اور یہ بھی 18 اکتوبر کا ہی واقعہ ہے کہ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے اپنے پانچ چہیتوں کو بلایا اور شہرت دے دی گئی کہ امت شاہ نے ان کی سرزنش کی ہے اور ہدایت دی ہے کہ وہ ہر بات پر بیان نہ دیا کریں۔ جن لوگوں کو امت شاہ نے بلایا تھا ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو پارلیمنٹ یا اسمبلی کا ممبر نہ ہو۔ ان کو بلاکر اگر کوئی ہدایت دینا تھی تو یہ کام مودی صاحب کو کرنا چاہئے تھا۔ اس موضوع پر اُن کا بہار میں ذکر کرنا اور معاملہ کو ایک ایسے صدر کے سپرد کردینا جو خود داغی ہے اور نہ پارلیمنٹ کا ممبر ہے نہ شمالی ہند کا لیڈر۔ اس لئے اسے ایک ڈرامہ سے زیادہ نہیں مانا جاسکتا۔
اترپردیش میں ایک بار کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ تھے ان کے زمانہ میں تعزیہ کے جلوس پر مراد آباد میں جھگڑا ہوگیا۔ دو ہندو مرگئے اور دو مسلمان۔ ڈی ایم نے کرفیو لگا دیا۔ کلیان سنگھ نے حکم دے دیا کہ کسی بھی پارٹی کے لیڈر کو چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو شہر کے اندر نہ آنے دینا اور بی جے پی کا بھی کوئی وزیر یا لیڈر دخل دے تو کہہ دینا کہ وزیر اعلیٰ سے بات کرو۔ میں امن چاہتا ہوں اور اس کی ذمہ داری تمہاری ہے۔ تین دن کرفیو رہا اس کے بعد ڈی ایم نے دونوں میں صلح کرادی اور شہر اپنے معمول پر آگیا۔ یہ کلیان سنگھ وہی ہیں جن سے نفرت کرنا مسلمان کے ایمان کا جزو ہے اور ہم نے جتنا ہوسکا اُن کے خلاف لکھا بھی ہے اور آئندہ بھی لکھیں گے۔ لیکن اگر دشمنی کی بھی کوئی بات اچھی ہو تو اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے سب کچھ جاننے کے باوجود پولیس کو یہ حکم نہیں دیا کہ باہر کے کسی آدمی کو گاؤں میں داخل نہ ہونے دینا اور ڈی ایم کو حکم نہیں دیا کہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لو اور جلد سے جلد حقیقی ملزموں کو گرفتار کراؤ۔ مندر سے اعلان کرنے والے پجاری کو بے قصور ماننا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ مندر کا پجاری ہے اور بابا ہے۔ اگر وہ مسجد کا امام ہوتا اور اس کے اعلان سے کسی ہندو کو قتل کردیا جاتا تو سب سے پہلے اسے گرفتار کیا جاتا اور اس سے معلوم کیا جاتا کہ حرکت کس کی تھی؟
وزیر اعظم کو جو رپورٹ بھیجی گئی ہے اسے بھی انتہائی نرم اور بے ضرر کردیا گیا ہے جس کی آڑ لے کر وزیر اعظم اپنا دامن جھٹک رہے ہیں پھر بھی وہ اگر دلبرداشتہ ہیں اور جانتے ہیں کہ اخلاق کا کہیں سے کہیں تک قصور نہیں تھا تو کیا بس یہ دو چار جملے وہ بھی بہار کے ووٹروں کے سامنے کہہ دینے سے اُن کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ وہ اندرا گاندھی جیسے وزیر اعظم ہیں اگر صبح شام ہر معاملے میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے بیانات دینے والے یہ جانتے ہوتے کہ ہمیں اپنے منھ سے نکلے ہوئے ہر حرف کا مودی سرکار کو جواب دینا ہوگا تو کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی مرضی سے ان قاتلوں کی حمایت کرنے جاتا۔ اندرا گاندھی جب وزیر اعظم تھیں تو مشہور تھا کہ اندراجی کی کابینہ میں صرف ایک مرد ہے اور اس کا نام ہے اندرا گاندھی۔ یہی صورت آج ہے کہ مودی سرکار میں ڈیڑھ مرد ہیں ایک مرد مودی اور آدھے مرد جیٹلی۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی بولے تو سمجھنا چاہئے کہ مودی ہی بلوا رہے ہیں۔
کل 18 اکتوبر کو وزیر مالیات ارون جیٹلی کے جسم میں سپریم کورٹ کے فیصلہ سے سب سے زیادہ چینکے لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ہر جج کو مائی لارڈ کہتے کہتے بوڑھے ہوگئے۔ اب برسوں سے سپریم کورٹ میں پریکٹس کررہے ہیں۔ ان کی ہی کوشش سے قومی عدالتی تقرری کمیشن بننے جارہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی باقی زندگی اس طرح گذرے کہ صبح صبح سب سے پہلے سپریم کورٹ کے جج ان کے دربار میں آکر فریاد کریں کہ ان کے اوپر نظرکرم رکھی جائے۔ وہی تقرر کریں وہی ترقی دیں۔ وہی توسیع دیں اور وہی چیف کا فیصلہ کریں۔
ارون جیٹلی نے بڑی ناگواری سے سپریم کورٹ کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ انہوں نے آئینی ڈھانچہ کے بنیادی ستون کو نظرانداز کردیا۔ جیٹلی صاحب کے نزدیک بنیادی ستون وہ ہیں جنہیں ساکشی مہاراج یا سادھوی پراچی یا سنگیت سوم کہا جاتا ہے اور سب سے مضبوط ستون وہ اپنے کو سمجھتے ہیں جن کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ انہوں نے لوک سبھا کا الیکشن امرتسر سے لڑا۔ وہاں کے ووٹروں کو دھوکہ دینے کے لئے ایک کروڑ کا مکان بھی خریدکر یقین دلایا کہ وہ اب وہیں رہیں گے۔ وہ بڑے لیڈروں میں ایک تھے لیکن سارا وقت صرف اپنے الیکشن میں ووٹ مانگنے میں لگا دیا۔ اس کے بعد بھی ہار گئے۔ اور جب انہیں مودی نے وزیر بنانا چاہا تو ایک بار بھی انہوں نے نہیں کہا کہ اخلاقی طور پر مجھے حق نہیں ہے۔ مجھے ووٹروں نے مسترد کردیا ہے۔ اب جب تک میں لوک سبھا کا کہیں سے الیکشن لڑکر نہ آؤں اس وقت تک وزارت نہیں لوں گا۔ لیکن انہوں نے ذراسا بھی تکلف نہیں کیا۔ اس لئے ہم نے انہیں کابینہ کا آدھا مرد (189) کہا ہے اور شاید یہی دیکھ کر سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے اسے مسترد کردیا کہ پھر جس کو کمیشن جج بنانے کا فیصلہ کرچکا ہوگا وہ چاہے ٹسٹ میں یا انٹرویو میں فیل بھی ہوجائے کمیشن اسے ایسے ہی جج بنادے گا جیسے مودی صاحب نے جیٹلی کو اور اسمرتی ایرانی کو بنا دیا۔ یا سونیا گاندھی ایسے آدمی کو دس برس وزیر اعظم بنائے رہیں جس نے صرف ایک بار لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور بری طرح ہارکر پھر نام نہیں لیا۔ ان سے بھی پہلے شری اٹل بہاری باجپئی نے جسونت سنگھ اور دوسرے پیارے ساتھی کو ہارنے کے باوجود وزیر بنایا اور بعد میں انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔ جس آئینی ڈھانچے کے بنیادی ستون ہر طرف سے پھٹے ہوئے ہوں اُن کے ہاتھوں میں 122 کروڑ انسانوں کی تقدیر کی لگام تھما دینا ایک جرم ہوتا جسے قبول نہ کرکے سپریم کورٹ کے ججوں نے ملک کے اندر آنے والے سب سے بھیانک زلزلے کو روک دیا ہے۔ ملک کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے۔
ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ حکومت آر ایس ایس کی ہے۔ پارٹی کے ایک ترجمان نے کل ایک مذاکرے میں کہا تھا کہ ملک میں کہیں بھی کوئی واردات ہو اس میں بی جے پی پر الزام لگادیا جاتا ہے۔ یہ بات ہر ہندوستانی کے دماغ میں رہنا چاہئے کہ بی جے پی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ آر ایس ایس ہے۔ جس کا ثبوت تازہ یہ ہے کہ دادری کے جس واقعہ کے بارے میں مودی نے کہا تھا کہ ’یہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہے۔‘ اس کے بارے میں ان کے آقاکے اخبار پانچ جنیہ اور آرگنائزر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ’گؤکشی کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔ مدرسے اور مسلم لیڈر نوجوانوں کو ملک کی روایات سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔ اخلاق بھی ان ہی بری ہدایتوں کی وجہ سے گائے کی قربانی کربیٹھا۔‘ جس جس ہندو نے یہ مضمون پڑھا ہوگا ظاہر ہے اسے یقین ہوگیا ہوگا کہ اخلاق نے گائے کاٹی تھی۔ چاہے وہ موہن بھاگوت کی مونچھوں سے زیادہ سفید اور موٹا جھوٹ ہو چاہے مودی اور دوسرے وزیر اور افسر کچھ کہیں، چاہے گوشت کی تحقیق کرنے والے مودی کے کالے قلم سے زیادہ کالے قلم سے لکھیں کہ اخلاق کے فریج میں رکھا ہوا گوشت بکرے کا تھا۔ مگر ہر وہ ہندو جو موہن بھاگوت کو چھوٹا بھگوان مانتا ہے وہ اسی کو صحیح مانے گا جو سنگھ کے اخباروں نے لکھ دیا ہے۔
ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب لکھنؤ میں چھپنے والا پانچ جنیہ لکھنؤ کے ایک پریس میں چھپتا تھا اور اٹل بہاری باجپئی سنگھ کے ایک سیوک کی طرح سائیکل کے کیریئر پر وہ باندھ کر ہر اخبار فروش کو اور ہر بک اسٹال پر رکھتے پھرتے تھے۔ ہم نے اس اخبار کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب اس کی سپلائی کا ٹھیکہ ہمارے ایک دوست کھڑک سنگھ کے پاس تھا اور معلوم رہتا تھا کہ وہ کتنا چھپتا ہے کتنا بکتا ہے اور کتنا پھینکا جاتا ہے؟ آج حکومت بن گئی تو اس کی حیثیت گیتا کی ہوگئی اور اس میں جو لکھ کر دیا جائے اسے جاہل ہندو سچ سمجھتا ہے۔ اس کے بعد مودی صاحب کو وزیر اعظم سمجھ کر یہ کہنا کہ ایک مری ہوئی گائے کو کھال اتارنے کے لئے لے جانے والوں کو مین پوری میں اور دو مری ہوئی گایوں کو مارنے کے الزام میں جموں میں اور خریدکر لائے جانے والے بیلوں اور گایوں کو ٹرک میں کسی شہر سے دوسرے شہر لے جانے کے جرم میں چار مسلمان لڑکوں کو قتل کرادینا کیا صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ حکومت آر ایس ایس کی ہے؟ جس کا کوئی تعلق ملک کے کسی علمی ادارے سے نہیں ہے اور جہاں صرف ایک سبق پڑھایا جاتا ہے کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں انہوں نے سات سو برس تمہارے باپ دادا پردادا کو غلام بناکر رکھا ہے اب تمہیں ان سے گن گن کر بدلے لینا اور اب جو کچھ ہورہا ہے وہ یہی زہر ہے جو ہندوؤں کو پلایا جارہا ہے۔ ورنہ کھٹر نام کے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہوں یا ساکشی مہاراج یا خود موہن بھاگوت اپنے ہاتھوں میں گیتا لے کر کہیں کہ آج سے 68 برس پہلے گوشت کی ہر مارکیٹ میں انہوں نے گائے کا گوشت کھلے عام بکتا ہوا نہیں دیکھا؟ اور کیا انہیں معلوم ہے کہ انگریزوں کے اقتدار کے پورے زمانے میں جتنی گائیں کٹتی تھیں اتنی تو نہ مرغی کٹتی تھی نہ بکرے۔ اس وقت وہ وید کہاں تھے جس میں لکھا ہے کہ گائے کاٹنے والے کو سزائے موت دی جائے؟
آج جتنے نوجوان جس جس ہندو تنظیم سے جڑے ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں وہ اپنے باپ سے اگر وہ 80 برس کے ہوں۔ نہیں تو دادا سے یا نانا سے معلوم کریں کہ تم نے گؤماتا کی حفاظت کے لئے انگریزوں سے لڑکر اپنی جان کیوں نہیں دے دی؟ اور تم بزدلوں کی طرح ہر دن ہزاروں گائیں کٹتے اور بکتے یا کھاتے دیکھتے رہے اور چپ رہے؟ ہر ضلع کا ریکارڈ محافظ خانوں میں موجود ہے جو ہندو پڑھے لکھے ہیں وہ ریکارڈ روم سے نکلواکر دیکھ لیں کہ کس شہر کس قصبہ اور بقرعید میں گاؤں گاؤں کتنے ہزار گائیں کاٹی جاتی تھیں اور تمام ہندو دیکھتے رہے اور چپ رہے۔
ظاہر ہے کہ آج حکومت بدترین ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے ساری فوج اور پولیس بھی ہندو ہے۔ اسلحہ کے لائسنس بھی 90 فیصدی ہندو کو دیئے جاتے ہیں اور ہر قسم کی صنعت بھی ان کے ہی پاس ہے۔ وہی آج 30 ہزار ٹن گوشت روز مسلم ملکوں کو گائے کا گوشت کہہ کر فروخت کررہے ہیں۔ سعودی عرب اور عرب امارات جہاں سب سے زیادہ خریدار ہیں وہاں کوئی بھینس کو جانتا بھی نہیں وہ صرف سرخ گوشت خریدتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جیسے ہمیشہ سے گائے کا گوشت آتا تھا وہی آرہا ہے۔ اگر اس گوشت کے ڈبہ کے اوپر بھینس کا فوٹو لازمی کردیا جائے تو آدھا گوشت بھی کوئی نہ خریدے۔ اور ان سے بھی تو معلوم کرو جو ناکارہ گؤماتا کو بازار میں ڈھونڈکر کاٹنے والوں کے ہاتھ اپنی ماں کو بیچ دیتے ہیں اور یہ نہیں معلوم کرتے کہ جب نہ یہ دودھ کی ہے اور نہ بچہ کی تو تم پانچ ہزار میں خرید کر کیا کروگے؟
انگریزوں نے مسلمانوں کی محبت میں گائے نہیں کٹوائی بلکہ اس لئے اس نے اجازت دی کہ اسے اس کے چمڑے کی ضرورت تھی۔ جو ہر ہفتہ جہاز میں بھرکر لندن جاتا تھا اور وہاں سے اس کی سیکڑوں چیزیں بن کر آتی تھیں اور ہم ہندوستانی خریدتے تھے۔ ہندوستان میں ایک سوئی بھی نہیں بنتی تھی ہر چیز ولایت سے آتی تھی۔ رہی چمڑے کی جیکٹ ٹوپی سوٹ کیس اور دوسرا سامان وہ سب لندن میں بنتا تھا۔ یہ ان کی چالاکی تھی کہ وہ ہندو مسلمانوں میں دشمنی کا بیج بوتے رہے۔ ورنہ ہندوؤں کی لکھی ہوئی تاریخ میں دیکھ لیا جائے کہ بابر نے ہمایوں کو مشورہ دیا تھا کہ گائے نہ کٹنے دینا اور ہر مسلم بادشاہ نے یہ پابندی باقی رکھی ، اورنگ زیب نے بھی اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ دیکھو مسلمان کو گائے نہ کاٹنے دینا۔ اس لئے مسلم ملکوں میں بھی ہندوستان کی طرح کارخانے نہیں تھے۔ ہر بڑے کو سمجھنا چاہئے کہ اب دنیا سمٹ گئی ہے۔ صرف ایک اخلاق کے قتل کی خبریں موٹی سرخیوں کے ساتھ دنیا کے ہر شہر میں چھپیں۔ بات آگے بڑھی تو بہت بھی بڑھ سکتی ہے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
جواب دیں