جہاں تک حالات کا تعلق ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی بعض احیائی تحریکوں نے مسلمانوں کو معاشی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ مسلمانوں کا وجود بھی انہیں برداشت نہیں‘ مذہب اورتہذیب کو برداشت کرنے کا سوال تو بعد میں آتاہے‘ مسلم مکت بھارت ان کا نعرہ ہے بابری سے دادری تک افسوسناک واقعات کا جانگسل سلسلہ ہے، گجرات کے فسادات حکومت کی نگرانی میں کرائے گئے تھے اور آج وہ حکومت مرکز میں بھی حکمراں ہے جس کی تشکیل کا بنیادی عنصر مسلمان دشمنی ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے مسائل کا تعلق بڑی حد تک اسی رویہ سے ہے جواحیائی تحریکوں نے اختیار کر رکھا ہے‘ چنانچہ مسلمانوں کی تہذیب ‘ ثقافت نعلیمی اداروں ‘ زبان اور پرسنل لا کو خطرہ اسی طرح کی تحریکوں سے ہے اور یہ عناصر مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب ہم ہندووں کی احیائی تحریکوں کانام لیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد پوری ہندو قوم نہیں ہوتی ہے‘ ہندو قوم کی اکثریت احیائی ذہنیت نہیں رکھتی اور تمام ہندو مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے‘ بہت سے غیر مسلم ادیبوں نے دادر ی کے مسلم کش حادثہ پر احتجاج کرتے ہوئے ساہتیہ اکیڈمی کا اوارڈ اور پدم شری اوارڈ واپس کردیا ، یہ اہم واقعہ مرغ بادنما کی حیبثیت رکھتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انصاف اور شرافت اس ملک میں زندہ ہے ، فرقہ پرستوں کو ادھر کچھ عرصہ سے فربہی ملی ہے لیکن یہ موٹاپا جسم کا ورم ہےٍ جو صحت مندی کی علامت نہیں، فرقہ پرستی کے غبارہ کی ہوا کچھ عرصہ میں نکل جائے گی، زیادہ تر ہندواور اس ملک اقلیتیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہندوستان کی سرزمین مختلف نسلوں اورتہذیبوں اور مذہبوں کے قافلہ کی منزل رہی ہے‘ سیکڑوں سال سے ہندوستان کا وجود اس تکثیریت کے سانچہ میں ڈھل چکاہے اور اس سانچہ کو نہ توڑا جاسکتاہے اور نہ بدلا جاسکتاہے‘ صدیوں سے ہندوستان کی تقدیرمیں یہی رنگا رنگی اور یہی بوقلمونی ہے‘ ہندووں کی ایک اقلیت نے، اس حقیقت کو نہیں سمجھا جس طرح سے مسلمانوں کی ایک اقلیت نے اس صورت حال سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا‘ حال کے اس مجمل اور مختصر تجزیہ کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتاہے مذہب اسلام کی روح ان حالات میں کیا رہنمائی کرتی ہے اور اس تہذیبی اور مذہبی بو قلمونی میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیا پیغام دیتی ہے‘ میرا خیال یہ ہے کہ مولانا آزاد کی بصیرت نے ان حالات میں اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئے اور ہندوستان کے مخصوص مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے بہتر رہنمائی کی ہے اور یہ رہنمائی مولانا آزادکی ایک تقریر میں زیادہ صاف نظر آتی ہے‘ مولانا آزاد کہتے ہیں:
’’میں مسلمانن ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں ‘ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں‘ میں تیار نہیں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم،اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم وفنون ‘ اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہیکہ اس کی حفاظت کروں‘ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں‘ اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے‘ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں‘ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی‘ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے‘ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں‘ میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ‘ میں اس کی تکوین کاایک ناگزیر عامل ہوں‘ میں اس دعوی سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔
(خطبات آزاد مرتبہ شورش کا شمیری)
کیا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ صحیح ترین رہنمائی نہیں ہے جو اسلام کی روح سے واقفیت کے ساتھ حالات کے شعور اور تجزیہ پر مبنی ہے‘ کیا آج کے حالات میں ایک محب وطن مسلمان کا بعینہ یہی موقف نہیں ہونا چاہئے جس کا مولانا آزاد نے اپنے خطبہ میں ذکر کیا ہے ؟
اگر مولانا آزاد کی تقریر کا یہ اقتباس اہم ہے تو اس کی اہمیت کا احساس کتنے لوگوں نے کیاہے‘ یہ اقتباس اس قابل ہے کہ خوبصورت طریقہ سے اسے لکھوایا جائے‘ چھپوایا جائے ، تقسیم کیا جائے ، آسمان سے برسایا جائےٍ اور گھروں میں اور ڈرائنگ روم میں دیوراروں پر فریم کرواکے اسے آویزاں کیا جائے تاکہ صحیح راستہ کا تصور ذہن اور دماغ میں واضح رہے اور پورے طور پر راسخ ہوجائے‘ مولانا آزاد نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے چھوٹے سے چھوٹے جز سے وہ دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ مسلمانوں کے لئے کسی ملک کی طرف ہجرت نہ کرنے اور ہندوستان میں قیام کرنے کے فیصلہ کی یہ نظریاتی اسا س ہے۔ یعنی مسلمانوں نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ اس یقین دہانی پر کیا ہے کہ کوئی ان سے ان کا عقیدہ نہ چھینے گا اور کوئی ان پر اپنی مشرکانہ تہذیب مسلط نہ کرے گا ہندوستان کے دستور نے اس کی یقین دہانی کی ہے۔مسلمانوں نے طے کیا ہے کہ وہ گھٹنے ٹیک دیں گے اور ہر حال میں دستور کی حفاظت کریں گے اور ہندوستان کی غالب اکثریت بھی یہی چاہتی ہے اور فرقہ واریت اور جارحیت سے نفرت کرتی ہے۔دستور کو بچانے کی جدوجہد میں اقلیتیں بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ شریک ہوں گی اور اکثریتی طبقہ کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوں گے ۔ مسلمانوں کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ان کی زندگی نوشتہ تقدیر بن چکی ہے‘ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ان کو اس ملک میں اسی حال میں رہنا ہے‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح وہ اس ملک کی آبادی کا ناقابل انکار حصہ ہیں‘ یہی قدرت کا فیصلہ ہے‘ اور اسلامی علوم کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے میں یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ قدرت کا یہ فیصلہ عظیم امکانات کا حامل ہے‘ بشرطیکہ مسلمان اپنے اندر وہ صفت پیدا کرلیں ان کامذہب جس سے متصف ہونے کی انہیں دعوت دیتا ہے‘ مسلمانوں کو حیرانی اور برگشتگی کے عالم سے بلاتاخیر باہر آجانا چاہئے ‘ اور ایک محب وطن مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے‘ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ اور جارحانہ رویہ معلوم‘ بلکہ واقعات سے ثابت، اور روز روشن کی طرح عیاں ،لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کو اس ملک میں ادا نہیں کر رہے ہیں‘ کیا مسلمانوں نے رکاوٹوں کے باوجود تعلیمی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے؟کیا مسلمانوں نے اس ملک کے دوسرے مظلوم اور محروم طبقہ کے ساتھ خیر خواہی خیرسگالی خدمت ، اور توحید اور مساوات کے عقیدہ کے تعارف کے لئے روابط قائم کئے ہیں ؟کیا ہم نے مساوات کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا ہے ، کیا ہمارے اعمال وکردار میں وہ خوبصورتی پیدا ہوگئی ہے اسلام نے جس کا ہم سے مطالبہ کیاہے ؟کیاہمارے اندر وہ اخلاقی خصوصیات موجود ہیں جن کا تجربہ کرکے برادران وطن یہ محسوس کریں کہ مسلمان ایک شریف انسان اوربہتر پڑوسی اور اچھا شہری ہوتاہے‘ اس کا پڑوسی ہونامحلہ کے لوگوں کے لئے اطمینان کی بات ہوتی ہے‘ اس کو اپنے کارخانہ میں اور اپنی کمپنی میں ملازم رکھنا کا رخانہ اورکمپنی کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ دوسروں سے زیادہ فہیم‘ مخلص ‘ محنتی‘ کارگذار اور امانت دار ہوتاہے‘ کیا ہم مسلمانوں نے خدمت ایثار اور قربانی اوراخلاقی بلندی کا کوئی نقش قائم کیاہے؟ ‘ ہم مسلمانوں کا حال بحیثیت مجموعی اقبال کے اس شعر کے مرادف ہے:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
کاش کہ ایسا ہوتاکہ برادران وطن کے سامنے مسلمانوں کی بہت اچھی تصویر ہوتی‘ وہ سمجھتے کہ مسلمان بے ایمانی اور کام چوری نہیں کرسکتاہے‘ انصاف اور سچائی کا راستہ اسے پسند ہے‘ انسانی اخلاقی اور ورحانی اقدار کے اعتبار سے وہ دوسروں سے بلند ارو زیادہ ممتازہے‘ وہ مسجد میں عبادت بھی کرتاہے اور ایمان داری کے ساتھ کام کرنے کو بھی عبادت کا درجہ دیتاہے‘ وہ کمزوروں کا مددگار اور غریبوں کا غم خوار ہوتاہے۔خدمت خلق اس کی پہچھان ہے، وہ شریف بااخلاق اور تعلیم یافتہ ہوتا ہے ۔وہ مذہبی تنگ نظری سے دور ہوتا ہے اور تمام انسانوں کو خدا کا کنبہ سمجھتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اسے اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بھی ہے، اوراس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ اپنے مذہب کو اپنے ہم وطنوں کے لئے سوغات نجات سمجھتا ہے ۔ اور حکومت میں ان لوگوں کو بر سراقتدار لانے کی کوشش کرتا ہے جو منصف مزاج ہوں اور مذہبی تنگ نظری سے دور ہوں اور ہندوستان کے دستور کی روح سے متفق ہوں۔مسلمانوں کو اس ملک میں اپنی یہ تصویر بنانی ہوگی اور مولانا آزاد کے مبنی بر اعتدال اور مبنی بر روح اسلام پیام کو ہر گھر ،ہر دیوار ود رہر فردوبشر اور تمام بحر وبر تک پھیلانا ہوگا ۔آئے ہم عہد کریں کہ ہمیں اس کام کو کرنا ہے ۔
مولانا آزاد کا جو اقتباس اوپر نقل کیا گیاہے وہ مسلمانوں کے لئے اس ملک میں صحیح ترین راستہ ہے جو اسلام کے گہرے مطالعہ پر مبنی ہے‘ اوراسی کے ساتھ گرد وپیش کے حالات کے گہرے تجزیہ پر اس کی اساس ہے‘ مولانا آزاد کے اس پیغام کو ملک اور ملت میں عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کا دستور بہت اچھادستور ہے۔ اسی دستور کی روح ہے جس کی بدولت بہت دیر سے سہی آزاد ہندوستان میں مولانا آزاد کے نام سے اردو کی ایک یونیورسیٹی قائم ہوسکی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس ملک میں دیر سویر باہمی رواداری کی فضا عام ہوگی‘ تلخیوں اور کدورتوں کا خاتمہ ہوگا ، مولانا آزاد اور جواہر لال نہروکے طرز فکر کا بول بالا ہوگا، یہ دو علامتی نام ہیں جو سیکولرزم کے تانے بانے کی حیثیت رکھتے ہیں ، یہ تار حریر دورنگ ہیں جس سے خوبصورت قبائے وطن تیار ہوتی ہے اور اس خوبی اور خوبصورتی کے بغیر ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہی نہیں ہے اور نہ امن وآشتی کا ماحول بن سکتا ہے‘ فیض احمد فیض کی طرح ہمیں بھی انتظار ہے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
جواب دیں