کچھ ٹی وی چینلز بھی ہندتو کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر ٹیپوسلطان کی خدمات کیا ہے جو ان کی سالگرہ منانے کی ضرورت پیش آئی ؟،توکچھ لوگ آزاد ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے حضرت ٹیپوسلطان کا موازنہ کررہے ہیں۔اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ایک اور منصف اور عظیم مسلم حکمراں پر حملہ کیا گیا ہے جو ناقابل برداشت اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔تاریخی حقائق کے خلاف اور محسن قوم کی شان میں گستاخی ہے جو بہر صورت ناقابل معافی اور گنگاجمنی تہذیب کے منافی ہے۔

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے