بابائے قوم مہاتماگاندھی کا ہر سال ۲؍اکتوبر کو یوم پیدائش منایا جاتا ہے اور تحریر و تقریر کے وسیلہ سے ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کیونکہ قوم پر ان کے احسانات ناقابل فراموش ہیں۔ گاندھی جی کی ساری زندگی مختلف محاذوں پر جنگ کرتے گزری جہاں انہوں نے باطل کی حکمرانی دیکھی فوراً حق وصداقت کا علم اپنے ہاتھوں میں تھامااوربے خوف سینہ سپر ہوگئے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں جہاں بھی کوئی خامی وکمزوری نظر آئی اصلاح کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ اپنی اس جرأت و بے باکی بنا پر انہیں مخالفوں کی دست درازی کی مزاحمت بھی کرنا پڑی، رسوائی و بدمزدگی کا ذائقہ بھی چکھنا پڑا مگر وہ دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ سچائی و انصاف کا دامن ہر دم تھامے رہے بالآخر کامیابی نے انہیں کے قدم چومے۔ مہاتماگاندھی اپنی اس بلند وبالا شخصیت کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں دنیا کے بڑے رہنما تسلیم کئے گئے، اپنے سیاسی نظریات، فلسفیانہ خیالات خصوصاً عدم تشدد پر مبنی نظریہ حیات نے انہیں سب کے لئے محترم بنادیا، وہ اپنے دور کے صحیح نباض تھے۔ گاندھی جی نے جنگ آزادی کے لئے جو لائحہ عمل اختیار کیا وہ اپنے وقت کا بڑا ادراک تھا ، وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ جان لینے اور خون بہانے کے راستے پر چل کر اُس سلطنت کو ہرانا ناممکن ہے جس کے پاس اپنے وقت کی زبردست مسلح طاقت ہے اس لئے انہوں نے جان لینے کے بجائے جان دینے کی ہمت قوم کے اندر پیدا کی۔ ظلم کا مقابلہ اسلحہ سے کرنے کے بجائے اہنسا سے کرنے کی تربیت دی جس کے نتیجہ میں ایک زبردست حکومت اُن کے عدمِ تشددآگے بے بس ہوگئی اور ملک آزاد ہوا مگر خون برساتی اور خون کی طالب فضائوں میں بھی انہوں نے اپنے عقیدے سے انحراف گوارا نہ کیا۔ ہندو انہیں دشمن سمجھنے لگے اور غصہ و نفرت کے ہاتھوں مجبور ایک پاگل ہندو نے انہیں گولی کا نشانہ بنادیا اور وہ ’’ہے رام‘‘ کہہ کر ختم ہوگئے مگر اپنے خون سے اس حقیقت کو ثبت کر گئے کہ ہندوستان کا روشن مستقبل ہندو مسلم اتحاد میں مضمر ہے ہندو مسلم منافرت میں ہرگز نہیں۔ ہرسال مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش آتا ہے تو ہم ہندوستانی انہیں بھلانے کا جشن دھوم دھام سے مناتے ہیں، ہر سال ۲؍اکتوبر کی تاریخ گزرجاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک گاندھی جی کے راستے سے ایک قدم اور پیچھے ہٹ گیا ہے، ویسے بھی مہاتماگاندھی کے ساتھ موجودہ ہندوستان کی نسبت بڑی متضاد اور مضحکہ خیز نظر آتی ہے، ایک ایسی ہستی جو درست کام کو بھی غلط ڈھنگ سے کرنے کی قائل نہیں تھی ایک ایسی قوم کی ہیرو مانی جائے جو غلط کام غلط طریقے سے کرنے کی عادی ہوگئی ہے۔ ایسے متعدد لوگ یا تنظیمیں اس ملک میں آج بھی موجود ہیں جنہوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ کام کیا، ان کی رہنمائی قبول کی یا آج تک ان کے طرزِ فکر کو ماننے کا دم بھرتے ہیں۔ گاندھی جی کی زندگی میں یہ افراد اور ادارے ان کے بھگت اور نام لیوا کہے جاتے تھے لیکن مہاتما کی آنکھ بند ہوتے ہی ایسا معلوم ہوا ہے کہ یہ سب ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور انہوںنے اُس راہ پر چلنا شروع کردیا جو خود اُن کی اپنی راہ ہے۔ مہاتماگاندھی پر سب سے زیادہ حق جتانے والی جماعت کانگریس ملک میں طویل عرصہ تک برسراقتدار رہی ہے لیکن ملک کے غریب عوام پہلے سے زیادہ پریشان اور امیر پہلے سے زیادہ مالداراورخوشحال بن گئے، ایک ایسی حالت یہاں پیدا ہوگئی کہ لوگ امن کیلئے، روٹی کیلئے اور انصاف کے لئے ترستے رہے اور گاندھی کے تمام نام لیوا اس صورت حال کا انسداد یا مقابلہ کرنے کے بجائے ایسا رویہ اختیار کرکے بیٹھ گئے کہ لوگوں کو یہ محسوس تک نہ ہو کہ ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والا یا بھلائی کرنے والا کوئی ایک کروڑ انسانوںکے اس جنگل میں موجود ہے۔ حکومت کے خلاف مظاہروں میں لاکھوں روپے کی املاک ہر سال جلادی جائیں ، دنگے وفساد میں انسانیت کا دن دہاڑے قتل عام ہو ، شہروں اور قصبوں کی سڑکوں پر ہریجنوں اور مسلمانوں کو راون کے پتلے کی طرح نذر آتش کیا جائے لیکن سارا ملک اس تماشے کو بے تعلقی کے ساتھ دیکھتا رہے۔ حالانکہ گاندھی جی تو نوا کھالی کے فساد زدہ اور جلتے ہوئے علاقے میں امن بحال کرنے کی خاطر گائوں گائوں اور قریہ قریہ پیدل پھرے تھے لیکن ان کے یہ موٹر نشیں نام لیوا ایسی جگہ جھاکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے جہاں تشدد اور ظلم کی چتا میں زندہ جلتے ہوئے بے قصور اور مظلوم لوگ چیختے چلاتے فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ۔ اس صورت حال میں آج کے دن مہاتماگاندھی کے نام کا تذکرہ یا ان کے صلابتِ کردار کا بیان فضا کو روشن کرنے کے بجائے پہلے سے زیادہ گلو گرفتہ اور دھندلا بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں