ہندی پٹی میں گرم ہندوتوا بمقابلہ نرم ہندوتواکی سیاست پھر ناکام
نور اللہ جاوید، کولکاتا
تلنگانہ میں جیت اور تین ریاستوں میں شکست کانگریس اور انڈیا بلاک کے لیےسبق پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ ہندی بیلٹ میں نریندر مودی کی شخصیت کے سامنے فلاحی اسکیمیں، ذات پات کے ایجنڈے اور مضبوط علاقائی لیڈر ناکام ہیں۔ راجستھان میں ہر پانچ سال بعد حکومت تبدیل ہوتی ہے، اس لیے یہاں گہلوت کی رخصتی طے مانی جا رہی تھی لیکن اقتدار کے آخری دنوں میں گہلوت نے شاندار واپسی کی تھی، جبکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شکست حیران کن ہے بالخصوص چھتیس گڑھ میں تو بیشتر ایگزٹ پولوں نے کانگریس کی واپسی کے واضح اشارے دیے تھے۔ اس کے باوجود کانگریس کی شکست ہوئی۔ ایسے میں ان دو ریاستوں میں کانگریس کی شکست نے اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کے امکانات کو معدوم تو نہیں مشکل ضرور کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد اس جھٹکے سے باہر نکل سکے گی؟ اس حقیقت کو بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں ان تین ریاستوں میں کانگریس نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اس کے باوجود لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی مان رہے تھے کہ اگر ان تین ریاستوں میں بی جے پی کو شکست ہوجاتی تب بھی لوک سبھا انتخابات میں ان تین ریاستوں میں بی جے پی بیشتر سیٹوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔چنانچہ ان پانچ ریاستوں کے نتائج کو اگلے سال لوک سبھا انتخابات کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس نکتے پر غور کرنا ہوگا کہ آخر مودی کے پاس کون سی جادوکی چھڑی ہے جس کی بدولت ہندی بیلٹ میں وہ غیر مفتوح ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جادو کی یہ چھڑی تلنگانہ اور میزورم جیسے غیر ہندی ریاستوں میں کام کیوں نہیں کرتی ہے؟ حالانکہ میزورم میں بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی قومی جماعتیں ناکام رہی ہیں۔شمال مشرقی ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کا عروج ہے۔میگھالیہ کے بعد میزوروم میں علاقائی قیادت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندی بیلٹ کی ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی جیت نریندر مودی کی مقبولیت، آر ایس ایس اور بی جے پی کی تنظیمی صلاحیتوں کی مرہون منت ہے۔مدھیہ پردیش میں پندرہ سال تک وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود شیوراج سنگھ کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔اسی طرح راجستھان میں وسندھرا راجے سندھیااور چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کے چہرے کو آگے نہیں لایا گیا۔چنانچہ ان تینوں ریاستوں میں اسمبلی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی علاقائی سیاست، علاقائی مسائل اور مقامی ایجنڈے پر گفتگو کرنے کے بجائے ’’بھارت کے مزعومہ فخر‘‘، تہذیبی و ثقافتی بالادستی، ہندوتوا جیسے ایشوز پر زیادہ بات کرتے ہوئے نظر آئے۔فلسطین جیسے انسانی بحران کو بھی بی جے پی نے ہندوتوا اور اسرائیل کی دوستی سے جوڑ کر خاموشی سے مسلمانوں کو ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا۔انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ نے بار بار ریلیوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2024 میں مودی کو وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ان ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دینا ہوگا۔ لہذا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ بلکہ یہ دیکھیں کہ بھارت کی تہذیب و ثقافت و کلچر کی بالادستی کے لیے مودی کا پی ایم رہنا کتنا ضروری ہے۔ مودی کو ایک ابھرتے ہوئے عالمی رہنما کے طور پر دکھایا گیا کہ کس طرح مودی نے عالمی منظر نامے میں بھارت کے مقام کو بلند کیا۔اس طرح بی جے پی ہندی بیلٹ میں ذات پات اور طبقاتی خطوط سے قطع نظر حمایت کی بنیاد کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ مثال کے طور پر چھتیس گڑھ میں کمزور ریاستی قیادت کے باوجود بی جے پی چونتیس قبائلی نشستوں میں سے بیس نشستوں پر برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔اس ریاست کی آبادی کا تقریباً 1/3 حصہ قبائلی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذات پات کی لکیروں سے پرے مودی کی مقبولیت اور ان پر ووٹروں کا اعتماد 2014 سے بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے جو اب بھی برقرار ہے۔ مگر بی جے پی کی جیت سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں فلاحی ایجنڈے اور کامیاب ویلفیئر اسکیموں کے باوجود کانگریس شکست سے دو چار کیوں ہوئی؟ مدھیہ پردیش میں اتنی بڑی شکست کیوں ہوئی جبکہ ووٹنگ سے قبل یہ مانا جارہا تھا کہ کانگریس کی واپسی یقینی ہے؟ دراصل کرناٹک اسمبلی انتخابات کے بعد کانگریس نے علاقائی لیڈرشپ کو فروغ دینے کی حکمت عملی اختیار کی۔کانگریس نے بہار میں ذات پات کی بنیاد پر سروے کو بنیاد بناکر پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران اس کو بڑی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی مگر ہندوتوا کے ایجنڈےکے سامنے ذات پات کی سیاست قائم نہیں رہ سکی جبکہ مدھیہ پردیش میں قبائلیوں اوردلت طبقے کی بدحالی، زمین سے محرومی کی متعدد رپورٹوں کے باوجود بی جے پی کی پکڑ ان حلقوں میں مضبوط ہے۔سوال یہ ہے کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے جواب میں کانگریس کی حکمت عملی کیا تھی۔راہل گاندھی نظریاتی طور پر ہندوتوا کے سخت مخالف بن کر ابھرے ہیں مگر مدھیہ پردیش اور چھتس گڑھ میں کمل ناتھ اور بگھیل نے نرم ہندوتوا کی حکمت عملی اختیار کی تھی۔جارحانہ ہندوتوا کی تنقید کرنے کے بجائے ہندوتوا کی پالیسیوں کو اختیار کرلیا تھا۔اس معاملے میں کانگریس ہمیشہ لغزش کا شکار ہوجاتی ہے اور پے درپے شکست کے باوجود وہ یہ سبق سیکھنے میں ناکام رہی ہے کہ ہندوتوا کے مقابلے میں اس کو لبرل اور سماجی انصاف کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہوگا۔تلنگانہ کانگریس نے ہندوتوا کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کی، اقلیتوں کے مسائل پر بات کی اور سماجی انصاف کے ایجنڈے کو آگےبڑھایا۔ ان تین ریاستوں میں کانگریس کی شکست کے بعد دو اہم ایشوز کانگریس کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ایک بھارت جوڑو یاترا کی افادیت پر سوال اٹھے گا کہ ان تین ریاستوں میں بھارت جوڑو یاترا کے اثرات مرتب کیوں نہیں ہوئے مگر اس نکتے پر بھی غور کرنا ہوگا کہ اگر بھارت جوڑو یاترا نہیں ہوتی تو پھر کیا ہوتا؟ دوسرا، ہندوتوا کے نظریاتی رد عمل میں ذات پات کی سیاست اور سماجی انصاف کے ایجنڈے کی ناکامی موضوع بحث بن جائے گی۔ ہندی ریاستوں میں کانگریس کی ناکامی کے بعد انڈیا اتحاد کے مستقبل پر بات شروع ہوگئی ہے۔اتحاد میں شامل پارٹیاں کانگریس سے سوال کریں گی کہ کانگریس نے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں متکبرانہ رویے کا مظاہرہ کیوں کیا؟ سماج وادی اور دیگر علاقائی جماعتوں کو ساتھ شامل کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی؟ کانگریس کی شکست کے بعد انڈیا اتحاد میں قیادت کا سوال ایک بار پھر کھڑا کیا جائے گا۔ اتحاد کے بڑے مقاصد کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ اتحاد نے ابھی تک کوئی ایسا وژن پیش نہیں کیا جو بی جے پی کے نظریے کا ایک بامعنی متبادل معلوم ہو۔ یہ نظریاتی دیوالیہ پن، اتحاد میں مزید دراڑیں پیدا کر سکتا ہے۔ ان تین ریاستوں میں کانگریس کی شکست کے بعد راہل گاندھی اور انڈیا اتحاد کے سماجی انصاف کے نظریات کی افادیت اور بی جے پی کے ہندوتوا کے ایجنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ہتھیار کے طور پر ذات پات کی مردم شماری کے مطالبے پر بھی سوالات ہوں گے۔ بہر حال ان تین ریاستوں کے نتائج سے اتنا تو ثابت ہوگیا کہ ذات پات کا سوال ہندوتوا سے آگے بڑھنےکے قابل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بھوپیش بگھیل اور اشوک گہلوت کی فلاحی پالیسیاں الیکشن جیتنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔راہل گاندھی اور اپوزیشن کو نئے سرے سے ایسے مرکزی پلیٹ فارم تلاش کرنے ہوں گے جہاں سے اس کی مہم چل سکتی ہے۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے کانگریس کو ایک راہ ضرور دکھائی۔ ایک سال پہلے تک حیدرآباد میں سڑکوں پر بات یہ ہوتی تھی کہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان لڑائی 50:50 کی ہے اور کانگریس کوئی بڑی کھلاڑی نہیں ہے۔مگر کانگریس نے ایک سال کے پہلے کے مفروضے کو نہ صرف ناکام بنادیا بلکہ دس سال بعد اقتدار میں شاندار واپسی بھی کی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کی واپسی کی کئی وجوہات ہیں۔بی آر ایس نے خود کو غیر مفتوح سمجھ رکھا تھا۔ اس کو حدسے زیادہ اعتماد تھا کہ اقلیت اور دلت طبقے کے ووٹر اس کے سوا کہیں نہیں جائیں گے۔فلاحی اسکیموں کی بھی مارکیٹنگ بڑے پیمانے پر کی گئی تھی۔کانگریس نے پہلے ریاست میں پارٹی کے صفوں میں بہتری لائی، اختلاف اور گروہ بندی کو ختم کرنے کی کوشش کی اور نوجوان قیادت کو آگے بڑھایا تو دوسری طرف بی آر ایس کی فلاحی اسکیموں کا تجزیہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے حقائق سامنے لانے کی کوشش۔چندر شیکھر راو نے اپنی پانچ اسکیموں کو بنیاد بناکر انتخاب جیتنے کی کوشش کی جبکہ کانگریس نے انہی پانچ اسکیموں کے حقائق کو سامنے لاکر تلنگانہ کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی ۔ان اسکیموں میں سے ایک کلیان لکشمی ہے، جس کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے ایک لاکھ روپے دیے جاتے ہیں، جب کہ مشترکہ آندھرا پردیش میں بنگارو تلی اسکیم کے تحت ہر ایک لڑکی کو 2.6 لاکھ روپے دیے جاتے تھے۔ بی آر ایس نے رقم کم کردی تھی۔ مشترکہ آندھرا پردیش میں کانگریس حکومت غریبوں کو چاول اور ضروری اشیاء دیتی تھی اب صرف چاول دیا جاتا ہے۔ تیسرا پنشن ہے۔ مشترکہ ریاست میں ضعیف مرد اور عورت دونوں کو پنشن ملتی تھی۔ اب ایک گھر میں صرف ایک معمر فرد کو پنشن دی جاتی ہے۔ کسانوں کو بلا سودی زرعی قرضے ملتے تھے جسے ختم کر دیا گیا۔ تلنگانہ میں کانگریس کی کرشماتی شخصیت ریونت ریڈی کو جن کی عمر ساٹھ سال سے کم ہے، قیادت سونپ کر کانگریس کی اعلیٰ قیادت ان کے ساتھ کھڑی رہی۔جبکہ باقی تین ریاستوں میں علاقائی لیڈروں پر پورا بھروسہ کیا گیا۔ ماضی کے برعکس، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے تلنگانہ میں کافی وقت گزرا، راہل گاندھی نے پارٹی کی ریاستی قیادت کی طرف سے نکالی گئی وجے بھیری یاترا میں بھی شرکت کی۔ پارٹی نے اندراما راجیم (اندرا گاندھی نے 1980 میں میدک سے انتخاب جیتا تھا) اور ریاست کی تشکیل میں سونیا گاندھی کی طرف سے ادا کیے گئے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی اپیل کی۔ کانگرس حالیہ برسوں میں اقلیتی مسائل پر بات چیت کرنے سے گریز کرتی رہی ہے مگر تلنگانہ میں اقلیتوں کے مسائل پر بات کرنے سے کانگریس نے گریز نہیں کیا۔ اسدالدین اویسی-بی آر ایس اور بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ پر کھل کربات کی اور اویسی بھی کانگریس کے خلاف جارحانہ مہم میں یہ فرق بھول گئے کہ اس سے کانگریس کو فائدہ پہنچے گا ۔کیونکہ وہ ابھی تک بی جے پی کے خلاف زیادہ سخت بیان بازی کرتے رہے تھے۔اس الیکشن میں ان کا پورا زور کانگریس کی مخالفت میں تھا۔ 2023 کے انتخابات نے سیاسی خطوط پر جغرافیائی تقسیم کو واضح کیا ہے۔ہندی بیلٹ گجرات، گوا اور مہاراشٹر کا رجحان بڑی حد تک بھگوا پارٹی کی طرف ہے۔کانگریس اور اپوزیشن جماعتیں بنیادی طور پر جنوب اور مشرقی ریاستوں (مغربی بنگال اور اڑیسہ) میں اقتدار میں ہیں۔ 2026 میں ہونے والی حد بندی کی مشق سے توقع کی جارہی ہے کہ جنوبی ریاستوں میں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور ہندی بولنے والی ریاستوں میں اضافہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے جنوبی بھارت کی سیاست متاثر ہوگی۔ایسی صورت میں دونوں جماعتوں کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔موجودہ سیٹوں کی تعداد اور آبادی کے تخمینے کے مطابق، چھتیس گڑھ کی لوک سبھا سیٹیں گیارہ سے بڑھ کر بارہ، مدھیہ پردیش کی انتیس سے چونتیس اور راجستھان کی پچیس سے بتیس ہو سکتی ہیں۔ اس کے برعکس، تلنگانہ کی سترہ سے کم ہو کر پندرہ ہو سکتی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں سیٹوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے جو اسی سے بڑھ کر بانوے تک جاسکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جنوبی بھارت کی قومی سیاست میں کم حصہ داری ایک بڑے بحران کو پیدا کرسکتی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی ایک سبق ہے۔ پہلے کانگریس کو نوجوان قیادت کو آگے بڑھانا ہوگا، مرکزی اور علاقائی قیادت کے درمیان تال میل قائم کرنا ہوگا، فلاحی اسکیموں کے زمینی اثرات دکھانے ہوں گے اور اقلیتی طبقہ بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے مسائل پر بھی بات کرنی ہوگی۔ ایک سب سے بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ مودی غیر مفتوح ہیں۔ بس ضرورت صحیح حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، زمینی حقائق کا ادراک اور ہندوتوا کے مقابلے کے لیے نرم ہندوتوا کی پالیسی کے بجائے گاندھی اور نہرو کے نظریات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ممکن ہے کہ بیانیہ مضبوط کرنے میں سال لگ جائے مگر اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں